• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں پنجاب پولیس کی نئی یونیفارم کے کافی چرچے ہیں۔ آئی جی پنجاب پنجاب پولیس کا کردار تو تبدیل نہ کرپائے، نہ ہی تھانہ کلچر کا خاتمہ کرسکے، مگر عین ریٹائرمنٹ کے وقت انہوں نے پنجاب پولیس کی وردی ضرور تبدیل کردی! ان کے نزدیک شاید وردی ہی پولیس کے نظام کی ضامن ہے جسے کالے رنگ نے آلودہ و فرسودہ کر رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کالا رنگ بدل جانے سے پولیس کے کردار پر لگی منحوس کالک بھی اتر جائے گی؟ کیا یونیفارم چینج کے بعد ڈیڑھ صدی سے معصوم شہریوں کی معاشرت پر پنجے گاڑے بیٹھا کوتوال اور داروغہ گیری کا نظام بھی تبدیل ہوجائے گا؟ کیا اب شہریوں کو یہ امید باندھ لینی چاہئے کہ ان کے جان و مال اور عصمت و تکریم کو ہر حال میں تحفظ ملے گا؟ تھانوں میں ان کیساتھ زیادتی نہیں ہوگی؟ ایف آئی آر درج کروانے کیلئے اب انہیں ایک دھیلا بھی رشوت نہیں دینا پڑیگی اور تھانے کا باکردار عملہ تفتیش و تاغیث میں تنگ کرنے کے بجائے ان کیساتھ انسانی سلوک روا رکھتے ہوئے ہر ممکن تعاون کریگا؟ یہ منطق کچھ زیادہ ہی نرالی ہے کہ پولیس کو عوام کے مزید قریب لانے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے یونیفارم کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ دہشت، حیوانیت، بدکاری، رشوت خوری اور غیر انسانی رویوں کی شکل میں تمام متناقصات اور خرابیوں کی جڑ محض پولیس کی کالی وردی ہی تھی (حالانکہ ابھی تو یہ ہاف بلیک تھی)۔۔ نئی نسواری وردی کے خالق کہتے ہیں، یہ ڈارک اولیو گرین کلر جاذبِ نظر ہونے کیساتھ ساتھ فیلڈ میں رہنے والے اہلکاروں کو دورانِ ڈیوٹی سورج کی تمازت اور گرمی کی شدت سے محفوظ رکھے گا۔ اوّل بات تو یہ ہے کہ ہماری پولیس دھوپ میں ڈیوٹی دیتے کبھی دیکھی نہیں گئی، اور اگر کبھی کسی جلسے جلوس یا دھرنے کی سیکورٹی کیلئے ان کی ڈیوٹی لگ جائے تو وہ چھائوں کا کوئی نہ کوئی کونہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں اور حفاظتی اقدامات سے زیادہ اپنی جان اور صحت کی پروا کرتے ہیں۔ پٹرولنگ اور موبائل والے بھی گاڑیوں سے باہر نکلنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور مشکوک راہگیروں اور مطلوب دُکانداروں وغیرہ کو متکبرانہ اشاروں سے اپنے پاس بُلا کر ان سے سلام و تسلیم کرنے اور تہذیب سے پیش آنے کے بجائے صاحب بہادر والے مخصوص انداز میں مخاطب ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو عملہ یا افسران دفتروں میں بیٹھتے ہیں وہ تو یخ بستہ ماحول کی مخلوق ہیں، ہرے یا کالے رنگ کی وردی سے انہیں کیا فرق پڑنے والا ہے۔ نسواری وردی کی ایک خاصیت یہ بھی گنوائی گئی ہے کہ ’’اہلکار کا نام اور پیٹی نمبر مع شہر اس کے چیسٹ پر درج کیا گیا ہے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کوئی بھی شہری پولیس اہلکار کا نام، شہر اور پیٹی نمبر بآسانی جان جائیگا اور پولیس اہلکاروں کو بھی یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے گی کہ غیر مہذب اور غیر انسانی رویے کا مظاہرہ کرنے پر صرف ایک فون کال کے ذریعے آئی جی آفس کے کمپلینٹ سیل 8787 پر ان کیخلاف شکایت ہوسکتی ہے‘‘۔ اہلکاروں کے اس تعارف سے بظاہر تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ مانیٹرنگ اور کمپلینٹ سیل کی ایک اہم کڑی ہے جس سے بدتمیز اور جھگڑالو قسم کے روایتی پولیس اہلکاروں کیلئے سدھرنے یا نوکری چھوڑنے کے علاوہ تیسرا کوئی راستہ نہیں بچتا مگر چند دنوں سے دیکھنے میں تو یہ آرہا ہے کہ ناکوں پر کھڑے پولیس اہلکاروں نے نام اور پیٹی نمبر کے بیجز ابھی سے ہٹا دیئے ہیں تاکہ ان کی شناخت ہی نہ ہو سکے۔ایک ماڈل تھانہ کے نائب محرر نے تو نئی وردی کا افتتاح ایک مظلوم خاتون کو زیادتی کا نشانہ بناکر کیا جس کی انکوائری ایک خاتون پولیس افسر کے پاس ہے۔ ابھی تو نئی وردی کی سلوٹیں بھی نمایاں نہیں ہوئیں کہ ’’رابری اِن نیو پولیس یونیفارم‘‘ کی خبر بھی سننے کو مل گئی ہے۔ 59 برس پہلے بھی جب پاکستان پولیس کی یونیفارم تبدیل کی گئی تھی تو اس تبدیلی کے پیچھے بھی کچھ ایسا ہی واقعہ تھا۔ جنرل موسیٰ 1958ء میں پاک فوج کے کمانڈر انچیف بنے تو انہوں نے ایوب خان سے سفارش کی کہ پاکستان پولیس کی وردی چونکہ فوج کی وردی سے انتہائی مشابہت رکھتی ہے، اس لئے اسے تبدیل کیا جائے۔ جنرل ایوب خان نے ابھی تازہ تازہ مارشل لا نافذ کیا تھا انہوں نے پہلا کام پولیس کی وردی کی تبدیلی کا ہی کیا۔ پہلے جو یونیفارم تجویز کی گئی وہ مکمل طور پر سیاہ پارچہ (ملیشیا) کی تھی مگر اس پر کچھ بیورو کریٹوں نے رائے دی کہ برطانوی آقائوں کی کچھ نشانی تو باقی رہنی چاہئے، اور بوقتِ ضرورت پولیس کو نیم فوجی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، اسلئے یونیفارم کی صرف شرٹ تبدیل کی گئی جبکہ پتلون خاکی ہی رکھی گئی۔ یہ واحد ریفارم تھا جو مشرف کے دور سے پہلے پاکستان پولیس میں کیا گیا۔ تب وردی میں جزوی تبدیلی لائے جانے کے بعد بھی پولیس کی وارداتیں جاری و ساری رہیں اور آج سالم وردی تبدیل ہو جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ رُک نہیں پایا۔ پنجاب پولیس کی نئی وردی کی صوبہ بھر میں ترسیل ابھی مرحلوں کا سفر طے کررہی ہے کہ یہ معاملہ ہر آئے روز متنازع بنتا جارہا ہے۔ کچھ ناقدین نے تو اسے ’’پنجاب پولیس یونیفارم سکینڈل‘‘ کا نام بھی دے دیا ہے۔ وطنِ عزیز میں حکمرانوں کی طرف سے من پسند افراد کو ٹھیکے دینے کی باتیں ہر دور میں سامنے آتی رہی ہیں۔ کچھ پراجیکٹس حکومتوں کی طرف سے دانستہ طور پر شروع کئے جاتے رہے ہیں جن میں کمیشن اور کرپشن کا آدھا آدھا مارجن ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ہیلمنٹ اسکینڈل کافی شہرت کا حامل رہا ہے۔ پنجاب پولیس کا یونیفارم تبدیل کرنے کیخلاف بھی لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائرکردی گئی ہے جس میں درخواست دہندہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت پولیس کلچر تبدیل کرنے کے بجائے یونیفارم تبدیل کررہی ہے اور کروڑوں روپے یونیفارم کی تبدیلی پر لگائے جارہے ہیں۔ نئے یونیفارم کی تیاری کا ٹھیکہ حکمرانوں کے ایک منظورِ نظر شخص کی کاروباری فرم کو دیا گیا ہے اور یونیفارم تبدیل کرنے کیلئے نیشنل پولیس فائونڈیشن سے منظوری تک نہیں لی گئی۔ درخواست گزار کے اس انکشاف کے بعد پنجاب پولیس کی یونیفارم کی تبدیلی پر بلا شبہ شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ متذکرہ نجی فرم کو ٹھیکہ دیتے وقت ضوابط کا خیال رکھا جانا اشد ضروری تھا۔ پرانی یونیفارم کی سلائی کی مد میں بھی ہنوز 70 لاکھ اور 43 لاکھ کی ادائیگیاں نہیں ہوپائیں اور معاملات اسکروٹنی کمیٹی کے پاس ہیں۔ ایک درخواست آئی جی پنجاب کیخلاف توہینِ عدالت کی بھی ہے انہوں نے 2010ء سے 2016ء تک پولیس کانسٹیبل کی وردیوں کی سلائی کی ادائیگیاں نہیں کیں۔ زیتونی وردی ملٹری یونیفارم سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہے جس کی رنگت دو تین ممالک کی آرمی کی یونیفارم سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ آئی جی پنجاب نے شاید یہ سوچ کر پولیس کو فوجی نُما یا پیرا ملٹری دستہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجاب پولیس گزشتہ دس پندرہ سالوں سے بہادری کے معرکے سر کرتی آرہی ہے اور آئندہ بھی عوام اسے فوج کی طرح عزت کی نظروںسے دیکھیں۔ جس پولیس کا کردار قیامِ پاکستان کے دن سے عوام بخوبی جانتے ہیں، اسے وہ ’’فوجی نُما وردی‘‘ میں بھی کیونکر عزت دیں گے؟ جس پولیس سے راجن پور کا چھوٹو نہیں پکڑا جاتا اور جو دہشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے پولیس مقابلوں پر زیادہ فوکس کرتی ہے، وہ فوجی نُما وردی پہن کر بھی اپنا امیج تبدیل نہیں کرسکتی۔ وردیاں تبدیل کرنے یا جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے امیج بہتر نہیں ہوگا جب تک پولیس اپنا رویہ اور کردار نہیں بدلے گی۔ نئی وردی کی ظاہری گریس کی بات کی جائے تو اس میں حفاظتی محکموں کی وردی والی کوئی نمایاں خصوصیت نظر نہیں آتی۔اس میں بیک وقت بہت سے فیچر جھلکتے ہیں۔ پولیس اہلکار اس میں سیکورٹی گارڈ بھی نظر آتا ہے، پٹرول پمپ پر کام کرنیوالا آئل فِلر بھی دکھائی دیتا ہے، اسکائوٹ بھی لگتا ہے اور فاریسٹ ورکر بھی معلوم پڑتا ہے۔ کسی بھی زاویے سے یہ نسواری وردی پہنا ہوا شخص ایک بارُعب پولیس اہلکار نظر نہیں آتا۔ خاص بات یہ ہے کہ خود پولیس اہلکار اور حتیٰ کہ افسران بھی اس تبدیلی سے نالاں اور ناخوش ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ پرانی یونیفارم میں اس سے زیادہ گریس اور تمکنت تھی اور لوگ ایک کانسٹیبل کو دیکھ کر بھی مرعوب ہوجاتے تھے جبکہ نئی وردی میں ایس ایچ او کو دیکھ کر بھی کوئی پروا نہیں کرتا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سیکورٹی اداروں کی وردیاں اتنی رُعب دار ضرور ہونی چاہئیں کہ مجرم وردی والے کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ سرنڈر کرنا ہے یا بھاگنا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے پنجاب پولیس کی یونیفارم تبدیل کرنے کی بات چہار دانگ گونج رہی تھی لیکن یہ فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا کہ یونیفارم کس رنگ کا ہو۔ جب آئی جی پنجاب نے یونیفارم کا رنگ ڈارک اولیو گرین کرنے کا خود ہی فیصلہ کرلیا تو اس پر متعدد افسران اور اہلکاروں نے اعتراض کرنا شروع کردیا مگر آئی جی نے اپنا فیصلہ لاگو کردیا ۔ اکثریتی رائے تو یہی ہے کہ روایتی یونیفارم پولیس کی شناخت ہے جسے کسی بھی صورت میں قائم رہنا چاہئے۔ (جاری ہے)



.
تازہ ترین