• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ بہاولپور کے اسباب...تحریر:انور لودھی…لندن

حقیقت یہی ہے کہ جب تک سیاسی تعصبات، پیشہ وارانہ احتیاطوں اور فی البدیہہ افلاطونیت کا بھاری طوق نہ اتار پھینکا جائے دانشوری فکری افلاس کا شکار ہی رہتی ہے۔ بہاولپور کا المناک حادثہ جہاں گوشت پوست کے انسانوں کو دھوئیں کے بادلوں کی اوٹ میں نگل گیا وہاں کالم نگاری کی قبائے رنگین اوڑھے کئی سیاسی مبصروں اور دانشوروں کی دستار فضیلت بھی چاک کر گیا۔ وہ افلاطون جن کو لقمہ تر ہمیشہ سرکاری توشہ خانے سے نصیب ہوتا ہے انہوں نے اس سانحہ عظیم کی جڑیں بے مہار انسانی لالچ میں ڈھونڈ نکالیں۔ وہ نابغے جن کی دانش بیتاب کو لاکھ جتن کے بعض اخبارات کے صفحات میں جگہ ملی وہ اس نئی نویلی دلہن سے بھی زیادہ محتاط تھے جو پہلی رات گھونگھٹ بھی لرزتے ہاتھوں سے اٹھاتی ہے کہ کہیں پیا کی نظر التفات سے گر نہ جاؤں۔وہ اس دلسوز واقعہ کو انسانی طمع کے ساتھ ساتھ پولیس کی انتظامی نااہلی کے سر تھوپ کر فارغ ہو گئے۔ کچھ میرے جیسے کج فکر، کم فہم لیکن آزاد منش بھی تھے جن کی ازلی کوتاہ فکری بھی اس اندوہناک انسانی المیے کے تھپیٹروں سے جاگ اٹھی۔ خیر تھوڑے سے غور و فکر کے بعد اس واقعہ کے اصل محرکات آشکار ہونا شروع ہو گئے۔. مرض وہی پرانے تھے غربت، جہالت اور بیروزگاری۔ اس تشخیص کو میں نے اپنے ٹویٹ میں ان الفاظ میں سمو دیا تھا " بہاولپور میں لوگ شعلوں میں نہیں، اس گڈ گورننس کی آگ میں بھسم ہوئے جس نے اس ملک کو غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا’’میں نے جیسے ہی مذکورہ ٹویٹ کیا’’روشن پاکستان‘‘والوں کی جاں نثار سپاہ کا سوشل میڈیائی دستہ مغلظات کی تلواریں اور دشنام کے زہر میں ڈوبے نیزے لہراتا ہوا اپنے مورچوں سے نکل آیا اور مجھے گھائل کرنے کے بعد کسی اور معرکہ حق و باطل کے لیے واپس چلا گیا اس زور دار حملے کے بعد میرے دو دن اپنے زخم سہلانے اور اپنی عقلیت پر تشکیک کے اظہار میں گزر گئے۔ منگل کے دن موقر انگریزی روزنامہ دی نیوز کی ویب سائٹ پر سانحہ بہاولپور پر ایک تجزیاتی رپورٹ دیکھی تو مجھے بالکل بھی حیرت نہ ہوئی۔ رپورٹ شماریاتی حوالوں کے ساتھ بہت جامع تھی اسباب وہی تھے جو میں ٹویٹ کے ایک سو چالیس حروف میں بیان کر چکا تھا۔ لیکن تفصیل پڑھی تو رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ موضع رمضان جوئیہ جہاں یہ واقعہ رونما ہوا پسماندگی کا شکار بہاولپور کے باقی علاقوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ صرف پنتیس فیصد کی شرمناک شرح خواندگی کے حامل اور غربت اور بیروزگاری کے کوہ ہمالیہ کے نیچے دبے اس علاقے میں ملک الموت بن کر آنے والا آئل ٹینکر جیسے ہی الٹا اس علاقے میں اعلانات ہوئے اور غربت اور جہالت سے اٹی ان بستیوں کے لوگ دیوانہ وار زومبیوں کی طرح چند روپوں کے پٹرول کے لیے فوراً لپکے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی کا ہر آن دفاع کرنے والے سرکاری مداح سرا اس بات کا جواب نہیں دے پا رہے کہ جہاں سانسیں قائم رکھنے کے لیے دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو، جہاں غربت مخلوق خدا کے بدنوں کو چاٹ رہی ہو وہاں لالچ نہیں بقا کا فطری جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔
پولیس جائے وقوع پر ضرور پہنچی لیکن بھوک اور افلاس نے ان بدنصیبوں کی سوچ کو اتنا شل کر دیا تھا کہ وہ موت کی سفاکیت کو بھی بھول گئے جس نے آن کی آن میں ان کے لاغر اجسام کو جلا کرکوئلہ کر دیا۔ اس علاقے کے سرکاری افسروں نے دی نیوز کو واشگاف الفاظ میں بتایا کہ ذہنوں پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جانے والے اس واقعہ کا تعلق واضح طور پر غربت اور جہالت سے ہی ہے۔جانے والے یقیناً واپس نہیں آ سکتے لیکن اس سانحے نے پنجاب میں لگ بھگ تین عشروں سے حکمراں پارٹی کی ترجیحات کی ہولناک خرابیوں اور شہرہ آفاق "گڈ گورننس" کے کھوکھلے پن کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ حکومت کی توجہ کا مرکز و محور الیکشن جیتنے کے لیے کھربوں کے میٹرو اور اورینج ٹرین جیسے وہ بڑے منصوبے ہیں جو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کے لیے مختص فنڈز کا ایک حصہ بھی چاٹ گئے ہیں۔ نون لیگ کی ہاتھ پر سرسوں جمانے کی شائق قیادت کو اگر ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود مقصود ہے تو اسے الیکشن جیتنے کے مقصد ادنیٰ کو چھوڑ کر عوام پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ تعلیم، صحت اور روزگار کو اولین ترجیح بنانا ہو گی۔ اپنے ہمسایہ ممالک چین اور ہندوستان کو دیکھ لیں، جنہوں نے اپنی عوام پر سرمایہ کاری کر کے اور معیشت کو بہتر بنا کر کروڑوں انسانوں کو غربت اور جہالت کی گہرائیوں سے نکال لیا ہے۔ نون لیگ اگر اپنے "تجربے" کا رخ سڑکوں اور پلوں سے موڑ کر غربت اور جہالت کے خاتمے کی طرف کر دے تو عوام کی معاشی حالت اس قدر ضرور بہتر ہو جائے گی کہ وہ پٹرول اکٹھا کرنے کے موت کے کھیل میں کودنے سے اجتناب کریں گے۔

 

.

تازہ ترین