(گزشتہ سے پیوستہ)
حصہ دوم
جناب سپیکر
اب میں اپنی بجٹ تقریر کا دوسرا حصہ پیش کروں گا جو ٹیکس تجاویز پر مشتمل ہے۔
51۔ گزشتہ چار سالوں میں حکومت نے دوررس انتظامی اصلاحات کا آغاز کیا تاکہ ایک منصفانہ اور فعال ٹیکس نظام وضع کیا جاسکے۔ ایک وسط مدتی جامع حکمت عملی کے تحت ہم ٹیکس اور شرح نمو کے مابین 15فیصد کا قابل قدر تناسب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
52۔ امتیازی رعایتوں اور Exemptions کا خاتمے کے لئے FBR نے ایک تاریخی عمل کا آغاز کیا جس کے تحت گزشتہ تین برسوں میں تین سو ارب روپے کی امتیازی رعایتیں اور Exemptions واپس لی گئی ہیں۔
53۔ اسی سمت میں آگے بڑھتے ہوئے مالی سال 2017-18ء میں جن رہنما اصولوں پر ٹیکس اقدامات تجویز کئے ہیں ان میں اس حکومت کی گزشتہ برسوں کے کامیاب تفریقی ٹیکسٗ جس میں ٹیکس ادائیگی کی حوصلہ افزائی اور عدم ادائیگی پر جرمانیٗ ملکی صنعت کا تحفظٗ تفریقات کا خاتمہٗ منصبی اختیارات میں کمیٗ کاروبار میں آسانیٗ شرح نمو اور روزگار میں اضافے کی ترغیبات اور براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے۔
جناب سپیکر
54۔ اپنی تقریر کے پہلے حصے میںٗ میں نے ایوان کے سامنے ٹیکس میں Relief اور شرح نمو میں اضافے کے لئے اقدامات کا ذکر کیا تھا جو معیشت کے مختلف سیکٹرز سے متعلق ہیں۔
55۔ اب میں معزز ایوان کے سامنے 2017-18ء میں شامل ٹیکسوں کے حوالے سے مزید ریلیف کا ذکر کروں گا۔ سب سے پہلے انکم ٹیکس کے ضمن میں دی جانے والی ریلیف کچھ یوں ہے۔
انکم ٹیکس
رعایتی اقدامات
جناب سپیکر
56۔ مناسب شرح ٹیکس برائے کارپوریٹ سیکٹر: حکومتی پالیسی کے تحت کمپنیاں بنانے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم نے 2013ء سے جب اس ٹیکس کی انتہائی شرح 35 فیصد تھی اس میں ہر سال ایک فیصد کی کمی کا آغاز کیا تھا۔ ہمارے اس عزم کے تحت یہ شرح اگلے سال یعنی ٹیکس سال 2018ء میں 30 فیصد ہوگی۔
57۔ اسلامی بنکاری کی ترغیبات: اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی سفارشات کے مطابق اور اسلامک فنانسنگ کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم اسلامک بنکنگ کی مختلف اقسام مثلاً مشارکہ‘ اجارہ اور مرابحہ پر ٹیکسوں کی وہی شرح تجویز کرتے ہیں جو روایتی بنکنگ میں رائج ہے۔
58۔ Compliant ٹیکس گزاروں کو رعایت: ٹیکس نظام کی Compliance کرنے والے ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ودہولڈنگ ٹیکس میں درج ذیل کمی تجویز کی جارہی ہے۔
850cc تک کی گاڑیوں پر یہ شرح 10,000 روپے سے کم کرکے 7500 روپے‘ 851-1000cc تک کی گاڑیوں پر یہ شرح 20,000 روپے سے کم کرکے 15,000 روپے‘ 1001-1300cc والی گاڑیوں میں یہ شرح 30,000 روپے سے 25,000 روپے۔ ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے Withholding ٹیکسوں کی شرح میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
59۔ وزیراعظم کی یوتھ لون سکییم کے تحت لی گئی گاڑیوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ: بے روزگار نوجوانوں کو سہولت دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی یوتھ لون سکیم کے تحت خریدی گئی گاڑیوں کو ودہولڈنگ ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔
60۔ تعلیمی اخراجات پر رعایت۔ کم آمدنی والے طبقے جن کے لئے تعلیمی اخراجات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں انہیں رعایت دینے کے لئے 2016-17ء کے بجٹ میں ان افراد کو جن کی سالانہ آمدنی دس لاکھ روپے سے کم تھی انہیں فی بچے کے تعلیمی اخراجات پر 60,000 ہزار روپے کی حد تک ٹیکس میں پانچ فیصد رعایت دی گئی تھی۔ اس سال تجویز کیا جاتا ہے کہ سالانہ آمدنی کی اس حد کو 15 لاکھ تک بڑھا دیا جائے۔ اس اقدام سے متوسط آمدنی والا طبقہ بھی مستفید ہو سکے گا۔
61۔ Advance ٹیکس کی انتہائی حد میں اضافہ: اس وقت وہ ٹیکس گزار جن کی آمدنی پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہے وہ سال گزشتہ کے ادا شدہ ٹیکس کے حساب سے چار اقساط میں Advance ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔ آمدنی کی یہ حد 2010ء میں مقرر کی گئی تھی لہذا تجویز کیا جاتا ہے کہ آمدنی کی اس حد کو پانچ لاکھ روپے سے بڑھا کر دس لاکھ روپے کردیا جائے تاکہ چھوٹے ٹیکس گزاروں کو سہولت مل سکے۔
62۔ خام مال کی درآمد پر Exemption کی انتہائی حد میں اضافہ: صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ انکم ٹیکس کی Exemption Certificate کے تحت درآمد کئے جانے والے خام مال کی حد جو پچھلے برس کی درآمد شدہ مقدار کا 110 فیصد ہے‘ اسے بڑھا کر 125 فیصد کردیا جائے۔
63۔ دوائوں کی صنعت میں فروخت کے اخراجات کی انتہائی حد میں اضافہ: 2016-17ء کے بجٹ میں دواساز صنعتوں کے فروخت کے اخراجات کی حد فروخت کے حجم کے 5 فیصد تک مقرر کی گئی تھی جس کی وجہ سے اس صنعت کے فروغ میں مشکلات کا سامنا تھا۔ لہذا تجویز ہے کہ اگلے سال یہ حد بڑھا کر 10 فیصد کردی جائے۔
64۔ روزمرہ اشیاء استعمال پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی: چونکہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کے تقسیم کنندگان کے منافع کی شرح کم ہے لہذا دفعہ 113 کے تحت ان پر ٹیکسوں کی کم ترین شرح 0.2% مقرر کی گئی ہے تاہم ان تقسیم کنندگان کو مال کی فراہمی پر عمومی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے جوکہ گزشتہ سال 4% سے کم کرکے 3% اور عام کمپنیوں کے لئے 4.5% سے کم کرکے 3.5% کیا گیا تھا۔ یہ شرح اب بھی تقسیم کنندگان کے لئے زیادہ تصور کی جاتی ہے چنانچہ تجویز ہے کہ اس شرح کو 3.5% سے مزید کم کرکے 2.5% کیا جائے تاہم گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے ان شرحوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
