خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے متنازع جموں و کشمیر کے حصے گلگت بلتستان یعنی شمالی علاقہ جات کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں اس کا باقاعدہ اعلان چند روز مین کر دیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کے ترجمان سجاد الحق نے اسلام آباد میں ایک فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے لئے وزیراعظم پاسکتان میاں محمد نواز شریف نے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی ہےجو گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کے انتظامات کر رہی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اگلے چند روز میں ایک بڑی خوشخبری ملے گی۔ یہ بھی خبر ہے کہ آئینی صوبہ بننے کے بعد گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے گی۔ تاہم انہیں صرف ایک مبصر کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اسی ڈیولپمنٹ کا پس منظر ی ہے کہ چین نے پاکستان سے کہا ہے کہ شمالی علاقہ جات چونکہ متناع علاوہ بتایا جاتا ہے۔ لہٰذا پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کو غیر متنازع رکھنے کےلئے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت طے ہو جانی چاہئے۔اس خبر پر کشمیریوں کی صفوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور تقریباً ہر جماعت نےاس ڈیولپمنٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ قبل اس کے کہ میں کشمیریوں کی تشویش پر اظہار خیال کروں مناسب سمجھتا ہوں کہ عام آدمی کی دلچسپی کے لئے گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت کے متعلق مختصراً تعارف کرادوں۔ گلگت بلتستان پاکستان کا شمالی علاقہ ہے یہ علاقہ تاریخی طور پر تین اکائیوں پر مشتمل ہے یعنی ہنزہ، گلگت، اور بلتستان 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجہ نے ان علاقوں قبضہ کرلیا اور جب پاکستان آزاد ہوا اس وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیر نگیں تھا۔ 1948ء میں اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا ہے۔ 2009ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیئے اور ساتھ ہی انتخابات بھی کرائے جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے مہدی شاہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اگر علاقے کے عوام کی امنگوں کا ذکر کیا جائے تو یہاں کے لوگ مکمل صوبائی حیثیت چاہتے ہیں۔ یہ واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں تین ملکوں سے ملتی ہیں۔ نیز پاکستان پڑوسی مل بھارت سے تین جنگیں 48ء کی جنگ، کارگل جنگ اور سیاچن جنگ اس علاقہ میں لڑا ہے اس وجہ سے یہ علاقہ دفاعی طورپر ایک اہم علاقہ ہے نیز یہاں سے تاریخی شاہراہ ریشم بھی گزرتی ہے۔اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اس خطے میں واقعہ ہے جبکہ دنیا کے تین سب سےبڑے گلیشئر بھی اس خطے میں واقعہ ہیں۔ شمالی علاقہ جات کا رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے اور آبادی بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔اس علاقے کی مشہور زبانیں ااردو، بلتی اور شینا ہیں۔ یہ تو تھی گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ اگر حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو اپنا پانچواں آئینی صوبہ بنایا تو پاکستان کے کشمیر پر موقف کمزور ہوگا۔ اس صورت حال پر کشمیریوں کی تشویش بجا ہےکیونکہ اگر شمالی عالقہ جات کو آئینی حیثیت دی گئی تو یہ جموںو کشمیر کی متنازع حیثیت اور ہیئت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ بھارت کے قبضے کو تقویت پہنچانے کے مترادف اقدام ہوگا اور اس طرح کی کوئی بھی کوشش کشمیری عوام کے لئے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ جنگ بندی لائن کے دونوں اطراف جموں و کشمیر کا پورا خطہ متنازع ہے اور کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر اس کے کسی بھی حصے سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ لئے جانے کا کوئی آئینی یا اخلاقی جواز نہیں ہےا ور یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی بھی سراسر خلاف ورزی ہوگی۔ کشمیری جنوب ایشیائی خطے کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے مخالف نہیں ہیں البتہ کشمیری قوم کے حقوق، مفادات، خواہشات اور قربانیوں کی قیمت پر تجارتی راہداری بنانے کی کوشش کرنا سراسر ظلم اور نا انصافی ہے اور یہ خود پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے قومی اور روایتی پالیسی کے منافی ہے ویسے بھی اگر بھارت، پاکستان، ایران، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے مابین تجارتی اور آواجا ہی کو فروغ دینا ہے اور اگر کامیابی سے منصوبوں کو مکمل کرنا ہے تو مذکورہ ممالک جب تک آپس کے سیاسی تنازعات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، تجارتی روابط بڑھانے کے خواب کے شرمندہ تعبیر ہوجانے کے امکانات بہت معدوم رہیں گے اور اس طرح کی کوشش کو پائیدار اور مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھانا بہت مشکل سفر ثابت ہوسکتا ہے۔ کشمیری گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کا ایک اٹوٹ انگ حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک پوری ریاست میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری نہیں کروائی جاتی۔اس حصے سے متعلق الگ تھلگ سے کوئی فیصلہ نہیں لیا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان واقعی ہی گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت تبدیل کر رہا ہے تو یہ کشمیری قوم کے حقوق پر شب خون مارنے کے مترادف کارروائی ہوگی ارو یہ ان کی قربانیوں کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہوگا۔ بحیثیت کشمیری ہمارا ایمان ہے کہ مضبوط اور مستحکم پاکستان تنازع کشمیر کے حل کیلئے ناگزیر ضرورت ہے اوریہ بھی کہ پاکستان سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ البتہ کشمیر کے تنازعے کا یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل پاکستان کی بھی ایک اہم ضرورت ہے اور اس تنازع کو حل کئے بغیر اس خطے میں پائیدار امن،ترقی اور خوشحالی کا خواب کسی طور پر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔ کشمیری پاکستان کے تمام حکومتی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تجارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر ترجیح دینے کی کوششوں کے نتائج پر سنجیدہ غور و فکر کریں اور عجلت میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرنے کا باعث ہے وزیراعظم آزادکشمیر جناب چوہدری عبدالمجید کا بیان نظر سے گزرا ہے جس میں انہوں نے شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کی کوششوں کی مذمت کی ہے اگر لوگوں کا حافظہ کمزور نہیں تو انہیں یاد ہوگا کہ 2009ء میں زرداری حکومت نے گلگت بلتستان کو نیم صوبائی اختیارات دیئے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کوٹلی کے دورے پر گئے تو پیپلزپارٹی کے لوگوں نے کشمیر بنا دو پاکستان کے نعرے مارے تھے آج وزیراعظم آزادکشمیر کس منہ سے تنقید کر رہے ہیں۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے
جب سے آزادکشمیر کی حکومت قائم ہوئی ہے اور دعویٰ بیس کیمپ کا کر رہی ہے کیا آزادکشمیر کے ارباب بست و کشاد نے کبھی گلگت بلتستان کے عوام کی خیر خیریت پوچھی؟ ان کی ضروریات کا احساس کیا؟ مشکلات و مصائب کے دوران ان کی کوئی مدد کی؟ آج کس منہ سے گلگت بلتستان کے عوام سے محبت کا دم بھرتے ہیں؟ اور سچی بات بات تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام آزاد کشمیر کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے۔ بہرحال ہمارے تمام تر تحفظات کے باوجود میرا دل کہتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے جس سے مسئلہ کشمیر متاثر ہو اورپاکستان کی نیک نامی پر حرف آتا ہو۔