• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتظارگاہ میں بیس کروڑ پاکستانیوں کے دل دھڑک رہے ہیں ۔فیصلہ پھر محفوظ ہوگیا ہے۔امیدکے پرندے دونوں طرف اڑ رہے ہیں مگر دشتِ امکاں میں وزیر اعظم کی نااہلی کے نقشِ پا قدم قدم یادگار بن چکےہیں ۔میری چشم ِ توجہ میں آٹھ معاملات بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔میں نے انہی کی روشنی سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے ۔
پہلا معاملہ ۔ پانچ صاحبان ِ انصاف کا بنچ تھا۔ان میں دونےپہلےوزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا۔اِس وقت اگر باقی تین ججوں میں سے ایک جج نے بھی خلاف فیصلہ دے دیا تو نااہلی کی تصویرمنظر نامہ پر ابھر آئے گی ۔ یہ بات بھی یادرکھی جائے کہ ان تین ججوں میں ایک جج ایسے بھی ہیں جنہیں موجودہ اہلِ حکم کاطرزِعمل سسلین مافیا جیسا لگتا ہے ۔
دوسرا معاملہ ۔جو جے آئی ٹی بنائی گئی تھی وہ وزیر اعظم اور ان کی فیملی کے خلاف شواہد جمع کرنے میں کامیاب رہی جس کام کےلئے اسے وجود میں لایا گیا تھاوہ اس نے احسن انداز میں سر انجام دے دیامگرنون لیگ کے لوگوں نے اسے جتنا ممکن تھامتنازع بنایا جس کی وجہ سےجے آئی ٹی پر سپریم کورٹ کے اعتماد میں اور اضافہ ہوا۔حکومتی ارکان کے دبائو کی انتہا یہ ہوئی کہ جے آئی ٹی کے تین ممبران کو اپنی فیملیز تحفظ کےلئے ملک سے باہر بھیجنی پڑ گئیں۔
تیسرا معاملہ ۔کچھ جعلی دستاویزات سامنے آئیں جس پر ایک جج صاحب نےیہاں تک کہہ دیا ہےکہ انہیں دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا ہے ۔حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل نے ان دستاویزات کو سابقہ وکیل کی غلطی قرار دیااور یہ کہہ کرمعافی مانگی کہ نیت ایسی نہیں تھی۔اس سے ایک بات توطے ہوگئی کہ جن دستاویزات کو جے آئی ٹی نے جعلی قرار دیا ہے وہ واقعی جعلی ہیں یعنی الزام قبول کرلیا گیا۔ایک جج نے اس جرم میں سات سال کی سزا کا ذکر بھی کیا۔اس جعل سازی کی وجہ سے کچھ اور ثابت ہو نہ ہو مگریہ ضرور ثابت ہوا کہ اگر دال ساری کالی نہیں تو اس میں کچھ کالا ضرور موجود ہے ۔
چوتھا معاملہ ۔شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں ریکارڈ ٹمپرنگ کے سلسلےمیں ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی گرفتار کر لئے گئےمگر حکومت کے دبائو پر انہیں ایف آئی اے کی طرف سےوی آئی پی پروٹوکول دیا گیا انہیں بیمار قرار دے کراسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔چونکہ ان کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ کے کہنے پر درج کیا گیا تھا اس لئے سپریم کورٹ اس مقدمے کی تفتیش کا بھی بغور جائزہ لے رہی تھی۔سواِس عمل نے بھی یہ ثابت کردیا کہ ریکارڈ میں ٹمپرنگ شریف خاندان کی مبینہ خواہش پر کی گئی تھی۔یقیناً اِ س معاملہ کے اثرات مرتب ہوئے ہونگے ۔
