الطاف بھائی نے مارشل لا کا شوشا چھوڑ کر ملک میں سیاسی ہیجان پیدا کردیا ہے۔ دراصل بات اتنی سی تھی کہ اے این پی کے سیاستداں کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے تو ایم کیو ایم کے قائد نے اپنے بیان کو ایسے موقع پراس طرح موڑا کہ کراچی کیوں پورے ملک میں فوج آجائے۔ یہ اڑتا ہوا تیر جو پی پی پی کی طرف چھوڑا گیا تھا،کیونکہ انہوں نے اپنے بیان میں زمینداروں، جاگیرداروں کے ساتھ زرداروں کی نئی اصطلاح استعمال کی تھی۔ مسلم لیگ ن نے اس اڑتے ہوئے تیر کو اپنے سینے میں چبھو لیا اور جمہوریت کے چیمپئن اور مارشل لا کی مخالف اور ایم کیو ایم دشمن کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا، اس سے اُن کے زمینی حقائق کی لاعلمی کا پتہ چلتا ہے اور اُن کی پنجاب تک محدودیت کی تصدیق کرتا ہے، ورنہ سیاست تو یہ تھی کہ وہ اپنے آپشنز کھلے رکھتے اور الطاف بھائی کی ایم کیو ایم جو پی پی پی کی طرف سے سخت دباؤ کا شکار ہے اور پی پی پی کے درمیان کھیل کو دیکھتے، الطاف حسین کی ایم کیو ایم تو مارشل لا یا فوج سے زخم خوردہ ہے اگرچہ وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں جنرل صاحب کی مہربانیوں سے مستفیض ہوئی، اب اگرچہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف جو درویشی کے مراحل طے کررہے ہیں ، نے بھی سمجھ لیا ہے کہ مارشل لا نہیں آسکتا، اس لئے فوج بہت مصروف ہے، کار حکومت چلانے میں وہ ہر بار بُری طرح ناکام ہوئی ہے ۔ ایوب خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی، جنرل یحییٰ نے اس کو پایہٴ تکمیل کو پہنچایا، جنرل ضیاء الحق نے سیاچن کھویا اور معرکہ آرائی کے بعد ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکے پھر ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا تحفہ دے کر چلتے بنے، جنرل پرویز مشرف نے سب سے زیادہ فوج کو بدنام کرکے خود اپنی قوم میں اُس کی قدر گھٹا دی، جامعہ حفصہ کا واقعہ کرکے خونِ ناحق کردیا، 9/11 پر امریکی دھمکی کے سامنے لیٹ گئے جس نے پاکستان کو خاک و خون میں نہلا دیا مگر مارشل لا کا خوف اب بھی روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ وزیراعظم صاحب بھی بولے ہیں، جن کے صاحبزادے کے بارے میں یہ خبر اڑی ہوئی ہے کہ اُن کی گاڑی کی قیمت 9 کروڑ روپے کی ہے، اُن کی بیگم صاحبہ لندن سے بے تحاشا شاپنگ کرکے آئی ہیں ۔ وہ بھی سیلاب کے دوران، اُن کے پارٹی کے چیئرمین اُن سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کررہے ہیں۔ شاید اُن کا خیال ہے کہ وزیراعظم صاحب مال بنا رہے ہیں۔ اب ملک میں بدنظمی ہو، کرپشن عام ہو تو کچھ نہ کچھ تو ہوگا ہی، محترم صدر صاحب بھی گویا ہوئے ہیں مگر پھر جو کچھ ہورہا ہے اور محترمہ عاشق اعوان صاحبہ تو فوجیوں پر برس پڑیں، انہوں نے پنجاب کے موڈ کی ترجمانی کی، مگر کیا جائے جب خود حکومت کے کرتا دھرتا قانون پر عمل نہ کرکے حکومت کو ظالمانہ طرز حکومت کے مقام پر لاکھڑا کرتے ہیں۔ہالبروک صاحب امریکہ کی پوزیشن صاف کررہے ہیں کہ وہ مارشل لا کے حمایتی نہیں، ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی نہیں، کہ جنرل حضرات کی سیاسی میدان میں ذہنی سطح نچلے درجے پر کھڑی ہوئی ہے، وہ اس میدان کے جنرل نہیں مگر پھر کیا کیا جائے۔ وہ بھی خاموش نہیں بیٹھ سکتے اگر وہ ملک کے کسٹوڈین ہیں،عدلیہ بھی چپ نہیں رہ سکتی اور عوام بھی کھول رہے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ افراتفری ہو تو فوج آئے دوسرے وہ فارمولا جو میں نے تجویز کیا ہے کہ قومی حکومت بنا دی جائے ایسے افراد پر جن کے دامن داغدار نہ ہوں، جو محب وطن ہوں، جو قوم کی آن و شان و غیرت کے لئے سینہ سپر ہوجائیں، پاکستان کے مقام اور پاکستان کی طاقت کو پہچانتے ہوں اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کا احترام کرانے پر مجبور کرسکتے ہوں۔ اُس کام میں عدلیہ مدد کرے اور فوج بھی، تو میڈیا بھی۔ یہی ادارے ایک اچھی حکومت کو جنم دے سکتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف سیاسی پارٹی کا اجراء کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بہت مال بنایا ہے اور وہ بہت سامان کئی سیاستدان کو دے کر گئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف پاکستان کو جو دکھ دے کر گئے ہیں، جو کام کئے ہیں وہ غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایک جمہوری حکومت کا خاتمے پر غداری کی شق لاگو ہوتی ہے۔ ہائی جیکر نواز شریف نہیں جنرل پرویز مشرف خود تھا اس پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ بننا چاہئے۔
جامعہ حفصہ کی بچیوں کو شہید کرنے پر اُن پر قتل کا مقدمہ بننا چاہئے، 9/11 کے بعد جو پالیسی وضع کی اس پر بھی وہ غداری کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ اُس کے بعد پاکستان خون میں نہا گیا ہے، اس کے علاوہ عدلیہ کی توہین کی شق لاگو ہوتی ہے، پھر جن لوگوں کو وہ کروڑوں روپے دے کر گئے ہیں ان کو سب جانتے ہیں، اُن کو پکڑ لینا چاہئے اور وہ رقم اُن سے نکلوانا چاہئے، تیسرے ہم یہ تجویز بھی دیں گے کہ جنرل پرویز مشرف جس روز پاکستان آنے کا اعلان کریں اس روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایئرپورٹ پہنچیں، وہ اعلان کریں تو لاکھوں لوگ اُن کے ہمراہ ہوں گے۔ جنرل حمید گل بھی اس میں شامل ہوں، نواز شریف بھی اُن کا استقبال کرنے کی کوشش کریں، غرض پوری قوم نکل کھڑی ہو۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ناظمین کے نظام کو کچھ عرصے کے لئے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم اسے درست سمجھتے ہیں کہ اس طرح سیلاب زدگان کی بھی مدد ہوسکتی ہے، پھر کراچی، حیدرآباد و سندھ میں جہاں پر ہر زبان کے بولنے والے آباد ہیں وہ سب کے سب راحت محسوس کریں گے کیونکہ ہر ایک کو نمائندگی مل جائے گی، شہری و قصباتی حکومتیں جمہوریت کی اساس ہے یہ دونوں پارٹیاں جب بھی حکمراں ہوتی ہیں سب سے پہلے شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتی ہیں اور اُن کے اختیارات چھین لیتی ہیں۔ جس سے احساس محرومی بڑھتا ہے اور جمہوریت کی نفی ہوتی ہے ۔ اس سیلاب میں اُن کی عدم موجودگی بُری طرح محسوس کی گئی اور سندھ کی انتظامیہ اور حکومت تو انتہائی نالائق ثابت ہوئی، ایک کے بعد دوسرے شہر اور قصبہ اور دیہات کو ڈبوتی چلی گئی۔ اگرچہ اُس کے پاس زیادہ سہولتیں موجود تھیں، فوج، نیوی اور کراچی جیسے شہر کی حمایت موجود تھی مگر پی پی پی کی ٹوپی پہننے والے وزیراعلیٰ صاحب چند ٹریکٹروں اور چند لوگوں کے ساتھ ادھر سے اُدھر گھومتے نظر آئے اور شہر کے شہر اور دیہات ڈوبتے رہے۔ اپنی زمینوں کو بچانے کے لئے طاقتور وڈیروں غریبوں کی زمین کی طرف سیلاب کے دھارے کا رُخ موڑتے رہے۔ اگر ناظمین کا نظام قائم رہتا تو سیلاب زدگان کی خدمت میں بہت مدد ملتی۔ اس لئے الطاف حسین کا مطالبہ درست ہے۔ ناظمین کے نظام کو بحال کردیا جائے تو پارٹی کی بجائے اس نظام کو بروئے کار لاکر سیلاب زدگان کو بسایا جائے۔