بہرحال الطاف حسین اپنے ایم کیو ایم کے ممبران اور حمایتیوں کی وفاداری کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہیں جب بھی کراچی، حیدرآباد یا کسی بھی جگہ تقریر کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو مجبور سامعین کی شرکت بھی ضروری رہے۔ مشرف کو اس طرح کی حمایت حاصل کرنے کیلئے مشکل وقت کا سامنا کرنا ہوگا بلکہ ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے ملک گیر جماعت بننے کے امکانات بھی محدود ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی سیاستدان نے جوائن نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ان کے دور حکمرانی میں فائدہ حاصل کرنے والے سیاستدان بھی ان سے دور کھڑے ہیں۔ سیاست میں واپس آنے کیلئے مسلم لیگ کا انتخاب کر کے 67 سالہ مشرف اپنی قیادت تلے پاکستان مسلم لیگ کے مختلف حصوں کو متحد کرنے کی امید کر رہے ہیں تاکہ آل پاکستان مسلم لیگ کو ملک گیر جماعت بنایا جا سکے تاہم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کے برعکس پاکستان مسلم لیگ کے دیگر دھڑ جیسے چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پیر پگارا کی پاکستان مسلم لیگ (ف) مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے خلاف متحد ہو رہے ہیں۔ تاہم ایسا بھی نظر آتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے مختلف دھڑے صرف مشرف کو ان کے راستے پر رکھنے کیلئے ہی متحد نہیں ہو رہے بلکہ وہ ا گلے فوجی حکمراں کیلئے تیارشدہ پلیٹ فارم بھی مہیا کر رہے ہیں۔ اس طرح سے مسلم لیگ نے ان برسوں میں کام کیا ہے اور یہی وجہ کہ حقیقی مسلم لیگ، بہت سے غیر شناختی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ مشرف کے علم میں ہونا چاہئے کہ پاکستان مسلم لیگ کے مختلف دھڑ ے ریٹائرڈ آرمی چیف (جس کے اقتدار میں آنے کے امکانات بھی کم ہوں) کے برعکس حاضر سروس فوجی حکمران کا ساتھ دینے کیلئے ساتھ خوش اور رضامند ہیں، جب تک مشرف وردی میں تھا اور اس کے پاس اقتدار کی دولت تھی، اس وقت تک پاکستان مسلم لیگ (ق) انہیں پلیٹ فارم مہیا کرنے کیلئے تیار تھی۔ اگر آل پاکستان مسلم لیگ کوئی ترقی نہیں کر پاتی جیسا کہ محسوس ہو رہا ہے تو یہ کچھ عرصے میں سابق آرمی اور ایئرفورس چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ایئرمارشل اصغر خان کی بنائی گئی سیاسی جماعتوں جیسی قسمت کا شکار ہوسکتی ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسروں نے معمولی فتح حاصل کر کے چند جماعتوں میں وزراء کی نشست حاصل کر چکے ہیں لیکن ابھی انہیں پاکستان کے آزاد اور منصفانہ الیکشن میں ایسی جماعت کی سربراہی کرنی ہے جو فاتح قرار پائے۔
مشرف اس وقت تک کوئی تاثر نہیں چھوڑ سکتے جب تک کہ وہ وطن واپس آ کر آزاد سیاست میں حصہ نہیں لے لیتے۔ تاہم مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اور 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بھی اس کے امکانات کم ہیں۔ اس سے قبل انہیں عدالت میں مختلف مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا اور تمام الزامات سے بری ہونا ہوگا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے الفاظ میں{، چیف جسٹس افتخار چوہدری مشرف کے وطن واپس آنے پر ان کا استقبال کریں گے۔ اس کے علاوہ انہیں القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بھی بچنا ہوگا جو ان کے اقتدار میں بھی انہیں مارنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ تاہم اب ان عناصر کا یہ کام آسان ہوگیا ہے کیونکہ اب مشرف اس طرح کی سیکورٹی حاصل نہیں کرسکتے جو انہیں بطور آرمی چیف اور صدر کے مہیا تھی۔ اسی طرح لال مسجد پر حملے کی وجہ سے جہادی اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کی وجہ سے بلوچ عسکریت پسند بھی ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں ہیں۔ اس صورتحال میں کوئی بہت ہی خوش قسمت اور بااثر شخص ہی ان تمام رکاوٹوں کو ختم کر کے ایک نئی پارٹی تشکیل دے کر سیاست میں اپنا کیریئر بنا سکتا ہے، مشرف جنہیں تمام اختیارات کے ساتھ اپنے عوام کی خدمات کا موقع میسر آیا تھا لیکن وہ بری طرح سے ناکام ہوگئے۔