جناب سپیکر
65۔ ودہولڈنگ ٹیکس Statement میں نظرثانی کی رعایت: ودہولڈنگ Agents کے مطالبے پر تجویز کیا جاتا ہے کہ انہیں Withholding Tax Statements میں غلطیوں کی تصحیح کے لئے 60 دن میں نظرثانی کی اجازت دی جائے۔
66۔ گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے اپیل کا حق: موجودہ قوانین کے مطابق ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں Provisional Assessment Order کے اجراء کے 45 دن کے اندر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ انہیں اپیل کا حق بھی نہیں ہے۔ عوام کے مطالبے اور ان کی جائز شکایات کے ازالے کے لئے موجودہ طریقہ کار کے خاتمے کی تجویز ہے۔ گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں Provisional Assessment Order کے بجائے قابل اپیل آرڈر جاری کیا جاسکے گا۔
67۔ سٹاک ایکسچینج میں شمولیت پر ٹیکس کریڈٹ : سال 2016-17ء میں ان کمپنیوں کو قابل ادائیگی ٹیکس پر دو سال تک 20% کی چھوٹ دی جاتی تھی۔ SECP نے اس اقدام کی تعریف کی اور سفارش کی کہ اسے کامیاب بنانے کے لئے مزید تین سال تک لاگو کیا جائے لہذا تجویز ہے کہ جو کمپنیاں سٹاک ایکسچینج میں شامل ہو جائیں انہیں پہلے دو سال 20% جبکہ آخری تین سال میں 10% کی چھوٹ دی جائے۔
68۔ انشورنس Premium پر Exemption کی انتہائی حد میں اضافہ: ٹیکس کے حجم میں اضافے اور قوانین کی پاسداریی کی ترغیب دینے کیلئے پچھلے سال گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لائف انشورنسpremium پر ایک فیصدAdjustable Withholding Tax متعارف کرایا گیا تھا جہاں یہ Premium 2 لاکھ روپے یا اس سے زائد تھا۔انشورنس سیکٹڑ کے مطالبے پر تجویز کیا جاتا ہے کہ Premium کی یہ حد بڑھا کر 3 لاکھ روپے کردی جائے۔ تاہم گوشوارے داخل کرنے والوں کیلئے اس ٹیکس سے استثنیٰ جاری رہے گا۔
69 ۔ مخصوص این پی اوز کی آمدنی کوExemption : گلاب دیوی ہسپتال،Poverty Alleviation Fund Pakistan اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس Non-profit خیراتی اور سماجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔لہٰذا تجویز ہے کہ انہیں انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کے دوسرے شیڈول کی شق (66)میں شامل کرکے ان کی آمدنی کو استثنیٰ دیا جائے۔
ریونیو اقدامات
70 ۔میں اب انکم ٹیکس کے قوانین میں محاصل سے متعلقہ مجوزہ اقدامات کا ذکر کروں گا۔
71 ۔Dividend میں شرح ٹیکس کا اضافہ:تجویز ہے کہ Dividend پر ٹیکس کی یکساں شرح کو 12.5% سے بڑھا کر 15% کیا جائے۔ اسی طرحMutual Fund کے Dividend پر ٹیکسوں کی حالیہ شرح10% سے12.5% کرنے کی تجویز ہے۔ تاہم کچھ مخصوص اقسام کیDividend پر کم شرحوں کے حساب سے ٹیکسوں کی وصولی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
72 ۔منافع پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانا: فی الوقت منافع سے حاصل شدہ آمدنی پر مرحلہ وار شرح حساب سے ٹیکس عائد ہے جو کہ 25 ملین روپے تک ،25 سے50 ملین روپے تک اور 50 ملین روپے سے زائد آمدنی پر بالترتیب10% ،12.5% اور 15% ہے۔اس آمدنی کی موجودہ حدوں کو بالترتیب5 ملین سے25 ملین سے زائد کرنے کی تجویز ہے۔ اس اقدام سے ٹیکس کا نفاذ زیادہ مرحلہ وار اور برابری کی بنیاد پر ہوگا۔
73 ۔ سیکیورٹیز کےCapital Gain پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانا: فی الوقت سیکیورٹیز پر تین درجوں کے اعتباد سے Capital Gain ٹیکس نافذ ہے۔ تجویز کی جاتی ہے کہ Capital Gain ٹیکس کو یکساں شرح سے نافذ کیا جائے اور Filer کیلئے یہ شرح15% جبکہ Non Filer کیلئے20% کرنے کی تجویز ہے۔ اس طرح طویل مدت تک سیکیورٹیز کو روکے رکھنے کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اسٹاک ایکسچینج میں خرید وفروخت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
74 ۔سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ افراد کو فروخت پر ٹیکس کریڈٹ کا خاتمہ : اس وقت ان صنعت کاروں کو جو اپنی 90% فروخت سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ افراد کو کرتے ہیں اپنے کابل ادائیگی ٹیکس میں سے 3% کا ٹیکس کریڈٹ حاصل ہے چونکہ اس اقدام سے سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کے فروغ کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکے بلکہ اس ٹیکس کو ایک کٹوتی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے لہٰذا تجویز کیا جاتا ہے کہ اس ٹیکس کریڈٹ کو ختم کردیا جائے ۔
75 ۔ سپر ٹیکس کی تعداد میں اضافہ: 2015-16 کے بجٹ میں متمول طبقے بشمول افراد Associations اورCompanies کی آمدنی ،جو کہ 5 سو ملین روپے سے زائد تھی ،پر بالترتیب 4% برائے Banking Companies اور 3% باقی تمام سپر ٹیکس نافذ تھا۔یہ ٹیکس 2016-17 میں مزید ایک سال کے لئے بڑھا دیا گیا چونکہ وہ اسباب جن کی بنا پر یہ ٹیکس نافذ کیا گیا بدستور موجود ہیں لہٰذا تجویز ہے کہ اگلے سال بھی سپر ٹیکس کو جاری رکھا جائے۔
جناب سپیکر
