سیاست، سازش اور مارچ کے مہینے کا ایک دوسرے سے تعلق مجھے 1990ء میں دسمبر کی ایک خوبصورت دھوپ میں سرسبز گراؤنڈ میں بیٹھے اس وقت سمجھ میں آیا تھا جب گورنمنٹ کالج لیہ کی تھرڈ ایئر کلاس کو انگلش لٹریچر کے نفیس استاد غلام محمد صاحب شیکسپیئر کے شہرہ آفاق ڈرامہ جولیس سیزر پڑھا رہے تھے۔ مجھے اس دن پہلی دفعہ لفظ سازش سے آشنائی ہوئی۔ یہ ادراک ہوا کہ کون لوگ سازش کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں۔ کیسیس جیسا اچھا سازشی وہی ہوتا ہے جو اپنی سازش کرنے کیلئے بروٹس جیسے شکار تلاش کرتا ہے جو اس کے مقاصد پورے کر سکے اور لوگوں کو اس پر شک بھی نہ ہو۔ شیکسپیئر کی زبان اور اوپر سے پروفیسر غلام محمد صاحب کا بیان ایک ایسا عجیب سماں باندھتے تھے کہ جولیس سیزر کا رومانس آج تک سر پر سوار ہے۔
یہی وجہ تھی جی اسلام آباد کے مارگلہ روڈ پر واقع ایک ریسٹورنٹ میں جب صحافی دوست سلیم صافی نے مجھ سے یہ مذاقاً کہا کہ یار کیوں نہ کوئی ایسی سازش کی جائے جس سے پختون رہنماء محمود خان اچکزئی دوبارہ پارلیمنٹ کے ممبر بنیں تو مجھے پھر اپنے کالج کی انگش ادب کی کلاس یاد آ گئی۔ سلیم صافی نے محمود اچکزئی کے اعزاز میں کھانا دیا ہوا تھا۔ میری اس انتہائی قابل احترام پختون رہنماء سے تین سال بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ بات میں نے ہی شروع کی تھی کہ اس موجودہ پارلیمنٹ میں وہ مزا نہیں تھا جو جنرل مشرف کی تخلیق کی ہوئی پارلیمنٹ میں تھا جب محمود خان اچکزئی، لیاقت بلوچ، حافظ حسین احمد، ثناء اللہ بلوچ اور اعتزاز احسن جیسے سیاستدان اپنی خوبصورت گفتگو سے ایک سماں باندھ دیتے تھے۔ میرے جیسے رپورٹرز کیلئے ان کی تقریریں ایک سیاسی سکول کا درجہ رکھتی تھیں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں چوہدری نثار، حیدر عباس رضوی اور ڈاکٹر بابر اعوان کی تقریریں سن کر پرانی ٹھرک پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں وگرنہ یوں لگتا ہے بھیڑ بکریوں کو ہانک کر ایک جگہ اکٹھا کر دیا گیا ہے جو ہر وقت اپنے گڈریے کے ہاتھ کے اشاروں کے منتظر رہتی ہیں۔میں محمود خان اچکزئی سے یہ شکایت کرنے لگا کہ بلوچوں اور پختونوں کو کسی بھی قیمت پر قومی اسمبلی کے پچھلے انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان بلوچوں اور پختونوں نے پچھلی پارلیمنٹ میں پنجاب سے آئے ہوئے میرے جیسے درجنوں صحافیوں کی کچھ اس طرح سے برین واشنگ کی تھی کہ آج بلوچوں اور پختونوں کا مقدمہ اسلام آباد کے صحافی لڑ رہے تھے۔ ان کے پارلیمنٹ میں نہ آنے سے یہ نقصان ہوا ہے کہ اب صحافیوں کو بلوچوں اور پختونوں کا مقدمہ لڑنے کیلئے اچکزئی اور ثناء اللہ بلوچ جیسے لوگوں کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
سلیم صافی بولے کہ اچکزئی صاحب جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے تھے۔ دونوں نے تو اپنی قسمیں توڑ کر ضمنی انتخابات میں اس پارلیمنٹ میں جانے کی کوشش کی لیکن اچکزئی اپنی قسم پر ڈٹے رہے۔ جب سلیم صافی نے میرے منہ سے پانچ چھ سیاستدانوں کے نام سنے تو وہ بولے کہ یار پھر ایک سازش نہیں بلکہ پوری پارلیمنٹ کو گھر بھیجنا پڑے گا تاکہ ہمارے پسندیدہ اور اچھی تقریریں کرنے والے سیاستدان واپس آ سکیں۔ میں نے کہا ان میں میں ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی اور اسحاق خان خاکوانی کے نام بھی بھول گیا تھا جن سے ہونے والے نرم گرم بحث و مباحثے میں ابھی بھی مس کرتا ہوں۔ میر ے خیال میں اچکزئی اگر آج وہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے تو شاید پختونوں کے کیس کو ان سے بہتر کوئی نہیں لڑ سکتا تھا۔ وہ واحد ایک ایسے قومی رہنماء ہیں جن کی نواز شریف، شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان جیسے لوگ بھی بڑی عزت کرتے ہیں۔ محمود اچکزئی مسکرائے اور مذاقاً کہا کہ تم اسفند یار ولی سے مجھے فیس لے دو میں پختونوں کا مقدمہ ان کیلئے لڑنے کو تیار ہوں۔
