سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان واپس ضرور آئیں گے۔ ان کے اس فرمان پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بڑے ذو معنی انداز میں کہا کہ پرویز مشرف واپس آئے تو ان کا استقبال چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے کیونکہ موصوف پر بہت سے مقدمات ہیں۔ غور کیا جائے تو وزیر اعظم گیلانی کے اس بیان میں ان کی اپنی کمزوریاں بھی بلکتی سسکتی نظر آتی ہیں۔ پرویز مشرف نے 3 /نومبر 2007ء کو آئین معطل کر کے غداری کا ارتکاب کیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان انہیں غاصب قرار دے چکی ہے۔ قانون کے مطابق پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ حکومت کو بنانا ہے لیکن حکومت نے موصوف کو گارڈ آف آنر لیکر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ 3 نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدام کو ابھی تک پارلیمنٹ نے تحفظ بھی نہیں دیا اور اس کے باوجود پرویز مشرف پاکستان واپسی کے اعلانات کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں چوری اور اس پر سینہ زوری… شاید پرویز مشرف کو کہیں سے یقین دلایا جا رہا ہے کہ کچھ عرصے تک پاکستان کی موجودہ حکومت اپنی نااہلیوں اور اندورنی تفاوات کے باعث مزید کمزور ہو کر خود بخود ختم ہو جائے گی اور ان حالات میں وہ آصف زرداری اور نواز شریف کے مقابلے پر ایک تیسری قوت بن کر پاکستان واپس آسکتے ہیں۔
فرض کریں کہ موجودہ حکومت اندورنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم ہو جاتی ہے تو کیا ایسی صورت میں واقعی پرویز مشرف کی واپسی آسان ہو جائے گی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ غداری کا مقدمہ قائم نہ ہونے کے باوجود مشرف کی واپسی قانون کی بالا دستی کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن جائے گی۔ طلال بگٹی نے اپنے والد اکبر بگٹی کے قتل کے الزام میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے جس کی ابھی تک سماعت شروع نہیں ہوئی۔ اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں 50 ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر درج ہے اور اس مقدمے کے مدعی اسلم گھمن ایڈووکیٹ ان ججوں کو پرویز مشرف کے خلاف بطور گواہ پیش ہونے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں لہٰذا پرویز مشرف کی واپسی اتنی بھی آسان نہیں ہے۔ پرویز مشرف کی پاکستان میں موجودگی کے بعد ہر چھوٹا بڑا مجرم عدالتوں میں کہے گا کہ جس نے آئین توڑا پہلے اسے سزا دیکر دکھاؤ پھر مجھے سزا دینا۔ ان زمینی حقائق کے باوجود پرویز مشرف پاکستان واپسی کا اعلان کر رہے ہیں تو پھر انہیں یہ یقین بھی دلایا جا رہا ہے کہ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی ان کے راستے سے ہٹا دیا جائے گا۔
اس کالم کے قارئین یاد کریں کہ یکم جولائی 2010ء کو میں نے ” مائنس تھری“ کے عنوان سے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ حکومت کو عدلیہ اور نواز شریف کو آصف علی زرداری کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جس کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا ہے جن کے نتیجے میں صدر زرداری اور نواز شریف کو سیاست سے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سپریم کورٹ سے باہر کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ ان تینوں سے نجات پاکستان کے لئے ناگزیر تھی۔ 8جولائی 2010ء کے ”قلم کمان“ میں ایک دفعہ پھر میں نے خبر دار کیا کہ لاہور میں صدر زرداری پر حملہ کر کے نواز شریف اور اسلام آباد میں جسٹس افتخار محمد چوہدری پر حملہ کرکے صدر زرداری پر الزام لگایا جا سکتا ہے۔ میں نے جو ”مائنس تھری“ کی وارننگ دی تھی وہ دراصل کسی ایسے فارمولے کی طرف اشارہ تھا جو 1993ء میں جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ایجاد کیا تھا اور جس کے تحت مارشل لا نافذ کئے بغیر صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ لیا گیا تھا۔اسی فارمولے کے تحت اگست2008ء میں پرویز مشرف سے استعفیٰ لیا گیا اور اس فارمولے میں معمولی ردوبدل کر کے صدر اور چیف جسٹس سے استعفیٰ لینے کی باتیں سننے میں آرہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ نواز شریف سے استعفیٰ کیسے لیا جائے کیونکہ وہ تو کسی آئینی عہدے پر فائز نہیں ہیں؟ اس کے باوجود پرویز مشرف پاکستان واپسی کا اعلان کر رہے ہیں تو سو بسم اللہ۔ چیف جسٹس آف پاکستان ان کا استقبال کریں نہ کریں لیکن وہ وکلاء اور صحافی ان کا استقبال ضرور کریں گے جنہیں مشرف نے فوجی وردی پہن کر ملک دشمن قرار دیا، کسی کو جیل میں ڈال دیا، کسی کو گھر پر نظر بند کر دیا اور کسی پر پابندی لگا دی۔
پرویز مشرف کا استقبال کرنے کے لئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں گے، ہو سکتا ہے کہ استقبالی ہجوم کی قیادت کا فریضہ طلال اکبر بگٹی سنبھال لیں اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اس ہجوم میں پرویز مشرف کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کریں۔ پرویز مشرف کے دور میں لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لئے ابھی تک سڑکوں پر دھکے کھانے والی خاتون آمنہ مسعود جنجوعہ کے لئے کسی سے پیچھے رہنا بہت مشکل ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مشرف کی واپسی سے کئی دن قبل ان کیلئے استقبالی دھرنا دینے کا اعلان کردیں۔ مشرف کی پاکستان واپسی کی سب سے زیادہ خوشی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہو گی جن کے ہاتھ اور قلم کی کھجلی سے میں واقف ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی کھجلی دور کرنے کا موقع چاہئے۔ کچھ باتیں انہوں نے کسی خاص موقع کیلئے سنبھال رکھی ہیں اور بوقت ضرورت وہ کچھ گواہ بھی پیش کر سکتے ہیں جو یہ بتائیں گے کہ پرویز مشرف نے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن وہ اس فیصلے کی منظوری وفاقی کابینہ سے چاہتے تھے۔
وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اس فیصلے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تو مشرف نے تاؤ میں آکر جمالی صاحب کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کوشش ہوگی کہ پرویز مشرف کا استقبال کرنے والوں میں میر ظفر اللہ خان جمالی کے ساتھ ساتھ چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی بھی شامل ہو جائیں کیونکہ انہوں نے بھی بہت سے راز اپنے ناتواں سینوں میں سنبھال رکھے ہیں اور ہاں! بہت سے کشمیری قائدین بھی پرویز مشرف کے استقبال کے لئے بے تاب ہیں جنہیں موصوف نے بغیر جنگ کے مذاکرات کی میز پر بھارت کو فروخت کرنے کی کوشش کی۔ یہ کشمیری قائدین خواجہ عبدالغنی لون کے قتل اور سید علی گیلانی کے خلاف مشرف حکومت کی سازشوں سے پردہ اٹھانے کے لئے بے چین ہیں۔ تو صاحبو! پرویزمشرف کو پاکستان واپس ضرور آنا چاہئے کیونکہ قوم کو ان کا شدت سے انتظار ہے اور اس مرتبہ وہ واپس آگئے تو پھر دوبارہ بھاگنے نہ پائیں گے۔