76 ۔Dividend کی عدم ادائیگی پر ٹیکس کا نفاذ: حکومت کی کوشش رہے ہے کہ چھوٹے شیئر ہولڈرز کو اپنی سرمایہ کاری پر منافع ملے اور ان کے مفادات کا تحفظ بھی ہوچنانچہ 2015-16 کے بجٹ میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم کی گئی جس کے تحت اگر پبلک کمپنی نے منافع کے حصول کے بعد سرمایہ کاروں میں 6 ماہ تک منافع تقسیم نہیں کیا یا منافع تقسیم کرنے کے بعد بھی سال کے آخر تک کمپنی کے Reserves اس کے paid-up-capital کے 100% سے زائد ہوں تو اس اضافی Amount پر 10% کے حساب سے ٹیکس ادا کیا جائے گا۔
77 ۔فی الوقت غیر منقسم Reserves پر ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہے بشرطے بعد از ٹیکس منافع کا 40% یا paid-up-capital کا 50% ،جو بھی کم ہوDividend کے طور پر تقسیم کیا جائے۔Secp کی نشان دہی کے مطابق paid-up-capital کے 50% کی شرط میں اس قانون کی افادیت کو کم کردیا ہے اور اس کے مطلوبہ مقاصد بھی حاصل نہیں ہوسکے لہٰذا Secp کے سفارشات پر paid-up-capital کی یہ شرح ختم کرنے کی تجویز ہے۔مزید برآں یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ اگر منافع تقسیم نہیں کیا جاتا تو اس کمپنی کے Reserves کی بجائے اس کے سالانہ منافع پر 10% کی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے۔
78 ۔Turn Over پر Minimum ٹیکس کی شرح میں اضافہ : کمپنی کو ترغیب دینے کیلئے حکومت نے کمپنیوں کی ٹیکس کی شرح کو مرحلہ وار کم کیا ہے تاکہ کمپنیاں اپنا اصل منافع ظاہر کریں تاہم یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اس اقدام سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور کمپنیاں اور دوسرے کاروبار ابھی صرف Minimum ٹیکس ہی جمع کروا رہے ہیں لہٰذا تجویز کیا جاتا ہےMinimum ٹیکس کی اس شرح کو ایک فیصد سے بڑھا کر 1.25% کردیا جائے اس اقدام سے قانون کی پاسداری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی کیونکہ ان کی شرح 31% سے کم ہوکر 30% ہوجائے گی اور ایسے ادارے جو اصل منافع ظاہر نہیں کرتے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
79 ۔ Tobacco Cess کی وصولی کے وقت ود ہولڈنگ : غیر قانونی اور نان ڈیوٹی پیڈ سیگریٹ کی پیداوار اور فروخت کے خطرناک حد تک پھیلائو نے ایک طرف فروخت سے حاصل شدہ رقم کو کم کردیا ہے دوسری جانب صحت کے مسائل کو جنم دیا ہے کیونکہ Un-Regulated پیداوار میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا حکومت نے اس ضمن میں کئی اقدامات کئے ہیں تاکہ غیر قانونی پیداوار اور تقسیم کو روکا جاسکے۔تمباکو کی فروخت کو دستاویزی نظام کے دائرہ کار میں لانے کیلئے اور تمام متعلقہ افراد اور ان کی پیداوارسے متعلق معلومات کے حصول کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ پاکستان ٹوبیکو بورڈ یا اس کے ٹھیکیدارTobacco Cess کی وصولی کے وقت 5% کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کریں۔
جناب سپیکر
80 ۔ بلڈرز اور ڈویلپرز پر ٹیکس : ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کی سفارش پر فکسڈ فی یونٹ کے حساب سے جو فائنل ٹیکس پچھلے بجٹ میں عائد کیا گیا تھا اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے لہٰذا اسے واپس لینے کی تجویز ہے۔
81 ۔ الیکٹونک اشیاء کے ڈیلر،ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ: فی الوقت الیکٹرونک اشیاء کے ڈیلر ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز اشیاء کی فروخت پر Retailers سے 0.5% کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کرتے ہیں الیکٹرونک ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مطالبے پر یہ شرح ایک فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔
82 ۔ نان فائلرز پر Differential ٹیکس کی شرح:موجودہ حکومت نے ٹیکس گزاروں کے مطالبے پر نان فائلرز سے زیادہ شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کی پالیسی متعارف کرائی تھی تا کہ ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکے اس پالیسی کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں اور گزشتہ تین برسوں میں گوشوارے داخل کرنے والوں کی تعداد 7 لاکھ50 ہزار سے بڑھ کر 12 لاکھ25 ہزار ہوگئی ہے اس پالیسی کو جاری رکھنے اور مزید بہتر بنانے کی غرض سے نان فائلرز پر ٹھیکوں ،فروخت اور خدمات غیر مقیم افراد کو ادائیگی کرائے سے آمدنی پرائز بانڈ اور لاٹری کے انعامات کمیشن، نیلامی، سی این جی اسٹیشن کے گیس بل کی وصولی صنعت کاروں اور درآمد کنندہ گان کی ڈسٹری بیوٹرز ڈیلرز اور ہول سیلرز کو فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے تاہم فائلرز کیلئے موجودہ شرحیں بغیر کسی اضافے کے برقرار رہیں گی۔
83 ۔Non -Profit ادارے :فی الوقت اگر Non -Profit ادارے اپنی آمدنی کا 75% سے زائد خیراتی اور سماجی سرگرمیوں میں خرچ نہیں کرتے تو ان کاNPO کا مرتبہ ختم ہوجاتا ہے اور ان کی کل آمدنی 30% کی شرح سے ٹیکس نافذ ہوتا ہے اس مشکل کو ختم کرنے کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ اگر یہ ادارے اپنی آمدنی کا75% سے زائد صرف نہ کرسکیں تو ایسی غیر استعمال شدہ رقم پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے اور ان کا NPO کا مرتبہ بحال رہے۔ مزید یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسے اداروں کے انتظامی اخراجات پر 15 فیصد کی حد مقرر کی جائے۔
سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی
ریلیف اقدامات
جناب سپیکر!
