چند روز ہوئے،ادیبوں کے دوست رضاربانی صاحب نے کہاکہ معاشرے کی بربادی کا سبب کیاہے،اول تو تمام ترقی پسند طلبا کی تنظیمیں مارشل لا کے زمانے سے اب تک بند کردی گئیں اور رجعت پسند تنظیموں کو نہ صرف کھلی چھٹی دی گئی بلکہ سرکاری طور پر بھی ان کو لاقانونیت اور وحشیانہ حرکات پر ہلا شیری دی گئی۔میراجی کرتا تھا کہ پوچھوں آپ کی بھی دو دفعہ حکومت رہی۔آپ لوگوں نے کیا کیا۔سارے ترقی پسندوں اور پارٹی بنانے والوں کو پیچھے دھکیل دیا،بے شمار پارٹیاں بدلنے والوں اورا ن لوگوں کو ٹکٹ دئیے جو کروڑوں خرچ کرسکتے تھے۔دونوں بلکہ تینوں دفعہ کا انجام دیکھ کر بھی آج پھر وہی لوگ پارٹی میں شامل ہورہے ہیں جو رات کو ایک بجے ایجنسیوں کے ہاتھوں لگائی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر نئی پارٹی بنانے کا اعلان کررہے تھے۔ابھی تو یہ بازار لگنا شروع ہوا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا۔
رضاربانی صاحب نے ایک تیر ایسا چلایا کہ بلبل بھی پکارتی ہائے دل، سارے ادیب، ماضی کو یاد کرتے ہوئے، ملال کی کیفیت میں مبتلا سوچ رہے تھے وہ کیا زمانہ تھا کہ لاہور ہو کہ کراچی کہ پنڈی، سارے شہروں میں کافی ہائوس اور ٹی ہائوسز ہوا کرتے تھے۔لاہور کاٹی ہائوس تو ضیا کے مارشل لامیں بھی ایجنسیوں کے لوگوں کی موجودگی کے باوجود، خوب چلتا تھا۔سارے ترقی پسند ادیب نوجوان اور خواتین سے کھچا کھچ بھرا ہوتاتھا۔ہم لوگ وہاں یکم مئی کی تقریب بھی کرتے تھے کہ سب لوگ اپنی اپنی کرسی پر بیٹھے اونچی آواز میں بات کرتے تھے۔یکم مئی کو اقبال بانو ہماری فرمائش پر،پہلی دفعہ ٹی ہائوس آئیں اور بغیر مائیک کے،انہوں نے فیض صاحب کی نظم،لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے،اتنی اونچی آواز میں سنائی کہ سڑک پر چلتا ٹریفک رک گیا،وہ سپاہی جو ہماری نگرانی کیلئے کھڑے تھے وہ بھی ٹی ہائوس کی کھڑکی میں منہ کرکے،بانو کو سن رہے تھے۔پھر کیا تھا،ہرموقع پر اقبال بانو سے یہ نظم ایسی سنی گئی کہ اب تو کوئی بھی گانے والی چاہے بے سری ہو،اس نظم کو شہر شہر گاتی نظرآتی ہے۔
پاکستان کے قیام سے لے کر ضیا کے زمانے تک ،ٹی ہائوس میں ناصر کاظمی،انتظار حسین، مظفرعلی سید جیسے جید اور ہم جیسے نو آموز بھی ہرشام بیٹھتے، سینئرز سے باتوں باتوں میں بہت کچھ سیکھتے، دو کباب اور پوری ڈبل روٹی کے ساتھ دوکپ چائے سے لنچ کرلیتے، جو لوگ پیسے دیدیتے ،وہ تو ٹھیک تھا۔کچھ لوگ، قرض پر چائے پیتے تھے۔تین ماہ تک جو بل نہ دے ان کے نام بورڈ پر لکھ دیئے جاتے تھے۔خیریہ بات بھی کچھ لوگوں مثلاً حبیب جالب کیلئے سبکی کی نہیں ہوتی تھی۔بہتر تنخواہ دار لوگ ان کی طرف سے بل ادا کردیتے تھے۔حلقہ ارباب ذوق کی میٹنگ بھی اوپر کے حصے میں ہوتی تھیں،تھالی چلتی تھی جس میں کوئی سوروپے تو کوئی دس روپے ڈال دیتا تھا۔کوئی ڈال بھی نہیں سکتاتھا تو دوسرے برا نہیں مناتے تھے۔
پھریوں ہوا کہ ٹی ہائوس کے سامنے والے حصے میں ٹائروں کی دکانیں بڑھتی گئیں۔اس طرح بیٹھنے والے ادیب کم اور تاجر لوگ زیادہ ہوگئے،زاہد جو اس کا مالک تھا،اندرخانی کسی ٹائر والے سے سودا کرکے،‘پیسے لیکرغائب ہوگیا۔ٹی ہائوس میں تالہ پڑگیا۔پھر بھی ہراتوار کو حلقے کاجلسہ ٹی ہائوس کی سیڑھیوں پر ہوتارہا حتیٰ کہ زمانہ، حکومت میں نذیر ناجی کاآیا،انہوں نے نہ صرف ٹی ہائوس کا قبضہ واپس لیا،نئے سرے سے آراستہ کیا،مگر انتظار حسین کے بقول نہ ترقی پسند تحریک زندہ ہوئی نہ ٹی ہائوس کا کلچر، اس وقت نوجوان ادیب، حلقے کا جلسہ اوپر کے حصے میں اب کررہے ہیں۔مگر صور اسرافیل، کوئی نہیں پھونک سکتا۔
پنڈی کے ادیب،شالیمار ہوٹل میں جمع ہوتے تھے کہ ہم لوگ، لاہور سے ایسے روانہ ہوتے کہ شام کی محفل میں شامل ہوسکیں۔کچھ مالدار ادیب، پنڈی کے شیزان میں چائے پیتے تھے۔کراچی کا کافی ہائوس، قیام پاکستان سے لے کر اس وقت تک چلاجب تک شہراقتدار، اسلام آباد منتقل نہیں ہوگیا۔بڑی دور دور تک کراچی پھیل گیا،صرف سلیم احمد کے گھر پر یاپھر ریڈیوپاکستان میں عزیزحامد مدنی،رئیس فروغ کے کمروں میں شعری نشست ہوتی رہی۔جب تک سبین محمود زندہ تھی، اس وقت T2F، ہر طرح کی آزادی کے ساتھ ہرشام، کوئی نہ کوئی نشست ہوتی تھی۔
اب سنیے احوال اسلام آباد کا، جب ظفراقبال چیئرمین سی ڈی اے‘ احمد فراز اکیڈمی کے سربراہ اور میں پی این سی اے میں تھی۔بہت کوشش کی کہ کوئی کونہ ہو جہاں ٹی ہائوس بن سکے۔اکیڈمی کا دفتر بہت دور تھا۔اب بھی وہاں گیسٹ ہائوس میں حلقہ ارباب ذوق کے علاوہ خود اکیڈمی کی جانب سے ادیبوں کے ساتھ شام کا اہتمام کیاجاتا ہے مگر یہ کبھی کبھی ہوتاہے۔ ہمیں چاہئے ایک ٹی ہائوس کہ جہاں ادیب شام کو بیٹھا کریں۔ یوں نئے پرانے، اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں۔ لاہور کے ٹی ہائوس میں تو بھٹو صاحب بھی آجایا کرتے تھے۔ہمارا ٹی ہائوس ہو تو اس میں رضاربانی صاحب بھی آجایا کریں گے‘‘۔
.