باتوں کا رخ کسی اور طرف مڑ گیا۔ میں نے محمود خان اچکزئی سے درخواست کی کہ وہ مجھے سات سال پہلے دیئے گئے ایک دھماکہ خیز انٹرویو کو شائع کرنے کی اجازت دیدیں۔ 2003ء میں جب میں نے بہت سارے بڑے بڑے سیاستدانوں کے انکشافات سے لبریز انٹرویو دی نیوز کیلئے کیے تھے تو ان میں محمود اچکزئی بھی شامل تھے۔ اس انٹرویو کے دوران انہوں نے بینظیر بھٹو، نصرت بھٹو، شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو سے متعلق کچھ ایسی کہانی سنائی تھی کہ مجھے یوں لگا تھا کہ میں کسی ہالی ووڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم کا سکرپٹ سن رہا ہوں۔ جب اچکزئی نے وہ داستان ختم کی تھی جس کے تانے بانے بھٹو کی پھانسی کے بعد 70۔کلفٹن کراچی، بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور کابل سے جا کر ملتے تھے تو ساتھ ہی اس پختون لیڈر نے میرے ہاتھوں میں یہ کہہ کر ہتھکڑیاں لگا دی تھیں کہ یہ ایک راز ہے جو میں نے ایک صحافی دوست کے ساتھ شیئر کیا ہے اس کو کبھی چھپنا نہیں چاہیے۔ میری آنکھوں میں بے یقینی اور حیرانی دیکھ کر اچکزئی بولے تھے کہ اگر تم نے یہ راز افشا کر بھی دیا تو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا ہاں یہ ضرور ہے کہ ہوسکتا ہے کسی دن تمہیں اسلام آباد سے جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑے تو پورے پاکستان میں میں وہ واحد شخص ہوں گا جو تمہیں بلوچستان میں اپنا مہمان بنا کر رکھے گا ۔
سات برس گزر گئے تھے اور وہ راز ابھی تک راز تھا ۔ میں نے اچکزئی صاحب سے کہا کہ راز بھی عشق کی طرح ہوتے ہیں جو زیادہ دیر تک نہیں چھپائے جا سکتے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آج کل میں 2003ء میں اپنے ان تہلکہ خیز اور خوفناک انکشافات پر مبنی دی نیوز کے لیے لکھی گئی تحریروں کو ایک اردو میں کتابی شکل میں ڈھالنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ نواز شریف، چوہدری نثار علی خان، جنرل علی قلی، اسحاق ڈار، گورنر پنجاب شاہد حامد، سلمان تاثیر، شیخ رشید، میر ظفر اللہ جمالی، مشاہد حسین، چوہدری شجاعت، جنرل امجد، فیصل صالح حیات، آصف علی زرداری، قاضی سلطان محمود وغیرہ کی وہ پروفائلز اب تقریباً کتابی شکل میں تیار تھے لیکن آخری باب محمود اچکزئی کے نام سے خالی پڑا تھا۔ اگر وہ آج سات سال بعد وہ راز سے پردہ اٹھانے کی اجازت دیدیں تو شاید یہ اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی سیاسی کتاب اگلے مہینے تک مارکیٹ میں آ جائے۔
میری لمبی کہانی سن کر اس پٹھان کے سخت دل میں شاید پہلی دفعہ نرمی پیدا ہوئی۔ اپنے ساتھ بیٹھے ایک اور محترم پختون لیڈر سینیٹر عبدالرحیم مندوخیل کی جانب دیکھ کر کہا کہ اب تم اپنا مقدمہ ان کے سامنے پیش کرو۔ یہ جو فیصلہ دیں گے وہ میں قبول کر لوں گا۔ میں مسکرایا اور بولا کہ خان صاحب اس کا مطلب ہوا کہ میں سات سال اور انتظار کروں۔اچکزئی کہنے لگے کہ وہ روایات کے ہاتھوں مجبور تھے۔ میں نے کہا خان صاحب اگر دنیا کے سارے لوگ آپ کی طرح ان روایات کے تقاضے پورے کرتے تو شاید انسانی تاریخ آج مختلف ہوتی۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے ان قوموں اور لوگوں کا جنہوں نے اپنے علم، تجربے اور راز ایک نسل سے دوسری کو منتقل کیے۔ اگر راز راز ہی رہتے تو شاید یہ لفظ کبھی ایجاد ہی نہ ہوتا۔ راز صرف وہی ہوتا ہے جو کچھ بعد ایک خوبصورت لڑکی سے عشق کی طرح کھل کر سامنے آئے اور اپنا ناچ دکھائے۔
میری انکشافات سے بھرپور نئی سیاسی کتاب ادھوری پڑی ہے۔ سات سال بعد ایک پٹھان کے دل میں صرف اتنا رحم پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے میرا مقدمہ عبدالرحیم مندوخیل کی عدالت میں بھیج دیا ہے۔ میں اگلے ہفتے ایک اور پختون کی نئی پرانی دلیلیں ملا کر محمود خان اچکزئی کے اس تیس سالہ پرانے سیاسی راز سے اپنی کتاب میں پردہ اٹھانے کی کوششیں نئے سرے سے شروع کرنے والا ہوں۔شکیپیر نے جولیس سیزر میں درست ہاتھا کہ مارچ سیاسی سازشوں کا موسم ہوتا ہے۔ میں نے بھی سات سال بعد مارچ کے مہینے میں ہی اچکزائی کے اس تیس سالی پرانے سیاسی راز سے پردہ اٹھوانے کیلئے ایک نئے سرے سے اپنی کوششوں کا آغاز یہ سوچ کر کر دیا ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کے ایک اتنے بڑے راز کو مزید راز نہیں رہنا چاہئے!