• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ایک مرتبہ فوجی عدالتوں کے قیام کوناگہانی صورت ِحال سے نمٹنے کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہوئے یہ جواز پیش کیا گیا کہ غیر معمولی صورت ِحال غیر معمولی فیصلوں کی متقاضی ہوتی ہے ، نیز یہ بھی کہا گیا کہ اس دوران ہمیں اپنے جسٹس سسٹم کی خامیاں دور کرکے اسے توانا کرنے کا موقع مل جائے گا تو ہم میں سے کئی ایک نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ایک مرتبہ ہم پٹری سے اتر گئے تو پھر ڈھلوان سے پھسلنے کے عمل کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔ ہماری طاقتور اشرافیہ غلطیوں کے گرد دلائل کا حصار کھینچنے کی کمال مہارت رکھتی ہے ۔ اب ہمیں کہا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ میں فوجی عدالتوں کو نئی زندگی دینے اور ان کا دائرہ کار بڑھانے پر مکمل اتفاق ِرائے موجود ہے ۔ کیا یہ سابق غلطی کا اعادہ تو نہیں ؟
جب ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں پرسفری پابندی عائد کرتے ہوئے مسلم رجسٹری قائم کرتے ہیں تووہ اس کے لئے دوسری جنگ ِعظیم کے دوران جاپان نژاد امریکیوں کو دی جانے والی سزا کی مثال کا حوالہ دیتے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ نے’’Korematsu v. United States‘‘کیس میں ایگزیکٹو آرڈر کو برقرار رکھا تھا۔ تین جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ جسٹس رابرٹ جیکسن نے نظریہ ضرورت کے نام پر آئین اور قانون کی حکمرانی میں ’’ملاوٹ ‘‘ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا اقدام خطرناک مثال پیش کرے گا۔ اُنھوں نے لکھا۔۔۔’’ایک ملٹری آرڈر، جو آئینی ہو، ملٹری ایمرجنسی کے دوران مستعمل رہتا ہے ، لیکن جب ایک مرتبہ اس پر عدالت سے رائے لے لی جاتی ہے تو یہ آئین سے مطابقت حاصل کرلیتا ہے ، بلکہ یہ آئین کو ایسے حکم ناموں کو تسلیم کرنے کی راہ دکھادیتا ہے ۔ چنانچہ آنے والی تمام عدالتیں جرائم میں نسلی امتیاز کے اصول تسلیم کرتی رہیں گی۔ اس طرح یہ اصول ایک بھرے ہوئے ہتھیار کی طرح ہے جو اتھارٹی کے ہاتھ تھما دیا گیا ہے جو کبھی بھی ناگہانی صورت ِحال کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے استعمال کرسکتی ہے۔‘‘
آرمی پبلک اسکول پر ہولناک حملے کے بعد ہماری حکمران اشرافیہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے ، لیکن ذہن اتنا کام ضرور کررہا تھا کہ لگے ہاتھوں آئین میں ترمیم کرکے فوجی عدالتوں کا جوازپیش کردے ۔ اس کے بعد جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا، تو اگرچہ فاضل عدالت کے پاس آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے لیکن اس نے رولنگ دی کہ فوجی عدالتیں نہ تو ہمارے آئینی نظام میں اختیارات کی علیحدگی کے تصور سے باہر ہیں اور نہ ہی ان سے آئین کے تحت شہریوں کو حاصل بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے ۔ اس طرح فوجی عدالتیںہماری ریاست کے ہاتھ میں وہ بھراہواہتھیار بن گئی ہیں جن کا کسی بھی ناگہانی صورت ِحال میں استعمال کا جواز نکلتا ہے ۔
