(گزشتہ سے پیوستہ )
چند کارنامے پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے بھی ملاحظہ ہوں: یونیورسٹی کی ایڈمنسٹریٹو تقرریوں اور ترقیوں میں جس طرح میرٹ، آئینی و قانونی اہلیت اور تجربہ کو پسِ پشت ڈال کر آئوٹ آف ٹرن، تقرریاں اور ترقیاں کی گئیں ہیں ان کی مثال شاید ہی کسی اور تعلیمی ادارے میں ملتی ہو۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ آئین و قانون سے بالا تر ہوکر بہت سے نااہل لوگوں کو آئوٹ آف میرٹ نوازتی اور فیورٹ ازم کامظاہرہ کرتی آرہی ہے۔ اپنے قیام کے بعد یونیورسٹی نے میں باقاعدہ انتظامی اور تدریسی سرگرمیاں شروع کیں توانتظامی عہدوں کی بندر بانٹ میں یونیورسٹی کی ابتدائی انتظامیہ کے کرتا دھرتا عہدیداروں نے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کیے کہ ان کی اقربا پروری اور فیورٹ ازم کے قصے یونیورسٹی کے طلبہ میں بھی خاصے شہرت رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی کی طرف سے باقاعدہ ریگولر انتظامی تقرریوں کیلئے اشتہار دیا گیا۔ شارٹ لسٹ تیار کرنے کے بعد انٹرویو ہوئے اور نئے سلیکٹی امیدوار تعینات کئے گئے۔
یہ سلیکشن بورڈ کے ذریعے پہلی ریگولر تقرریاں تھیں جن میں ایڈیشنل رجسٹرار (گریڈ 19)کی ایک (ایڈمن) پوسٹ اور ڈپٹی رجسٹرار (گریڈ 18)کی دو پوسٹیں مشتہر کی گئیں۔ جب مخصوص نشستوں پر من پسند افراد کو مسلط کیا جاتا ہے تو ان نشستوں کے اصل حقدار متاثرہ فریق بنے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایسے ہی ایک متاثرہ فریق نے ایڈیشنل رجسٹرار کیلئے مشتہر کی گئی گریڈ 19کی پوسٹ کیلئے اپلائی کیا تھا۔ موصوف گولڈ میڈلسٹ اور ایوارڈ یافتہ ہے اور وہ متذکرہ پوسٹ کیلئے مطلوبہ اہلیت و تجربہ کا مکمل طورپر حامل تھا۔ ایڈیشنل رجسٹرار کیلئے شارٹ لسٹ ہونے اور انٹرویو کال کئے جانے کے باوجود اُس وقت کے وائس چانسلر اور رجسٹرار نےاس کوایڈیشنل رجسٹرار کے بجائے ڈپٹی رجسٹرار کیلئے آرڈر کردیئے اور اسے ’’آٹھویں سنڈیکٹ منٹس‘‘ کی کاپی مہیا کرتے ہوئے یہ تسلی بھی دے ڈالی کہ سلیکشن بورڈ نے رجسٹرار (گریڈ 19) کیلئے اس کی سفارش ضرور کی ہے تاہم وہ فی الوقت بطور ڈپٹی رجسٹرار جوائن کرلے، اور بعد ازاں سنڈیکٹ سے منظوری کے بعد بطور ایڈیشنل رجسٹرار اس کی تقرری کردی جائے گی۔ (بطور ثبوت آٹھویں سنڈیکٹ میٹنگ منٹس ،صفحات نمبر 21, 22 ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں)۔ مسٹر امیدوار نے وائس چانسلر اور رجسٹرار کی اس یقین دہانی پر سرِ تسلیم خم کیا اور حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے سیکرٹری ایچ ای سی پنجاب (کالجز ونگ) سے باقاعدہ ریلیف لے کر گریڈ 18 میں بطور ڈپٹی رجسٹرار یونیورسٹی جوائن کرلی اور ادارے کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریاں سرانجام دینے کے دوران شدید منتظر رہا۔