84۔ اب ان ریلیف اقدامات کا ذکر کروں گا جو کہ ہم نے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز قوانین کے حوالے سے موجودہ بجٹ میں تجویز کئے ہیں۔
85۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ Lubricating Oil پر اضافی ٹیکس کا خاتمہ: آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ Lubricating Oil پر عائد 2 فیصد اضافی ٹیکس کے خاتمہ کی تجویز ہے۔
86۔ Hybird الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی سطح پر فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس میں کمی: کم توانائی پر چلنے والی موٹر گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے درآمد کے وقت ان پر عائد سیلز ٹیکس کی کم شرح کو ان گاڑیوں کی مقامی سطح پر فراہمی پر بھی مہیا کرنے کی تجویز ہے۔
87۔ اپیل کے فیصلے تک وصولی کو Automatic Stay: ٹیکس گزاروں کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے تجویز ہے کہ اگر ٹیکس گزار سیلز ٹیکس کی ریکوری کے حوالے سے اصل رقم کا 25 فیصد پیشگی جمع کرا دیں تو انہیں کمشنر اپیل کے فیصلے تک مطلوبہ رقم کی ریکوری پر خود بخود Stay مل جائے۔ یہ سہولت فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے بھی دی جائے گی۔
88۔ Stunting کی روک تھام کیلئے Premixes پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ: مخصوص Premixes پر عائد سیلز ٹیکس میں چھوٹ دیے کی تجویز ہے تاکہ Stunting کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جا سکے۔ اس حوالے سے چھٹے شیڈول میں پہلے سے موجود عمومی چھوٹ کا دائرہ کار مزید بڑھانے کی تجویز ہے۔
89۔ رجسٹرڈ افراد کے مابین Supplies پر لاگو سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ کا خاتمہ: کاروبار کو مزید آسان بنانے کیلئے تجویز ہے کہ رجسٹرڈ افراد کی جانب سے دیگر افراد کو اشیاء کی فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ ختم کر دی جائے۔ تاہم سرکاری اداروں کو فراہم کردہ اشیاء پر عائد سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ برقرار رہے گی۔
90۔ پولٹری کی مشینری پر سیلز ٹیکس میں کمی: پولٹری کے کاروبار میں استعمال ہونے والی 7 مختلف قسم کی مشینریوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس اقدام سے اس سیکٹر میں سمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
91۔ مخصوص خدمات کی فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی: صوبوں کی جانب سے بعض خدمات پر Input Adjustment کے بغیر سیلز ٹیکس کی کم شرحوں کا نفاذ کیا گیا ہے۔ توازن اور سہولت کی غرض سے سیلز ٹیکس کی ان کم شرحوں کو اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری کی حدود میں بھی لاگو کرنے کی تجویز ہے۔
92۔ Multi Media Projectors پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی: تعلیمی اداروں میں Multi Media Projectors کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ ان پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا جائے۔ Multi Media Projectors پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح پہلے ہی 3 فیصد ہے۔
ریونیو اقدامات
93۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ: سیمنٹ سیکٹر میں قابل ذکر ترقی ہو رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہ سیکٹر حکومتی مالی وسائل میں اضافے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس سلسلے میں سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ایک روپیہ فی کلو گرام سے 1.25 روپے فی کلو گرام کے اضافے کی تجویز ہے۔ توقع ہے کہ اس اقدام سے سیمنٹ کی قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور انڈسٹری اس معمولی اضافے کو بآسانی برداشت کر پائے گی۔
94۔ Zero Rated سیکٹرز کی Retail Sale پر سیلز ٹیکس: پچھلے سال کے بجٹ میں پانچ بڑے برآمدی سیکٹرز کو Zero Sale پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ اب ان سیکٹرز کے Retailers سے مشاورت کے بعد اس شرح کو 6 فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔
95۔ کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکس: اس وقت کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکس
صفر فیصد ہے جس کو بڑھا کر 6 فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ کپڑے کے مقامی صنعتکاروں کو صحت مند مسابقت کی فضا میسر ہو سکے۔
96۔ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ: اس سیکٹر سے ڈیوٹی کی وصولی بڑھانے اور سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلئے سگریٹ کے دو موجودہ درجات پر ڈیوٹی کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے۔ مزید برآں اس سیکٹر کی Documentation اور سمگلنگ اور غیر معیاری سگریٹوں کی روک تھام کیلئے ایک نیا درجہ متعارف کرانے کی تجویز ہے۔
97۔ سٹیل سیکٹر پر عائد سیلز ٹیکس میں اضافہ اور :Rationalization سٹیل سیکٹر پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح کو Rationalize کرنے کیلئے بجلی پر 9 روپے فی یونٹ کی موجودہ شرح کو بڑھا کر 10.5 روپے کیا جا رہا ہے اور اسی لحاظ سے شپ بریکنگ اور متعلقہ صنعتوں میں اضافہ متعارف کیا جائے گا۔ اس شعبے میں کاروبار کو آسان بنانے کیلئے سٹیل کی صنعت کے مسائل کو مشاورت سے حل کیا جائے گا۔
کسٹمز
جناب سپیکر!
98۔ اب کسٹمز سے متعلق تجاویز ایوان میں پیش کی جاتی ہیں۔
99۔ نیا ایچ ایس کوڈ Version :2017 World Customs Organization
Harmonized Commodity Description and Coding System جو کہ عرف عام میں ایچ ایس سسٹم کے نام سے جانا جاتا ہے ایک اہم کنونشن ہے جس کی بدولت عالمی سرحدوں کے مابین اشیاء کی خرید و فروخت بغیر کسی مشکل کے ہو رہی ہے۔ ہر پانچ سال بعد ڈبلیو سی او اس کنونشن کا جائزہ لیتا اور تجدید کرتا ہے۔ ڈبلیو سی او نے نئے ایچ ایس Version کا یکم جنوری 2017ء سے نفاذ کر دیا ہے۔ پاکستان ایچ ایس کنونشن کا حصہ ہونے کے ناطے اس نئے Version کو نئے مالی سال یعنی یکم جولائی 2017ء سے اختیار کرنے کا پابند ہے۔
100۔ ایچ ایس 2017ء کی ترامیم سے دنیا بھر میں خرید و فروخت ہونے والی 15 فیصد کے لگ بھگ اشیاء پر اثر پڑے گا۔ ایچ ایس 2017ء میں ہونے والی زیادہ تر تبدیلیاں ماحولیاتی اور سماجی امور سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ نئے Version میں اشیاء کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے تاکہ ان کی تیاری کے مراحل اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کا احاطہ کیا جا سکے۔ نئے Version کے نفاذ سے نہ صرف ایک قانونی تقاضا پورا ہو گا بلکہ اس عمل سے امپورٹرز، ایکسپورٹرز اور دیگر تمام افراد کو مدد ملے گی جن کا کاروبار اور شراکتیں عالمی سطح پر پھیلی ہوئی ہیں۔
جناب سپیکر!