اس افسوس ناک کہانی میں مقتدر ادارے پر کوئی الزام نہیں آتا۔عدالت میں جانے والے کسی بھی فریق کی پہلی چوائس یہ ہوتی کہ جج اس کی طرفداری کرے ۔ اور اگر ایسا نہیں تو پھر یہ کہ کم از کم جج آزاد اور انصاف پسند ہوجو غیر جانبدار ہوکر قانون کے مطابق فیصلہ کرے ۔ کیا پولیس یہ نہیں چاہتی کہ وہ خود ہی تحقیقا ت کار، مدعی،منصف اور جلاد کا کردار ادا کرے ؟اگر اُنہیں چوائس دی جائے تو کیا پولیس مین یہ نہیں چاہیں گے کہ انصاف کی کرسی پر بھی کوئی ساتھی پولیس مین ہی بیٹھا ہو جو گرفتار شدہ افراد، جنہیں وہ قصور وا ر سمجھتے ہیں، کو سزا سنادے ؟ فوجی عدالتوں کا قیام اور ان کی مسلسل حمایت ہماری فہم و فراست پر کچھ پریشان کن سوالات اٹھاتی ہے کہ ہمارے قانونی نظام، پالیسی سازی اور عوامی سوچ کے نزدیک بنیادی اصولوں کی کیا اہمیت ہے ؟کیا ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گردی یا دیگر گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے بھی کوئی حقوق ہوتے ہیں؟کیا ملزم کے پاس اپنے دفاع کے لئے اپنی مرضی کاوکیل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے ؟نیز کیا کسی مجرم کی نمائندگی کرنے پر وکیل کی طرف بھی انگشت نمائی کی جانی چاہیے ؟ یا پھر ملزم اور قصور وار میں فرق کو بالکل ہی ختم کردیا جائے ؟
فوجی عدالتوں کی حمایت اوراجازت عدلیہ کی آزادی اور اس کی ایگزیکٹو سے علیحدگی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟کیا ہمارے آئینی اصول اس بات کی وضاحت نہیں کرتے کہ عدالت کو ایگزیکٹو سے الگ ہونا چاہیے تاکہ ریاست اور شہریوں کے درمیان معاہدے کو قائم رکھا جاسکے ؟اگرہماری اعلیٰ عدلیہ نے دیکھنا ہے کہ کہیں ایگزیکٹو کا عہدہ آئینی حدود سے تجاوزتو نہیں کررہا ہے ، نیز ایگزیکٹو کے ارکان عدالت کے اختیارات تو استعمال نہیں کررہے ، تو پھر یہی اصول فوجی عدالتوں پر لاگو کیوں نہیں ہوتا؟ کیا ہماری عدالتوں نے ایگزیکٹو ایجنسیوں اور محکموں کی اپیلوں پر یہ نہیں کہا کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ایک ایسے آزاد فورم کی ضرورت ہے جوایجنسی کے اثر سے باہر ہو؟یہ اصول اگر دیگر امور ، جیسا کہ ٹیکسز وغیرہ پر لاگو ہوتا ہے تو پھر اس اہم ترین معاملے پر کیوں نہیں جس میں شہریوں کی زندگی اور آزادی خطرے میں ہوتی ہے ؟اگر اس اصول کا اطلاق صرف جرائم پر ہی ہوتا ہے تو پھر معمولی جرائم میں پولیس کی کارروائی کوبھی عدالتی اسکروٹنی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے ، جیسا کہ دہشت گردی میں سزائے موت پانے والوں کی بابت یہ ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قانون کا مروجہ اصول یہ ہے کہ جرم ثابت ہونے تک انسان کو بے قصور مانا جائے، نیز جرم ثابت کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہوگی۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 13بہت واضح انداز میں کہتا ہے۔ ۔ ۔ ’’کسی بھی ملزم کو اس کے جرم کا خود ثبوت فراہم کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔‘‘تو پھر فوجی عدالت سے سزا پانے والے زیادہ تر افراد کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی بجائے اُن کے اعتراف کی بنیاد پر سزا کس طرح سنائی جاتی ہے ؟