• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ معاشی حالات اور پرویز مشرف کی واپسی ؟......معاشی حقائق…سکندر حمید لودھی

پاکستان کے سیاسی حالات میں کسی تبدیلی کے اشارے واضح ہونے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے بعض امریکی سفارتی اور عسکری دوستوں کو اعتماد میں لیکر ماہ اکتوبر میں وطن واپسی کی ابتدائی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے حامی گروپ کی طرف سے باقاعدہ اعلان کے بغیر موجودہ حکومت کی اقتصادی میدان میں ناکامیوں پر مبنی ایک دستاویز یا وائٹ پیپر کی تیاری پر کام کا آغاز کر دیا ہے ، سیلاب کی تباہی کے بعد سابق صدر مشرف اور ان کے وزیر اعظم شوکت عزیز امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے مختلف عالمی اور کاروباری شخصیات سے رابطے میں سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ سابق صدر نے اپنے پاس سے ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ۔بہرحال یہاں ہم قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ سابق صدر کی حامی مختلف شخصیات نے سابق صدر کی آمد سے قبل موجودہ حکومت کی اقتصادی میدان میں مختلف ناکامیوں کو جواز بنا کر ایک ایسی ہی جامع دستاویز کے ذریعے قوم کو اس انداز میں اپنے دور کے کئی حقائق سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ابھی حال میں (ماہ جولائی ) میں عالمی بنک کی جو تازہ ترین رپورٹ منظر عام پر آئی ہے اس کے صفحہ سات آٹھ پر کہا گیا ہے کہ مشرف دور میں پاکستان میں غربت کم ہو گئی تھی۔ جبکہ اب غربت بڑھ رہی ہے، سابق صدر کے دور میں مجموعی گرانی اوسطاً 7فیصد رہی جس سے غربت کی شرح 2001ء کے 34.5فیصد سے کم ہو کر 2007/08ء میں 17.2فیصد پر آ گئی ۔ اس طرح اس عرصہ میں بیروزگاری کی شرح 8.3فیصد (2001-02ء ) سے کم ہو کر 5فیصد رہ گئی تھی ۔ صنعتی شعبہ میں گروتھ ریٹ 7.5فیصد رہی ۔ جبکہ لارج مینو فیکچرنگ سکیل (LMS) میں گرانی 90فیصد تک گئی جو کہ اب 4سے 6فیصد رہ گئی ہے ۔ اس طرح روپے کی قیمت میں استحکام رکھا گیا اور اس کی ویلیو 62.5روپے فی ڈالر رہی ۔ جو کہ اب 85روپے تک پہنچ چکی ہے اس سے پبلک ڈٹ کے حجم میں 1125ارب روپے کا اضافہ ہوا اس طرح مجموعی طور پرپبلک ڈٹ کا حجم جو جون 07ء میں 4814 ارب روپے تھا وہ جون 2010ء میں 8913ارب روپے سے بھی بڑھ چکا ہے ۔ اس طرح 3سال میں اس میں 4099ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ جبکہ غیر ملکی قرضوں کا حجم اس عرصہ میں 40.3ارب ڈالر تھا وہ اب بڑھ کر 55.6 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے ۔ دوسری طرف اس عرصہ میں زرعی شعبہ کی پیداواری میں پانی کی کمی کے باوجود 3فیصد اضافہ ہوا ۔ تاہم یہ بڑی بدقسمتی کی بات رہی کہ ماضی اور موجودہ حکمرانوں کے ساتھ اس دور میں بھی پانی کی سٹوریج اور سستی بجلی کی فراہمی کا کثیر المقاصد منصوبہ ”کالا باغ ڈیم “ آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس دور میں کسی نہ کسی طریقے سے آئی ایم ایف سے ضرور چھٹکارا حاصل کیا گیا اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی طرف سے کشکول توڑنے کا اعلان کیا گیا ۔ اب موجودہ حکومت کے دور میں اس کشکول کا حجم بڑھ گیا بلکہ اب اس حجم کو مزید بڑھانے کے لئے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ آئی ایم ایف کے حکام سے واشنگٹن ڈی سی میں بات چیت کر چکے ہیں اس دستاویز میں توانائی، ترقیات اور دیگر شعبوں کی کارکردگی کو بھی زیر بحث لایا جا رہا ہے ۔ اس دور میں سٹاک مارکیٹ میں انڈکس 13ہزار پوائنٹ تک گیا پاکستان اکانومی کا مائنز 1999ء میں 70ارب ڈالر سے بڑھ کر 60ارب ڈالر تک پہنچا ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری 6ارب ڈالر رہی جس میں اس وقت 50فیصد سے بھی زائد کی کمی ہو چکی ہے ۔1998-99ء میں سی بی آر کا ریونیو 308.5ارب روپے تھا جو کہ 2005-06ء میں 712ارب روپے تک پہنچا ۔ بینکوں کے منافع میں آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق کولمبیا اور وینزویلہ کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر رہا جبکہ بھارت 36اور چین 40پوزیشن پر رہا ۔ خواندگی کی شرح 45فیصد سے بڑھ کر 53فیصد ہوئی اس طرح موجودہ دور کے مقابلہ میں اس عرصہ میں مختلف اشیائے ضرورت کی قیمتیں کم رہیں ۔ اس طرح کے لاتعداد دعوے آنے والے دور میں سابق صدر مشرف کے کیمپ سے کئے جائیں گے اس کیمپ کا خیال ہے کہ پاکستان میں اقتصادی حالات دن بدن مزید خراب ہونے والے ہیں، ایسے میں قوم دوبارہ سابق صدر مشرف کو یاد کریگی ۔یہ ان کا سہانا خواب بھی ہو سکتا ہے ، اور حقیقت میں بھی بدل سکتا ہے، اس لئے کہ اس وقت بین الاقوامی اور مقامی سطح پر یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان میں عملاً لیڈر شپ کا بحران ہے، اور اس وجہ سے قومی مسائل دن بدن کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں نئی وکٹ پر کون بیٹنگ کرتا اور کون باؤلنگ کرتا ہے اور کون گوگھلی پھینکتا ہے عوام کو اس سے غرض نہیں، عوام تو دو وقت کی روٹی عزت اور تحفظ کا ساتھ چاہتے ہیں یہ روٹی ہمارے رہنماؤں کے بیانات سے ملنے سے تو رہی عوام تو ہر روز کسی نہ کسی نئی مشکل میں نظر آ رہے ہیں، وفاق ہو یا صوبے، ہر جگہ ”مس گورنس “ بڑھتی جا رہی ہے سیاسی قائدین کے اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں، ایسے حالات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی بھی واپس آ سکتا ہے اور اپنے بعض کارناموں پر فخریا کچھ کاموں کی معافی مانگ کر سرگرم ہو سکتا ہے لیکن قوم کسی آمر کو نہیں، جمہوریت پسند کو ویلکم کریگی یہ کون ہو گا اور کہاں سے کلیئر ہو گا اس بارے میں امریکی حکام بہتر بتا سکتے ہیں، اسلام آباد والوں کو تو صرف تقریب اور تقریر کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔
تازہ ترین