101۔ زرعی شعبہ اور پولٹری فارمنگ سیکٹر کیلئے ریلیف : پولٹری فارم سیکٹر نہ صرف ملک کے درمیانی آمدنی والے طبقے کو سستا چکن فراہم کر رہا ہے بلکہ یہ شعبہ ملکی صنعت میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس شعبہ کو مزید ریلیف دینے کیلئے تجویز ہے کہ چکن کے Grand Parent اور Parent Stock کی امپورٹ پر عائد 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کر دیا جائے اور کسٹمز ڈیوٹی کو 11 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ تجویز ہے کہ Hatching Eggs پر عائد کسٹم ڈیوٹی کو 11 فیصد سے کمک کر کے 3 فیصد کر دیا جائے۔ اس عمل سے اس کاروبار کے Inputs کی لاگت کو کم کرنے اور اس شعبہ کو مزید ترقی اور فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
102۔ حکومت ملک میں مشینی فارمنگ کے فروغ کیلئے کاوشیں کر رہی ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے اور ملکی معیشت میں اس شعبہ کا کردار مزید مستحکم بنایا جاسکے۔ نئی کمبائینڈ harvesters پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ ہے تاہم پرانی اور استعمال شدہ Harvesters تک بڑھانے کی تجویز ہے تاکہ ان کی ملک میں درآمد کم سے کم لاگت پر ممکن ہو سکے۔
103۔ شتر مرغ فارمنگ: ملک میں شترمرغ فارمنگ شروع ہو چکی ہے جس کی بدولت نہ صرف خوراک میں پروٹین کے جزو کو بڑھانے میں مدد ملے گی بلکہ ملک سے گوشت کی برآمد میں بھی اضافہ ہو گا۔ ملک میں شترمرغ فارمنگ کی حوصلہ افزائی کیلئے شترمرغوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔
04۔ ریلیف برائے ہیلتھ سیکٹر: ہیلتھ سیکٹر ہمیشہ سے حکومت کی ترجیح رہا ہے مریضوں کو معیاری اور سستا علاج مہیا کرنے کیلئے کئی اقدامات پہلے سے ہی اٹھائے جا چکے ہیں۔ پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی اس شعبہ کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کی تجویز ہے۔
a) فارما، بائیو ٹیکنالوجی اور لائف سائنسز میں استعمال کو فروغ دینے کیلئے Pre-fabricated Clean Rooms کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
b)Fabric (Non-Woven) فارما سیوٹیکل سیکٹر میں Surgical Gown, Bandge اور زخموں کی مرہم پٹی کیلئے اسعتمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کپڑے پر 16 فیصد کی شرح سے کسٹم ڈیوٹی عائد ہے۔ تجویز ہے کہ فارما سیوٹیکل سیکٹر کو فروغ دینے اور مریضوں کیلئے علاج معالجہ کی لاگت کم کرنے کیلئے اس کپڑے پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو 16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دیا جائے۔
جناب سپیکر!
c) مشینری، ایکوئپمنٹ، آپریٹس، اپلائنسز، ویل چیئرز، سرجیل ڈینٹل فرنیچر اور Spares کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی سہولت 50 بیڈ کے ہسپتال چلانے والی خیراتی، Non Profit اداروں کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیر اہتمام چلنے والے ہسپتالوںکو دستیاب ہے۔ تجویز ہے کہ متعلقہ شق میں ترمیم کے ذریعہ اب اس سہولت کا دائرہ کار مسلح افواج، فوجی فائونڈیشن اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیر اہتمام چلنے والے ہسپتالوں تک وسیع کر دیا جائے۔
d) الیکٹرک سگریٹوں کی مناسب طریقہ سے درجہ بندی نہیں کی جا رہی اس لئے ان پر صرف 3 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد ہے۔ تجویز ہے کہ صحت پر ان کے نقصان دہ اثرات کے موجب الیکٹرک سگریٹوں کی مناسب درجہ بندی کی جائے اور ان پر 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کی جائے۔
جناب سپیکر!
105۔ پان اور چھالیہ: بجٹ 2016-17ء میں پان اور چھالیہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے ان پر عائد ڈیوٹی کی شرح بڑھا دی گئی تھی۔ اس سال بھی چھالیہ پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کی جا رہی ہے جبکہ پان کی امپورٹ پر 200 روپے فی کلوگرام ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کی تجویز ہے۔
106۔ ریلیف برائے انڈسٹریل سیکٹر:
a) معیشت کی نمو میں انڈسٹریل سیکٹر کا کلیدی کردار ہے لوگوں کی پیداواری صلاحیت اور ملازمت کے ذرائع بھی اس سیکٹر کے مرہون منت ہیں۔ معیشت میں اس سیکٹر کے اہم کردار کی وجہ سے حکومت اس سیکٹر کے فروغ کیلئے کوششیں کر رہی ہے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی اس سیکٹر کو ریلیف دینے کیلئے کئی اقدامات کی تجویز ہے۔
b) Aluminium Waste Scrap آٹو پارٹس، پنکھوں اور برتن سازی کی صنعت سمیت دیگر کئی صنعتوں میں بنیادی خام مال کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہے۔ اس خام مال پر اس وقت 3 فیصد کسٹم ڈیوٹی اور 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے۔ اس صنعت کو ریلیف دینے کیلئے ریگولیٹری ڈیوٹی کو 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
c) Metallic Yarn روایتی پہنائوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کل اس شعبہ کو خام مال پر زیادہ ٹیرف ریٹ اور اس کی حتمی مصنوعات پر کم ریٹ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ تجویز ہے کہ اس شعبہ کو ریلیف دینے کیلئے اس کی حتمی مصنوعات پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لاگو کی جائے اور اس شعبہ کے اہم خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دی جائے۔
d) حکومت درمیانے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے کئی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ شیرخوار بچوں کی صحت کیلئے Baby Diapers بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک میں Baby Diapers کی طلب کو سامنے رکھتے ہوئے اور اس شعبہ میں سرمایہ کاروں کے منصوبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس صنعت کیلئے مقامی سطح پر تیار ہونے والے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 16 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دی جائے جبکہ Baby Diapers کے تیار کنندگان کیلئے یہ شرح 20 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد کر دی جائے۔
e) ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے اس شعبہ کو مزید مراعات دینے کیلئے 11 فیصد اور 16 فیصد سے لاگو موجودہ کسٹم ڈیوٹیاں ختم کی جا رہ یہیں اور اس کی بجائے ٹیلی کام Equipment پر 9 فیصد یکساں ریٹ کے حساب سے ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کی تجویز ہے۔
107۔ لکڑی کا شعبہ: لکڑی کے شعبہ کو استحکام دینے کیلئے Veneer Sheets پر عائد 16 فیصد کسٹم ڈیوٹی کم کر کے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
آٹو سیکٹر تجاویز:
جناب سپیکر!
