• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اختلاف مگر بردباری کے ساتھ ...خصوصی تحریر…نثار احمدنثار

جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اوراس کی اعلیٰ قیادت جس نے اپنی جائیداد، مال و زر اور جوانیاں اس کے لئے وقف کی تھیں گھر بار لٹائے تھے، آگ اور خون کے سمندر سے گزر کے وہ یہاں سکون کی تلاش میں پہنچے تھے انہیں اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی چین میسر نہ آسکا سیاسی ہلچل کی وجہ سے آج بھی وہ وہیں کھڑے ہیں جہاں قیام پاکستان کے وقت تھے کیونکہ کوئی قیادت بالغ نظری کا ثبوت نہ دے سکی۔ سیاسی ٹریننگ کے لئے بہت سے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور چونکہ یہاں جاگیردارانہ اور فرسودہ نظام موجود تھا اس لئے بات آگے نہ بڑھ سکی سیاسی کشمکش پورے پاکستان کو لے ڈوبی اور ملک اقتصادی اور زرعی طور پر پیچھے کی طرف چلا گیا، سیاسی طور پر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی لیڈر شپ مرکز میں برسراقتدار آنے کے لئے ایک دوسرے کو گرانے میں لگ گئی۔ شیخ مجیب الرحمٰن مشرقی پاکستان کا لیڈر بن کر ابھرا اور ہر روز نئے انتہا پسندانہ بیانات دینے لگا اور اس نے اپنی جماعت عوامی لیگ کو نئی شکل میں ڈھال لیا، مغربی پاکستان میں کوئی بھی قیادت اس صورت حال کا ادراک نہ کر سکی ہندوستان جو مشرقی پاکستان کے زیادہ قریب تھا اس نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور شیخ مجیب الرحمٰن نے مسلم لیگ چھوڑ کر اپنی جماعت کو عوامی لیگ کا نام دے دیا اور چھ نکات کی شکل میں مرکزی حکومت سے مطالبات شروع کر دیئے مشرقی پاکستان میں تشدد آمیز طلبہ تحریکیں منظم کیں، ڈھاکہ، راج شاہی اور دیگر کالج اور یونیورسٹیوں میں منظم ہنگامے کرائے، مغربی پاکستان کی مرکزی حکومت میں مشرقی پاکستان کی جو نمائندگی تھی وہ موثر طور پر ان کا مقابلہ نہ کر سکی، مشرقی پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہ تھی جو عوامی لیگ کا مقابلہ کر سکتی، جماعت اسلامی اور مولانا بھاشانی کی سیاسی جماعتیں، شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کے سامنے ٹھہر نہ سکیں اور وہ اکثریت میں آگئی، عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمٰن گروپ چھا گیا، اپنی طاقت دیکھتے ہوئے شیخ مجیب الرحمٰن نے نئے نئے مطالبات کئے جن کا قانونی طور پر مشرقی پاکستان حقدار نہ تھا ادھر مغربی بنگال کی سیاست ان کے قریب تھی۔ ڈاکٹر شام پرشاد مکھرجی کی حکومت ان کے قریب ہوتی چلی گئی ہندوستان کے زیر اثر آنے کے بعد مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی طاقت مزید بڑھنے لگی، ہندوستان کے اشارے پر شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنے چھ نکات میں شدت پیدا کر دی اور کھلے عام بین الاقوامی طورپر انہیں دہرایا جانے لگا، ڈھاکا راج شاہی اور دیگر کالج اور یونیورسٹیوں میں عوامی لیگ طاقتور ہوگئی، یہ مشرقی پاکستان میں پہلی سیاسی ہلچل تھی، کلکتہ یونیورسٹی اینٹی پاکستان سرگرمیوں کا مرکز بن گئی نتیجہ ہر روز مغربی پاکستان کی مرکزی گورنمنٹ کا رشتہ کمزور پڑنے لگا مشرقی پاکستان کے وزرا مرکز گریز، کمزور بیانات دینے لگے۔ عملی طورپر مشرقی پاکستان میں سیاسی ہلچل کا آغاز ہوا اور شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات کا باضابطہ اعلان کردیا ڈھاکا جو کلکتہ کے پہلے ہی بہت قریب تھا مزید قریب تر ہو گیا، اور مشرقی پاکستان کی گورنمنٹ عملی طور پر کلکتہ کی آر ایس ایس قوت کے زیر نگیں ہو گئی سچی بات تو یہ ہے کہ بنگال عملی طور پر متحد ہو گیا اور مغربی پاکستان کی قوت مزید کمزور ہو گئی کوئی حکم مرکزی حکومت کی طرف سے جاتا تھا، ہوا میں اڑا دیا جاتا اور وہاں عملاً اندرا گاندھی طاقت پکڑ گئی۔ مشرقی بنگال اسمبلی میں اس کے ممبران کی تعداد ڈاکٹر مکھرجی کے ممبران کےسامنے نصف سے بھی کم رہ گئی، یہی وجہ 1965 کی جنگ کا باعث بنی اور ہندوستان نے باقاعدہ طور پر پاکستان پر حملہ کردیا۔ لال بہادر شاستری ہندوستان کے وزیر اعظم تھے اور ایوب خان پاکستان کے صدر تھے 1965کی جنگ میں پاکستان کا پلہ بھاری تھا اور آخر تاشقند میں پاکستان اور بھارت کی صلح ہو گئی۔بین الاقوامی طور پر دونوں ملکوں پر دبائو بڑھا کہ صلح کریں پاکستان کے صدر ایوب خان اور ہندوستان کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کے درمیان معاہدہ تاشقند ہو گیا اور یہ خطہ عالمی جنگ میں تبدیل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ معمولی معمولی سرد جھڑپوں کے سوا کوئی بڑی کارروائی نہ ہوئی اس کے بعد پاکستان میں سیاسی ہلچل کا آغاز ہوا حکومتیں آنے اور جانے لگیں اور اب تک یہ ہلچل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، نہ جانے یہ ملک کے لئےمزید کتنی نقصان دہ ہو گی۔ ماضی کی تلخ یادیں دہرانے کا مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ سیاسی اختلافات ضرور کریں لیکن کوشش یہ کریں کہ یہ ٓاختلافات کسی ایسی سیاسی ہل چل کا پیش خیمہ ثابت نہ ہوں جن سے ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجائے۔

تازہ ترین