• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

درس وتدریس پیشہ پیغمبری ہے جودین اسلام کا بنیادی جزو ہے لیکن صد افسوس پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے اسے نہیں اپنایا۔ برطانیہ ، امریکہ اور ایشیا کے تعلیمی نظام کی نسبت ایک چھوٹے سے یورپی ملک کی انقلابی تعلیمی پالیسی نے اساتذہ کیلئے شعبہ درس و تدریس کو پیشہ پیغمبری کی زند ہ و جاوید مثال بنادیا۔ 25 سال پہلے کا ذکر ہے شمالی یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک جس کی معیشت دگرگوں اور انڈسٹری زوال پذیر تھی اس میں مایوسی کا راج تھا امید کی کوئی کرن بر نہیں آرہی تھی۔ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے دیگر پالیسیوں کے ساتھ موثر تعلیمی اصلاحات متعارف کروانے اور ہر بچے کو سرکاری سطح پر لازمی اور معیاری تعلیم دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس مقصد میں یقینی کامیابی حاصل کرنے کیلئے اساتذہ کوعزت دینے کا فیصلہ کیا گیا انہیں خواب گر قرار دیکر اعلیٰ ترین مرتبہ دیدیا گیا یک جنبش قلم ان کی تنخواہ، ماہانہ مراعات ڈاکٹر اور انجینئر کے برابر کر دی گئیں۔ اساتذہ کو ماسٹر لیول تک پیشہ ورانہ تربیت دینے اور ان کا سالانہ تدریسی وقت600 گھنٹے مقرر کیا گیا جبکہ برطانیہ میں اساتذہ900 اور امریکہ میں1100 گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ اساتذہ، طلبہ اور والدین تینوں ایک زنجیر میں جوڑ دئیے گئے تاکہ تدریسی نظام کی کوتاہیوں اور فوائد کی درست تشخیص اور رپورٹ مل پائے۔ تدریسی دنوں کو کم اور کھیلوں کی حوصلہ افزائی زیادہ کرتے ہوئے اسے اسپانسر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ ہم نصابی سرگرمیوں میں اسٹوڈنٹس کی شمولیت یقینی اور مضامین کے انتخاب میں آزادی دی گئی۔ کلاس روم سے باہر سکھانے پر زور دیا گیا۔ اسٹوڈنٹس کو کم ازکم ایک غیرملکی زبان پر عبور حاصل کرنا لازم ہے ۔لیکن بچے چار زبانوں انگریزی، روسی، جرمن اور فرانسیسی میں ماہر پائے جارہے ہیں۔ نجی اسکولوں کی نسبت سرکاری اسکولوں پر سرمایہ کاری کرکے والدین کو ایک اچھے اسکول کی تلاش سے نجات دلا دی گئی اس امر کی موثر تبلیغ کی گئی کہ تمام اسکول اچھے ہوتے ہیں۔ عوام کی کھال اتارنے اور تعلیم کو کاروبار بنانے والے کارپوریٹ اسکول سسٹم کو جڑ سے ختم کرڈالا گیا۔ اسکولوں کو تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کے اکٹھے ہونے کی جگہ بنادیا گیا۔ روایتی ٹیسٹنگ، احتساب اور مقابلہ بازی کی فضا کو ختم کرکے انقلاب پرور نظام تعلیم متعارف کروایا گیا جس میںحیران کن طور پر19 سال کی عمر کےتمام بچوں کو امتحان سے مبرا قرار دیا گیا۔ اسٹوڈنٹس اور اساتذہ کے درمیان تدریسی عمل کی حقیقت کو جانچنے کیلئے تین رکنی ٹیم بنائی گئی جس میں سوشل ورکر،نرس اور ماہر نفسیات شامل ہیں جو براہ راست پرنسل اور اسکول انتظامیہ کو رپورٹ کرے۔ تعلیم دینے اور پانے والوں کو یہ جملہ ذہن نشین کروایا گیا کہ ہارو مت، مہارت اور پائیدار کامیابی کے حصول تک مسلسل جدوجہد جاری رکھو۔ وہاں معمولی سی تعداد میں نجی اسکول ہیں کسی ا سکول کو ٹیوشن فیس لینے کی اجازت نہیں۔ یہاں تک کہ وہاں نجی یونیورسٹیاں بھی نہیں ہیں۔بنیادی تعلیم کلاس اول تا کلاس نہم تک ہے جس میں داخلہ لازمی ہے۔ اسکول یونیفارم یا اسکول شوز کا کوئی تصور نہیں۔ ہر روز اوسطاً پونے چار گھنٹے تدریسی عمل ہوتا ہے۔ وہاں 3500 اسکولوں میں62 ہزار ایجوکیٹرز شعبہ تدریس سے منسلک ہیں۔ان تین دہائیوں میں جو تجویز کیا گیا اس پر عمل کو یقینی بنایا گیا جس سے تعلیمی پالیسی انقلاب آفرین ثابت ہوئی۔ پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اسیسمنٹ رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس ملک کا نظام جو ماضی بعید میں ناامیدی اور معیار کے فقدان کے علاوہ کچھ نہ تھا آج سرکاری اسکولوں کے ذریعے امید کی مشعل روشن کر چکا ہے۔ اس تعلیمی پالیسی سے عوامی سطح پر شاندار تبدیلی آئی ہے۔ وہاں بچوں کوا سکولوں میں کوئی ہوم ورک نہیں ملتا۔ کمزور بچوں کی نشاندہی ہونے کے بعد ان میں اصلاح آنے تک اس پر کام کیا جاتا ہےاگر ایک طریقہ ناکام ہوجا ئے تو بعد از مشورہ دوسرا طریقہ اپنالیا جاتا ہے۔ وہاں فی کلاس روم 18 سے 20بچے ہوتے ہیں۔کچھ اسکول اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ اساتذہ ہر بچے کے نام سے واقف ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک کی مانند وہ اپنے بچوں کو روایتی ٹیسٹوں کے بکھیڑے میں نہیں ڈالتے ہیں۔30 فیصد بچوں کوا سکول ابتدائی نو سالوں میں خصوصی مدد دیتے ہیں۔ ہائی اسکول ڈراپ آئوٹ کی شرح صرف 2 فیصد ہے۔ جبکہ انڈیا میں47 ملین ڈراپ آئوٹ ہیں۔ ہائی اسکول گریجویشن شرح امریکہ میں 75 فیصد، کینیڈا میں 78 فیصد جبکہ اس ملک میں93 فیصد ہے۔ وہاں ہر 3 میں 2بچے کالج ضرور داخلہ لیتے ہیں اور ان میں سے 93 فیصد گریجویٹ ہوجاتے ہیں۔ سال 2000 میں40 مختلف بین الاقوامی مقامات پر تعلیمی مقابلے منعقد ہوئے۔ پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اسیسمنٹ کے نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا اس ملک کے15 سالہ اسٹوڈنٹس نے میدان مار لیا۔ تین سال بعد ان بچوں نے ریاضی کے میدان میں ٹاپ کیا۔2006 میں سائنسی مضامین میں اس کے اسٹوڈنٹس نے57 ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا۔2009 میں دنیا کے5 لاکھ ا سٹوڈنٹس کے مابین مقابلے ہوئے تو اس ملک کے اسٹوڈنٹس بیک وقت سائنس میں دوسرے، ریڈنگ میں تیسرے اور ریاضی میں چھٹے نمبر پر رہے ۔آج بین الاقوامی طور اس ملک کے اسٹوڈنٹ پہلے نمبر پر ہیں۔اس ملک کا نام ہے فن لینڈ۔ آج والدین کو جو میٹرنٹی پیکج دیا جاتا اس میں کتابیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ بچے چھ سال کی عمر تک اسکول نہیں جاتےساتویں سال اسکی باقاعدہ پڑھائی کا آغاز ہوتا ہے۔3 اساتذہ تدریسی عمل میں حصہ لیتے ہیں۔ایلیمنٹری سطح پر ہر بچہ صرف4 گھنٹے روزانہ پڑھتا ہے اور اسے کوئی ہوم ورک نہیں دیا جاتا ہے۔ ہر کلاس کے بعد15 منٹ کی بریک دی جاتی ہے۔43 فیصد ہائی اسکول اسٹوڈنٹس ووکیشنل اسکولز میں داخل ہوکر تکنیکی مہارتیں سیکھتے ہیں۔ آج دنیا فن لینڈ کے نظام تعلیم کی پیروی کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے؟ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہم تدریس کو واقعی پیشہ پیغمبری سمجھتے ہیں؟ اگر ہاں تو ہم نے تعلیم و تدریس کو پیشہ پیغمبری جیسا اعزاز اور مرتبہ کیوں نہیں دیا؟ کیوں ہمارے اساتذہ کرام کسمپرسی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں؟ وہ زندہ رہنے کیلئے متبادل ذرائع آمدن کی تلاش میں سر گرداں ہوتے ہیں۔ کب ہم کب جاگیں گےاور کب انھیں ڈاکٹرز اور انجینئرز کے برابر ماہانہ تنخواہ و مراعات کا حق دار قرار دے کر اپنے ملک کا مستقبل محفوظ بنا پا ئیں گے؟

تازہ ترین