108۔ اس سلسلہ میں مجوزہ اقدامات کی تفصیلات یہ ہیں
a) فی الحال کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں لاگو رعایتی نرخ جو کہ قابل ادائیگی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کا 50 فیصد ہیں، 1800 سی سی تک کی Hybrid الیکٹرک گاڑیوں (ایچ ای وی) کی امپورٹ پر جاری رہیں گے اور 1801 سے 2500cc تک گاڑیوں پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز پر 25 فیصد کی رعایتی شرح برقرار رہے گی۔
b) آٹو ڈیلپمنٹ پالیسی 2016-17ء میں ایندھن کی بچت اور ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے مکمل طور پر الیکٹرک گاڑیوں پر مراعات دی گئی ہیں۔ ان گاڑیوں پر عائد ڈیوٹی پر ریلیف دینے کیلئے تین مہینوں کے اندر ایک پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔
c) فی الوقت Trailers کی مقامی اسمبلی اور تیاری کیلئے درکار 10 اہم اجزاء 5 فیصد کی رعایتی کسٹم ڈیوٹی کی شرح سے درآمد کئے جا سکتے ہیں۔ ای ڈی بی کی سفارش پر آنے والے CPEC منصوبوں کی ضروریات کے مدنظر اس فہرست میں مزید 11 اجزاء شامل کرنے کی تجویز ہے۔
ریگولیٹری اور اضافی ڈیوٹیوں پر نظرثانی
جناب سپیکر!
109۔ ریگولیٹری ڈیوٹیوں کا نفاذ مقامی صنعتوں کو عالمی منڈی میں اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ تیزی سے ہونے والے ردوبدل کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے کیا گیا تھا۔ بیرونی حوادث سے اپنی مقامی صنعتوں کو بچانے کیلئے ان اقدامات کے اٹھانے میں پاکستان اکیلا ملک نہیں ہے حکومت گاہے بگاہے ان اقدامات پر نظرثانی کرتی رہی ہے۔ اس سال بھی اسٹیٹ بینک کی سفارش پر Regulatory Duties میں مناسب اضافہ کیا جا رہا ہے۔
110۔ گذشتہ سال پیمرا کی سفارش پر ملک میں Digital ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے Set Top Boxes، ٹی وی براڈ کاسٹ Reception Apparatus, Transmitters کو 11 فیصد کی رعایتی شرح کے حساب سے درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ سہولت 30 جون 2017ء تک دستیاب ہے۔ اب تجویز ہے کہ اس رعایتی شرح کی سہولت میں 30 جون 2018ء تک توسیع دی جائے۔ 5 فیصد کی شرح پر سیلز ٹیکس کے رعایتی نرخ کی سہولت میں بھی 30جون 2018ء تک توسیع دیئے جانے کی تجویز ہے۔
حصہ سوم
Relief Measures
111۔ پاکستان کے عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے، اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے:
شہداء کے خاندانوں کیلئے فلاحی سکیم
112۔ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت کامیابی سے لڑ رہی ہے۔ ہماری بہادر افواج اس قومی کاوش میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں اور اس جنگ میں ہمارے کئی جوان شہید ہو گئے ہیں۔ قوم شہداء اور ان کے اہلخانہ کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ان کی فلاح کیلئے حکومت محکمہ قومی بچت کے ذریعہ ایک نئی سکیم متعارف کرا رہی ہے۔ اس سکیم کے تحت فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے شہداء کے پسماندگان کو یقینی اور اضافی منافع دیا جائے گا۔
معذور افراد کیلئے سکیم
113۔ معذور افراد بھی مساوی بنیادوں پر پاکستان کے شہری ہیں اور اپنی مشکلات کی بنیاد پر ترجیحی سلوک کے مستحق ہیں۔ ماضی میں ایسے لوگوں کیلئے سرکاری ملازمتوں میں 2 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا۔ نئے کمپنی ایکٹ کے تحت اس شرط کو Listed کمپنیوں پر بھی لاگو کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت معاشرے کے اس مستحق طبقہ کے مالی امکانات میں اضافہ کیلئے پرعزم ہے۔ اس سلسلہ میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو پنشنرز اور بیوگان کی طرز پر بہبود سیونگ سرٹیفیکٹ میں سرمایہ کاری کیلئے اہل بنایا جائے جو کہ بہتر منافع فراہم کرتا ہے۔
پاکستان بیت المال
114۔ مالی سال 2017-18ء کیلئے پاکستان بیت المال کے بجٹ کو 4 ارب سے 6 ارب روپے کیا جا رہا ہے جو کہ 50 فیصد اضافہ ہے۔ یہ بجٹ مستحق افراد کی مالی امداد، بچوں کی کفالت کا پروگرام، پاکستان سویٹ ہومز کے تحت یتیموں کی مدد اور غریب بچوں کے علاج کیلئے تھیلیسیمیا مراکز کیلئے استعمال ہو گی۔
115۔ بیوائوں کیلئے قرض کی ادائیگی میں چھوٹ: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 1999ء میں آغاز کردہ سکیم کو دوبارہ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سکیم کے تحت بیوائوں کے ذمہ HBFC کے Mortgage کے واجبات حکومت ادا کرے گی۔ اس بار اس سکیم کے تحت قرض ادائیگی کی حد ساڑھے تین لاکھ سے بڑھا کر 5 لاکھ کر دی گئی ہے۔ اس سکیم کا اطلاق ان بیوائوں پر ہو گا جنہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی۔
116۔ پنشنرز، بیوائوں اور بز رگوں کیلئے سہولیات: مرکز قومی بچت کثیر تعداد میں بیوائوں، بزرگوں اور پنشن یافتہ افراد کی خدمت کرتا ہے۔ مشکل اور پیچیدہ طریقہ کار کے باعث ان لوگوں کیلئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ مرکز قومی بچت اب Banking Clearing House کا رکن بن چکا ہے جس کے توسط سے اب ادائیگیوں کی Clearance میں درکار وقت 6 دن سے کم ہو کر ایک دن رہ گیا ہے۔ اپنے صارفین کی مزید سہولت کیلئے مرکز قومی بچت اپنی برانچوں کو آن لائن رابطے میں لاتے ہوئے ہمہ وقت دستیاب ہیلپ لائن کی تشکیل، ATMs کیلئے کارڈز کا اجر اء اور موبائل اور انٹر نیٹ بینکنگ کا آغاز کرے گا ۔
117۔ سمندر پار پاکستانیوں کیلئے سہولیات: سمندر پار پاکستانی اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں جو کہ پوری دنیا میں بیرون ملک مقیم لوگوں میں تعداد کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر ہیں انہیں اپنے آبائی ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش ہے۔ اراضی خریدنے کے علاوہ ان کے پاس سرمایہ کاری کے بہت کم راستے موجود ہیں۔ سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنے کی غرض سے حکومت انہیں ملکی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا چاہتی ہے۔ اس مقصد کیلئے سمندر پار پاکستانیوں کیلئے ایک ارب ڈالرز کا Non-convertible بانڈ جاری کیا جائے گا۔ یہ اقدام پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کیلئے CDA ایک علیحدہ سیکٹر کا اعلان کرے گا۔