پانچواں معاملہ ۔کچھ لوگوں کے خیال میں اپنے آپ کو بچانے کےلئےاسحاق ڈار نے پانامہ کیس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ۔انہوں نےجو النہان کی طرف سے تین خطوط عدالت میں جمع کرائے۔وہ قطری خط سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتبار تھے۔قطری خط کی طرح ان کے ساتھ بھی کوئی منی ٹریل نہیں تھی ۔ تینوں خطوط میں کتابت کی ایک ہی بھیانک غلطی نےتینوں جبینوں کو شکنوں سے بھر دیا۔اگرچہ اِن خطوط کی تاریخوں میں ایک ایک سال کا فاصلہ تھا مگروہ چیخ چیخ کر ایک ہی بد حواس دن کی خبر سنا رہے تھے۔بار بار پوچھنے کے باوجوداسحاق ڈار کے وکیل صرف پانچ سال میں اثاثوں کی مالیت 90 لاکھ سے 80 کروڑ تک پہنچنے کا طریقہ عدالت کو نہ بتا سکے چھٹا معاملہ ۔ لواری ٹنل کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم کی تقریرایڈٹ کرکے پی ٹی وی پر آن ایئر کی گئی ۔مگراُس کااِن ایڈٹ ورجن سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔اس کے ساتھ بزبان حنیف عباسی یہ پیغام بھی کہ اگر فیصلہ اُن کے خلاف آیا تو پاکستان خدا نخواستہ عراق ، شام اور لیبیابن جائے گا ۔جس کا الحمدللہ کہیں کوئی امکان نہیں ۔اس ہولناک نتائج کی دھمکی کے نتائج بھی ہولناک ہو سکتے ہیں ۔
ساتواں معاملہ ۔آخری روز کی سماعت کے آخری گھنٹے میں کچھ نئی دستاویزات جمع کرانے کی درخواست کی گئی جسےمسترد کردیا گیاکہ یہ کاغذصرف طوالت کی کہانی کے کردار ہیں ۔اس سے پہلے بھی عدالت کئی موقعوں پر کہہ چکی تھی کہ آپ منی ٹریل نہیں دینا چاہتے صرف سماعت کا دورانیہ بڑھاناچاہتے ہیں ۔ پانچ روزہ سماعت میں ہر روز کئی بار منی ٹریل کاپوچھا مگر جواب نداردحتی کہ جب قطری پرنس کے ایک اور خط کی بات آ ئی تو پھر پوچھا گیاکہ کیاقطری پرنس کوئی منی ٹریل کوئی ثبوت دینے پر تیار ہے مگر وکیل نے مثبت جواب نہ دیا۔
آٹھواں معاملہ ۔رپورٹ کادسواں والیم کھولا گیا مگراسے اچھی طرح دیکھ لینے کے بعد وزیر اعظم کے وکیل نےخاموشی اختیار کر لی ۔یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اُس پر بحث کرنےکےلئے ٹائم لیں گے۔ اس کی باقاعدہ کاپی حاصل کریں گے ۔سماعت کچھ دن اور جاری رہے گی ۔کہا جاتا ہے کہ اِس والیم میں وہ خط و کتابت ہےجو مختلف ممالک کےاداروں کے ساتھ جے آئی ٹی نے کی ۔سو بنیادی طور پر ضرورت اسی کو چیلنج کرنے کی تھی کہ چونکہ ہمیں جے آئی ٹی کی نیت پر شک ہے اس لئے ان خطوط کی دوبارہ تحقیق ضروری ہے مگر وزیر اعظم کے وکیل کی خاموشی کا مطلب یہ لیا گیا کہ وہ اس تمام خط و کتابت کودرست سمجھتے ہیں ۔اب آخر میںایک ضروری بات کہ پانامہ کیس کا فیصلہ اگرشریف خاندان کیخلاف آ گیا تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی جمہوریت کے خلاف فیصلہ آیا ہے۔انشاءاللہ جمہوریت اسی طرح رواں دواں رہے گی ۔دوماہ کے بعدنواز شریف کی جگہ شہباز شریف آجائیں گے ۔ہاں اگر شہباز شریف نے نون لیگ کی قیادت نہ سنبھالی تو پھر ممکن ہے کہ انتخابات وقت سے پہلے ہو جائیں وگرنہ انتخابات اپنے وقت پر ہونگے۔ ممکن ہے کہ چوہدری نثار علی خان کسی وقت بھی وزارت چھوڑ دیں مگر یہ طے ہےجس روز شہباز شریف وزیر اعظم بنیں گے۔
اُس روز چوہدری نثار پاکستان کےوزیر خارجہ ہونگے۔مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بے پناہ محنت کے باوجودطلال چوہدری ، دانیال عزیزاور ان کے ہمنوائوں کے حصے میں کوئی وزارت نہیں آئے گی اور دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں نون لیگ کی طرف سے وزارتِ عظمی کا امیدوار حمزہ شریف ہوگا۔ہاں اگر وزیر اعظم نواز شریف کو مستقبل کا یہ منظر نامہ قبول نہ ہوا تو پھر جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے مگر ہر دو صورتوں میں انتخابات کے بعدپاکستان کا وزیر اعظم عمران خان ہوگا۔

تازہ ترین