پانامہ پیپرز پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی سیاسی منظر نامے پر بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی سبکدوشی کے بعد سے ملک گزشتہ تین روز سے حکومتی سربراہ کے بغیر چل رہا ہے۔
دستو ر پاکستان میں وزیراعظم کی عدالتی نا اہلی سے پیدا خلا پر کرنے کا کوئی حل موجود نہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کی 2012 میں توہین عدالت کے جرم میں سپریم کورٹ سے سزا یابی کے بعد بھی تین روز تک ملک میں کوئی وزیراعظم موجود نہیں تھا۔
سیاستدانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس آئینی مسئلے کا حل نکالتے ، قابل افسوس پہلو ہے کہ اس حوالے سے قومی سلامتی اور انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹیوں نے بھی کبھی اس اہم آئینی مسئلے پر توجہ نہیں دی ۔
دستور میں وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا حل تو موجود ہے کہ صدر مستعفی وزیراعظم کو نئے قائد ایوان کے انتخاب تک ذمہ داریاں جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کے ذریعے اس آئینی خلا کوپر کرنے کا راستہ نکالنا چاہیے تھا جس کا تذکرہ ا سپیکر سردار ایاز صادق کو بھی کرنا پڑا۔ اسپیکر نے اعتراف کیاکہ آئینی سربراہ نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں خلا پیدا ہوگیا ہے ، اس خلا کو پر کرنے کےلئے قائد ایوان کا جلد انتخاب ہورہا ہے۔
یہ پہلو حد درجہ محل نظر ہے کہ عدالت عظمیٰ نااہلی کا فیصلہ کرتے وقت اس اہم آئینی سوال کا حل کیوں پیش نہ کرسکی، اسی لئے آج قانونی حلقوں میں اس معاملے کو زیر بحث لایا جارہا ہے۔
چونکہ عدالتی فیصلے پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں اور ان کازیر بحث آنا قابل اعتراض نہیں اب جبکہ نئےوزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ آن پہنچا ہے اور قومی اسمبلی کل نئے قائد ایوان کا انتخاب کررہی ہے جس کے بعد ملک 2018 کے عام انتخابات کی طرف بڑھ جائے گا۔
پارلیمنٹرنز کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل کی شفافیت یقینی بنانے کےلئے اصلاحاتی ایجنڈے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کریں اور اس امر پر بھی توجہ دیں کہ سیاستدانوں کو کرپشن کے الزامات لگا کر بدنام کیا جاتا ہے اور ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔
اس ضمن میں تمام قومی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ جامع مکالمے کا اہتمام کیا جائے اور طے ہونا چاہیے کہ ملک کو کیسے چلانا ہے؟ میاں نوازشریف نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں صائب رائے دی کہ فیصلہ ہوناچاہیے کہ ملک کو لڈ بھڑ کرچلانا ہے یا اتفاق رائے سے،کون نہیں جانتا کہ تصادم، محاذ آرائی اور کشمکش نے اداروں کو کمزور اورملک کو غیر مستحکم بنا دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہو مگروہ جمہوریت جس میں عام آدمی کو جینے کا حق ملے، ضروریات زندگی کی تمام چیزیں اور آسائشیں بآسانی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوں اوراگر جمہوری حکومتیں کرپشن اوربدعنوانیوں کو فروغ دیں گی تو آرٹیکل 63-62 کے تحت نااہلی کا جو دروازہ میاں نواز شریف کے لئے کھولا گیا ۔
اس سے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں نااہلیوں کا متوقع سلسلہ دیگر سیاسی جماعتوں تک وسیع ہوسکتا ہے اوربہت جلد پھر مارگلہ پہاڑیوں کا دامن ملکی سیاست کے کئی نئے پہلو دیکھ سکتا ہے۔