118۔ Sales Tax Refunds: سیلز ٹیکس کے ایسے تمام زیر التواء ریفنڈز جن کے RPOs، 30 اپریل 2017ء تک منظور ہو چکے ہیں کو دو مراحل میں ادا کر دیا جائے گا۔ 10 لاکھ روپے تک کے RPOs، 15 جولائی اور باقی تمام RPOs، 14 اگست تک ادا کر دیئے جائیں گے۔
سرکاری ملازمین اور پنشنرز کیلئے ریلیف اقدامات
119۔ حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو ریلیف دینے کیلئے میں مندرجہ ذیل اقدامات کا اعلان کرتا ہوں۔
1)۔ معزز ارکان پارلیمنٹ کو یاد ہو گا کہ بجٹ 2016-17ء میں تین Adhoc Relief Allowance تنخواہ میں Merge کئے گئے تھے۔ البتہ 2009ء اور 2010ء کے افواج پاکستان اور سول ملازمین کیلئے 2010ء کے Adhoc Relief Allowance، ضم نہیں کئے گئے تھے کیونکہ یہ بڑے الائونس تھے۔ اس سلسلے میں تسلسل سے سفارشات موصول ہو رہی تھیں۔ مجھے آج یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ Allowances بھی تنخواہ میں Merge کر دیئے جائیں گے اور Merger کے بعد کی Basic Salary پر 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الائونس 2017ء دیا جائے گا۔ افواج پاکستان کیلئے ضرب عضب الائونس جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں وہ اس کے علاوہ ہے۔
2) پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔
3 ) BPS-05 کے ملازمین کو 5 فیصد ہائوس رینٹ الائونس کی کٹوتی سے مستثنیٰ کیا جا رہا ہے۔
4) ڈیلی الائونس کے ریٹ کو بڑھایا جا رہا ہے جس کی اضافے کی شرح 60 فیصد تجویز کی جا رہی ہے۔
5 ) اردلی الائونس کو 12,000/- سے بڑھا کر 14,000 روپے کیا جا رہا ہے۔
6) میت کی منتقلی و تدفین کی موجودہ شرح کو 1,600 روپے سے 4,800 اور 5,000 روپے سے 15,000 روپے کیا جا رہا ہے۔
8) پاکستان بحریہ کے مختلف الائونسز کو بھی بڑھایا جا رہا ہے جن میں Batman Allowance اور Pay Hardlying وغیرہ شامل ہیں۔
9 ) ڈیزائن الائونس کو 50 فیصد بڑھایا جا رہا ہے۔
10) پاکستان پوسٹ کے مختلف الائونسز کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔
11)Frontier Constablary کے جوان پاکستان کے طول و عرض میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کی تنخواہ کو بہتر بنانے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان کو 8000 ر وپیہ ماہانہ کے ریٹ پر ایک Fixed Allowance دیا جائے گا۔ اس Allowance کو 3 برابر حصوں میں دیا جانا ہے۔ پہلا حصہ یکم مارچ 2017ء سے دیا جا چکا ہے۔ دوسرا حصہ یکم جولائی 2017ء سے دیا جائے گا اور تیسرا حصہ یکم جولائی 2018ء سے دیا جائے گا۔
ان تمام اقدامات پر 125 ارب روپے اضافی خرچ کا تخمینہ ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال کے Salary اور Allowances میں اضافی خرچ 67 ارب روپے تھا۔
12) کم از کم اجرت کو 14,000 روپے سے بڑھا کر 15,000 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔
حصہ چہارم
Vision 2018-23
جناب سپیکر!
120۔ اللہ کے کرم، قوم کی دعائوں اور وزیراعظم نوازشریف کے Vision اور ان کی ٹیم کی محنت کے نتیجے میں پاکستان دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب ہمیں اپنی معیشت کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی معیشت کوHigher, Inclusive and Sustainable Growth کی راہ پر گامزن کر سکیں۔
121۔ پاکستان کو اب Second Generation Reforms پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جن میں Ease of Doing Business, Deepening of Financial Market کو بہتر بنانا، مالکانہ حقوق کا تحفظ، Improving Regulatiory Apparatus، قانون کی بالادستی، نظام عدل کی بہتری اور ایک ایسی ادارہ جاتی اساس مہیا کرنے کی ضرورت ہے جو پائیدار بنیادوں پر معاشی ترقی یقینی بنائے اور معیشت کو بیرونی اتار چڑھائو سے محفوظ رکھے۔
122۔ ہماری 70 سالہ تاریخ میں High Growth Rate کے کئی ادوار گزرے ہیں۔ بدقسمتی سے کمزور گورننس اور معاشی بدانتظامی کی وجہ سے یہ فو ائد ضائع کر دیئے گئے۔ آج میں اس معزز ایوان میں تمام سیاسی پارٹیوں بلکہ پوری قوم کو آئندہ مالی سال کے بعد کے قومی معاشی وژن پر متفق ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ آئندہ انتخابات جو بھی جیتے اس وسیع تر اتفاق رائے پر مبنی پالیسی پر عمل کر کے ملک کی ترقی کو یقینی بنائے۔
123۔ میری نظر میں اس قومی اقتصادی پروگرام کے اہم خدوخال کچھ اس طرح ہونے چاہئیں۔
(1) اقتصادی ترقی
ہمیں مسلسل 7 فیصد سے زائد کی شرح سے اقتصادی ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ پانچ سالوں کے دوران اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے میں سرمایہ کاری، Competition کا ماحول اور Innovation کو اہمیت حاصل ہونی چاہئے اور نجی شعبہ کو ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنا چاہئے۔ سرکاری شعبے کو Growth میں معاون اور محرک کا کردار ادا کرنے کیلئے سرکاری اداروں میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خدمت کے بہتر معیار اور قواعد و ضوابط کے موثر نفاذ کو یقینی بنایا جا سمکے۔ گورننس، شفافیت، احتساب اور کاروبار دوست ماحول کو ہماری پالیسیوں میں بنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔
(2) پائیدار اقتصادی ماحول
Macro Economic Stability یقینی بنانے کیلئے Fiscal Consolidation کی جانی چاہئے۔ نجی شعبہ کی سہولت کیلئے ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کے ساتھ ساتھ محصولات کی وصولی کے دائرہ کار میں اضافہ اور FBR میں مزید اصلاحات کی جانی چاہئیں۔ ایک نئے NFC ایوارڈ کا اعلان ہونا چائے جس میں وفاقی اور صوبائی سطح کی ذمہ داریوں اور وسائل میں توازن پیدا کیا جائے تاکہ صوبائی سطح پر موثر طریقے سے خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ عوام کی بہتر خدمت کیلئے ہمارے بجٹ اور منصوبوں میں زیادہ توجہ نتائج کے حصول پر ہونی چاہئے۔