اگر ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جو ناکافی ثبوت کی وجہ سے عدالتوں سے مجرموں کی رہائی کو برداشت نہیں کرسکتا اور ہم ایسی عدالتیں بنانے پر تل چکے ہیں جہاں پیش ہونے والے ملزمان کو سو فیصد سزا ملے سکے تو پھر بسم اﷲ، قانون میں تبدیلی کرلیں اور طے کرلیں کہ سزائے موت دینے کے لئے ثبوت کا معیار امکانات کے ترازو میں تلے گا۔ چنانچہ شکوک و شبہات کو ایک طرف رکھیں اور کھل کر اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ ہم ایک ایسی ریاست کے شہری ہیں جو قیاس کی بنیاد پرکسی کی بھی جان لے سکتی ہے ۔ کیا ہوا اگر وسیع قومی مفاد میں کسی بے گناہ کی جان چلی جائے ؟
دراصل ہم ایک ایساہجوم بن چکے ہیں جو صحیح اور غلط کی تمیز سے عاری ہوچکا ہے ۔ ہم آرٹیکل 10A کے تحت حقوق کا تعین کرتے ہوئے منصفانہ طریق ِ کار اختیار کرنے کی وکالت کرنے والوں کو جرم اور قانون شکنی کا حامی سمجھتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ انفرادی کیسز میں ہماری پسند کے مطابق فیصلے آجائیں تو اچھا ہے ، لیکن اصولوں کی بنیاد پر انصاف کرنے والا نظام نہ تشکیل پاسکے ۔ ہم اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی بجائے اصولوں کا راستہ روکتے ہوئے طمانیت کا جھوٹا احساس پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمارے مائل بہ زوال اخلاقی قطب نما کی سوئی کی سمت اتنی ہی پریشان کن ہے جتنی مسائل پر غورو فکرکرتے ہوئے ان کی وجوہات کا تعین اور ان کاتدارک کرنے کے لئے کوئی واضح پالیسی بنانے میں ناکامی۔ کیا دہشت گردی کے مقابلے میں ریاست کی طرف سے انتقامی کارروائی درست حکمت ِعملی ہے؟ حالیہ دنوں دہشت گردی کی نئی لہر نے ایک ہفتے میں ایک سو افراد کو ہلاک کردیا تو ہمیں بتایا گیا کہ ریاست نے ایک دو روز کے اندر اتنے ہی دہشت گردوں کو پار کردیا۔ یہ دہشت گرد کو ن تھے؟ کیا اُنہیں مقابلوں میں ہلاک کیا گیا یا جرائم پر سزا سنائی گئی؟ کیا ایسے ہنگامی رد ِعمل سے شہری محفوظ زندگی بسر کرنا شروع کردیں گے ؟
دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کی دووجوہ ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جن دہشت گردوں کا ہمیں سامنا ہے ، وہ محض سخت سزا ملنے کے خوف سے دہشت گردی ترک کرکے امن پسند شہری بن جائیں۔ دوسری یہ کہ سویلین عدالتوں سے مجرم اس لئے رہا ہوجاتے ہیں کیونکہ یا توبعض منصف اُنہیں سزا سنانے کے مضمرات سے خائف ہوتے ہیں یا پھر اُن کے خلاف عدالت میں مناسب ثبوت موجود نہیں ہوتے ۔ دونوں وجوہ ہی مسئلے کے حل کے لئے ناکافی اور غلط ہیں کیونکہ ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والا محض سخت سزا کی دھمکی سے ڈر کر خود کش جیکٹ اتار دے۔ ایک بات اور، یہ سخت سزا نہیں جو جرائم کی روک تھام کرتی ہے ۔
بلکہ یقینی طور پر سزا ملنے کا خوف معاشرے کو مجرموں سے نجات دلاتا ہے ۔ چنانچہ ایسے ایڈہاک قسم کے اقدامات یقینی سزا کا خوف پیدا نہیں کرتے ۔ جہاں تک ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمان کے رہاہوجانے کا تعلق ہے تواس میں سویلین عدالت کے جج صاحبان کاکوئی قصور نہیں۔ اس کے لئے تحقیقات کا نظام درست کرنا ہوگا۔ ایک بات یادر کھیں، جب تمام جز وقتی اور ہنگامی فعالیت جواب د ے جائے گی تو ہمیں آخر کار اپنے ’’دیمک زدہ سویلین نظام ‘‘ کو ہی درست کرنا ہوگا۔ ہم جتنی جلدی ایسا کرلیں ، اتنا ہی بہتر ہوگا۔

.
تازہ ترین