31جولائی کو سپریم کورٹ کے 14 رکنی بنچ کی جانب سے اس واضح فیصلے کے بعد کہ 3نومبر 2007ء کو اٹھائے گئے اقدامات غیر آئینی تھے، اس فیصلے کی رو سے جنرل مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے جبکہ جنرل مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ عوامی سطح پر اس وقت سے جاری ہے جب سے وہ صدارت سے سبکدوش ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف پر الزامات کی فہرست میں محض آئین توڑنے کا ہی الزام نہیں بلکہ نواب اکبر خان بگٹی، عبدالرشید غازی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا بھی الزام ہے۔ علاوہ ازیں لال مسجد آپریشن سمیت کراچی میں 12مئی 2007ء کی ٹارگٹ کلنگ، 9/اپریل 2008ء کو زندہ جلائے جانے والے وکلاء، سانحہ کار ساز اور ہزاروں لا پتہ افراد کا الزام بھی جنرل مشرف پر ہے جبکہ 31جولائی کے عدالتی فیصلے سے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کا معاملہ آسان ہو گیا ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنرل مشرف آج دنیا کی سیر کرتا اور اب بھی پاکستان کی صدارت کے خواب دیکھتا اور خود کو عالمی سطح کا لیڈر سمجھتا ہے۔ اس کی ان تمام غلط فہمیوں، خوش فہمیوں کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے جنرل مشرف کو کوئی خوف نہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وفاقی حکومت براہ راست ایک فریق کے طور پر جنرل مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کر سکتی ہے مگر حکمران جماعت کے ترجمان اور وزراء صاحبان ایسا نہ کرنے کی بات کر رہے ہیں جس کے جواز میں انتہائی بھونڈے دلائل دیئے جا رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے پارلیمنٹ میں قرارداد لانے کی بات کی تھی اور دوسری جانب وزیراعظم گیلانی نے اعلان کیا تھا کہ اگر قومی اسمبلی نے جنرل مشرف کے ٹرائل کی کوئی قرارداد پاس کی تو حکومت اس قرارداد کے مطابق فوری کارروائی کرے گی مگر اب چوہدری نثار اور میاں نواز شریف کہنے لگے ہیں کہ قرارداد کی کوئی ضرورت نہیں، حکومت ازخود کارروائی کرے۔
سوال یہ ہے کہ جن سیاستدانوں کو جنرل مشرف نے سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی، جن کی پارٹیوں کو18فروری کے انتخابات میں بھاری مینڈیٹ ملا جو آج سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھاری اکثریت کی حامل ہیں جبکہ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ یہ سارا بھاری مینڈیٹ جنرل مشرف سے نفرت کی وجہ سے ملا، تو وہ جماعتیں اور ان کے رہنما سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل مشرف کے ٹرائل کیلئے مشترکہ کوششیں کیوں نہیں کرتے؟ ایسے بیانات اور ایسی پالیسی کہ جس کے شروع میں جنرل مشرف کی مذمت ہو اور آخری حصے میں اس کی حفاظت کا انتظام ہو، کیسا نظریہ اور کیسی سیاست ہے…؟
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے 31جولائی کے عدالتی فیصلے سے پہلے اور بعد میں جنرل مشرف کی گرفتاری کیلئے کوئی عوامی تحریک کیوں نہیں چلائی مگر جس طرح سے ”گو امریکہ گو“ کی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں اسی طرح سے کسی بھی جماعت نے جنرل مشرف کیلئے کوئی بڑا تو کیا چھوٹا سا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ پی پی قیادت کی خودغرضی کا عالم یہ ہے کہ وہ خود جنرل مشرف کو عدالتی کارروائی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید یہ محترمہ اور مشرف دونوں کے شکرگزار ہیں کہ ان کی وجہ سے انہیں اقتدار ملا…؟ وکلاء برادری عوام کی حمایت کے خلاف مشرف کا مقدمہ چلانے کی تحریک شروع کرنے سے کیوں اجتناب کر رہی ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کے کسی بھی ادارے اور سیاستدان میں یہ جرأت نہیں کہ وہ جنرل مشرف کی گرفتاری کیلئے کوئی سنجیدہ اور بھرپور کوشش کر سکے۔ بہرحال قوم دیکھ رہی ہے کہ جب جنرل مشرف پر مقدمہ درج کرنے اور چلانے کا وقت آسان ہوا توکس طرح سے ہمارے تمام ادارے اور سیاستدان مشکل میں پڑ گئے ہیں۔