(3) غربت کا خاتمہ
ہماری معاشی منصوبہ سازی میں غربت کے خاتمہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ غربت کی موجودہ 29 فیصد شرح کو 10 فیصد سے کم پر لانے کیلئے آئندہ پانچ سالوں کے دوران کم آمدنی والے طبقے کی فلاح و بہبود پر بنیادی توجہ دی جانی چاہئے۔
(4) توانائی کا شعبہ
بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی کے پیش نظر پاکستان میں توانائی کی طلب میں خاصا اضافہ متوقع ہے۔ بجلی کی 15,000 میگاواٹ پیداوار کے منصوبے زیر تکمیل ہیں جو کہ 2018ء کے بعد مکمل ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہمیں مزید 10,000 میگاواٹ بجلی اور 2 سے 3 ارب کیوبک گیس یومیہ پیدا کرنے کا پروگرام بنانا چاہئے۔ ان اہداف کے حصول کیلئے ہمیں Regional Connectivity کے منصوبوں کی تکمیل کیلئے پرعزم ہونا چاہئے۔
(5) خوراک کا تحفظ (Food Security)
تمام صارفین کو ضروری اشیائے خوردونوش کی سستی قیمتوں پر فر اہمی کو یقینی بنانے کیلئے بنیادی فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ زرعی درآمدی اشیاء کے متبادل مقامی طور پر پیدا کرنے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔
(6) پانی کی فراہمی
گھریلو استعمال اور زراعت کیلئے پانی کی فراہمی بہت اہم ہے۔ ہر سال ہمارے دریائوں سے وسیع مقدار میں پانی بہتا ہے مگر ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے جسے ذخیرہ کیا جانا چاہئے۔ آئندہ پانچ سالوں کے دوران ہمیں دیامر بھاشا ڈیم کی جلد تکمیل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پانی کا اسراف بھی روکنا چاہئے۔
(7) Public Sector Enterprises میں اصلاحات
آئندہ پانچ سالوں کے دوران ہمیں PSEs کی Corporatisation اور Efficiency بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔
(8) برآمدات میں مسابقت
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ عالمی تجارت میں مندی اور اجناس کی قیمتوں میں کمی کے باعث ہماری برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آئندہ لائحہ عمل کے طور پر ہماری توجہ برآمدات کی Competitiveness بڑھانے اور اس کے نتیجے میں Export to GDP Ratio کو 12 فیصد پر لانے پر مرکوز کرنی چاہئے۔
(9) Regional Connectivity
ہمیں CPEC انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہئے تاکہ علاقائی رابطوں کے ثمرات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
(10) علاقائی عدم مساوات
کم ترقی یافتہ علاقوں پر توجہ کے ذریعے تمام سماجی و معاشی اعداد و شمار میں عدم مساوات کے خاتمہ کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔
124۔ نہ صرف ہمارا نظریہ بلکہ ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہئے کہ آئندہ پارلیمنٹ کی مدت کی تکمیل تک
i۔ ہر بچہ سکول میں ہو۔
ii۔ زچہ و بچہ کی شرح اموات میں نصف حد تک کمی ہو۔
iii۔ ہر بچے کو متعدی بیماریوں سے بچائو کے ٹیکے لگائے جائیں۔
iv۔ تمام افراد کو پینے کا صاف پانی میسر ہو۔
v۔ بیت الخلاء کا استعمال عام کیا جائے۔
vi۔ ہر نوجوان با ہنر ہو۔
vii۔ عورت کو بااختیار بنایا جائے۔ افرادی قوت میں خواتین کا تناسب 30 فیصد تک بڑھایا جائے۔
viii۔ ہر گھر کیلئے بجلی دستیاب ہو۔
ix۔ فی کس آمدنی دوگنا کر دی جائے۔
x۔ ہماری آبادی کا بڑا حصہ Financially and Digitally Integrated ہو۔
اختتامی کلمات: (Concluding Remarks)
جناب سپیکر!
125۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے کرم سے ہمیں ملک کی معاشی صورتحال بہتر بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ چار سال پہلے کے مقابلے میں آج پاکستان زیادہ خوشحال ہے اور اس کے شہری اپنے اور اپنی نسلوں کیلئے بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عوام کی فلاح و بہبود کے مشترکہ مقصد کیلئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مل جل کر کام کر یں۔ اگرچہ ہم نے لمبی مسافت طے کی ہے مگر ہمیں آسودہ ہو کر نہیں بیٹھ جانا چا ہئے۔ دراصل ہم اسے فقط ایک آغاز سمجھتے ہیں اور ہمیں اپنی کوششیں مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم 2030 سے پہلے ہی دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائیں۔ یہ صرف تب ممکن ہو گا اگر پوری پاکستانی قوم متفقہ Economic Agenda پر یکسوئی سے عمل پیرا ہو۔
126۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمر ان میں فرمایا ہے:
واعتصموابحبل اللہ جمیعا و لاتفرقوا
(اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو) قرآن کی اس آیت کی روشنی میں اس ایوان کے توسط سے میں پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس معاشی وژن کے حصول کیلئے یکجا اور یکسو ہو کر آگے بڑھے۔
127۔ ہمار ا ایمان ہے کہ رسول اللہ ؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اور غیر مسلم یہ مانتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ کی حیات مبارکہ کے دوران ریاست مدینہ تاریخ انسانی میں ریاست کا بہترین ماڈل تھی۔ جناب سپیکر! وہ ماڈل آج بھی اتنا ہی Relevant ہے جتنا پہلے کبھی تھا۔ ہمیں اپنی پالیسی میں اس مثالی ریاست کی روح کو شامل کرنا چاہئے جس کا طرہ امتیاز قانون کی حکمرانی ، شفافیت، میرٹ کا نفاذ، سماجی تحفظ اور اچھی حکمرانی تھے۔
جناب سپیکر!
128۔ اگر ہم اس ماڈل پر عمل کریں تو میرا ایمان ہے کہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کو ممکن کر دکھائیں گے اور پاکستان کو جلد ایک خود مختار، خوشحال، باوقار اور ترقی یافتہ ملک بنا دیں گے۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
پاکستان پائندہ باد
ختم شد
.