جب اگلا مالی سال شروع ہوگیا تو موصوف نے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو ان کا وعدہ یاد دلایا اور ایڈیشنل رجسٹرار کیلئے سنڈیکٹ کی منظوری کا تقاضا کیا مگر شومئی قسمت کہ ان حکام نے تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے تین سال گزار دیئے۔ متاثرہ فریق کیساتھ اس سے بھی بڑی زیادتی 2012ء میں تب ہوئی جب وی سی اوررجسٹرار نے اس کی 17 سالہ ریگولر سروس کو بالائے طاق رکھ دیااور سنیارٹی لسٹ نوٹیفائی کئے بغیرکچھ من پسند جونیئرز کو گریڈ 19 میں پروموٹ کرکے فیورٹ ازم کی تاریخ رقم کی اور وی سی نے رجسٹرار کی ملی بھگت سے اپنے ایک منہ بولے بیٹے کو ایڈیشنل رجسٹرار (گریڈ 19 )میڈیا اینڈ پبلی کیشنز لگادیا، وہ بھی صرف سلیکشن بورڈ سے سفارش کرواکر اور سینڈیکیٹ سے منظوری لے کر تعیناتی کردی گئی۔ مستزادیہ کہ وی سی نےاپنی سروس کے اختتامی پیریڈ کے دوران گریڈ 20 کی ایک نئی پوسٹ (ڈائریکٹر میڈیا) تخلیق کرکے اپنے اس چہیتے کو ’’ایڈیشنل رجسٹرار میڈیا‘‘ سے ’’ڈائریکٹر میڈیا‘‘ بنا دیا جبکہ پہلی شارٹ لسٹ کمیٹی کے ممبران نے اس سفارشی کو اِس پوسٹ کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔
عرصہ پانچ سال میں (2009ء سے 2014ء تک) گریڈ 17 سے گریڈ 20 میں ایسی غیر معمولی ترقی اقربا پروری کی ایک انوکھی مثال ہے۔ ایسی بے مثال ترقی کیلئے سول سروس میں گریڈ 17 کے آفیسر کو گریڈ 20 میں جانے کیلئے 30 سے 35 سال لگتے ہیں۔ یونیورسٹی نے ایک اور خاتون (جو کہ سیکنڈ ڈویژن تھی) کو ایک بوگس این جی او کے تجربات اور کنٹریکٹ سروس شمار کرکے گریڈ 18 میں بطور ریگولر ڈپٹی رجسٹرار تعینات کیا اور ساتھ ہی 05 اضافی ترقیاں بھی عنایت فرما دیں اور بعد ازاں یونیورسٹی کے سمسٹر سسٹم کی چیئرپرسن بنادیا جس سے فائدہ اُٹھا کر محترمہ نے ریگولر سروس کے ساتھ ہی ایم فل کی ڈگری کا حصول ممکن بنالیا کیونکہ بحیثیت چیئر پرسن ایم فل کے پیپرز کی تیاری، نتائج کا مرتب کرنا اور ڈگریوں کو تیار کرنے کا سارا عمل موصوفہ ہی کے زیر نگرانی تھا۔
پھر 2012ء میں بغیر سنیارٹی لسٹ شائع کئے، ایک ڈمی پروموشن بورڈ ارینج کرکے ڈھائی سال بعد ہی گریڈ 18 سے گریڈ 19 میں بطور ایڈیشنل رجسٹرار پروموٹ کردیا گیا جبکہ انڈر رولز گریڈ 18 سے 19 میں پروموشن کیلئے 12 سالہ سروس کا ہونا لازم ہے۔ اسی طرح ایک اور چہیتے کو ڈپٹی کنٹرولر تعینات کرنے کے بعد ڈھائی سال بعد ہی گریڈ 19میں ایڈیشنل کنٹرولر پروموٹ کردیا گیا۔ اقربا پروری کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ سیاسی اثرو رسوخ کے حامل ایک کنٹریکٹی (ڈیپوٹیشن) کو بطور ڈپٹی رجسٹرار ضم کیا گیا اور ڈیڑھ سال بعد ہی گریڈ 19 میں ایڈیشنل ڈائریکٹر (کیو بی) پروموٹ کر دیا گیا، صرف اسلئے کہ وہ مقامی ایم پی اے کا قریبی عزیز تھا اور یہ ایم پی اے یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا ممبر بھی تھا۔ لاقانونیت اور آئوٹ آف میرٹ بھرتیوں اور ترقیوں کے ایسے درجنوں کیسز آن ریکارڈ یونیورسٹی میں موجود ہیں۔
اب مظلوم (ڈپٹی رجسٹرار) کی ریگولر سروس 21سال ہوچکی ہے اور وہ مسلسل 9 سالوں سے اپنا حق مانگ رہا ہے۔ یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر کو بقول شخصے میرٹ پسند، انصاف پرست اور بااصول شخصیت کہا جاتا ہے۔ متذکرہ ڈپٹی رجسٹرار نے 2012ء کی پروموشن کے خلاف درخواست نمائندگی فائل کی ہوئی ہے اور اس کو نجانے کیوں پورا یقین ہے کہ اس کے ساتھ ہونے والی حق تلفی اور ناانصافی کا ازالہ ضرور ہوگامگر کب ہوگا، جبکہ اس پراسس کو بھی 20 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ محکمہ تعلیم کا معاملہ ہے لہٰذا اِس سنجیدہ ایشو پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور عدالتِ عظمیٰ کو فوری نوٹس لینا چاہئے۔
.