سابق صدرِ ، پرویز مشرف 2سال سے مزے کر رہے تھے ۔ پوری دنیا میں اپنے لیکچروں کی کمائی کھا رہے تھے اگرچہ کبھی کبھی اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کی بھی بات کر جاتے تھے مگر یار لوگ اس کوبالکل بھی سیریس نہیں لے رہے تھے البتہ گزشتہ ڈھائی سال سے جب سے جمہوریت 9سال بعد لوٹی تھی تو مہنگائی میں اتنا اضافہ ہو رہا تھا کہ عوام کے منہ سے یہ نکلتا تھا کہ پرویز مشرف کے دور میں اتنی مہنگائی نہیں تھی پھر ساتھ ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا حرام کیا تو بھی عوام کو پرویز مشرف کا زمانہ بھلا لگا اور جب دہشت گردی بے لگام ہو گئی تو خصوصاً کراچی کے عوام کو پرویز مشرف کا دور بہت سہانا لگا اور وہ شدت سے یاد آئے۔ اب جب انہوں نے اپنی نئی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ خود کی شمولیت بھی کر ڈالی تو سارے سیاستدان اور میڈیا بری طرح چونکے اور پھر سب کے سب ان کے پیچھے پڑ گئے ۔ سیاسی جماعتوں میں سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جب سے جلا وطنی ختم کر کے لوٹے تھے روز اخباری بیان میں پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی بات کرتے تھے تو پی پی پی والے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے تھے تو میاں صاحب تلملا جاتے تھے ۔ صدرزرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کو اس دوران خاموش رکھا مگر جب پرویز مشرف نے لندن میں پریس کانفرنس میں اپنا سیاسی پروگرام پیش کیا تو میاں صاحب کھل کر مخالفت پر اتر آئے دوبار آئین توڑنے اور ان کے خلاف فوجی بغاوت جیسے مقدمات بنانے، پاکستان کی سلامتی کو امریکہ کے ہاتھوں بیچنے جیسے الزامات لگا کر عوام کو ان کے خلاف بھڑکانہ شروع کر دیا ۔ روز ہی ان کے رفقاء ٹی وی پر آ کر خوب بھڑاس پرویز مشرف کے خلاف نکالتے ، پہلے تو 2سال تک وہ یہ کہتے رہے کہ پرویز مشرف کبھی پاکستان نہیں آئیں گے اگر آئے تو وہ بغاوت جیسے مقدمات کا سامنا کریں گے خصوصاً چیف جسٹس کی برطرفی جیسے واقعات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ لال مسجد کا سانحہ ، بلوچستان میں اکبر بگٹی کی قتل کی ایف آئی آر جو آج تک درج نہیں ہو سکی وغیرہ وغیرہ ۔ پی پی پی کی طرف سے رحمن ملک ان کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں وہ این آر او جیسے واقعات سے انکاری ہیں کہ ایسا کوئی معاہدہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے نہیں کیا تھا ۔ سارا ملبہ پرویز مشرف پر ڈال کر خود کو بے گناہ ثابت کر رہے ہیں پھر ہمارے کالم نگار دوستوں نے بھی 9سالہ آمریت دور کی نئی نئی داستانیں سنائیں ان میں وہ بھی شامل تھے جو پرویز مشرف دور کی تعریفیں بھی لکھ کر اس زمانے کا نمک حلال کر چکے تھے ۔ آج سب یک زباں ہو کر ان کے خلاف الزامات کی بارش برسا رہے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ آخری دو سال پرویز مشرف کی پچھلی 7سالہ دور کی اچھائیاں کھا گئے ، قوم کو سب سے زیادہ تعجب تو چوہدری برادران کی مکمل یو ٹرن پالیسی سے ہوا جنہوں نے اس پورے 9سالہ دور میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے خود اقتدار کے مزے لوٹے ہی نہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے اتنا مال بنایا کہ اگلی دس نسلیں یاد کریں گی ۔ کوئی محکمہ نہیں چھوڑا جہاں ان کی کرپشن کی داستان نہ سنائی دے اسی طرح ان کے وزراء دونوں ہاتھوں سے مال بناتے رہے اور پرویز مشرف کو بدنام کرتے رہے۔ آج سب یک زباں ہو کر پرویز مشرف سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کر رہے ہیں عوام حیران ہے ، ان میں سے سوائے خورشید قصوری کے کسی نے بھی ان کی پارٹی میں شمولیت نہیں کی خصوصاً شیخ رشید جو ان کے پورے دور میں وزارت ہی کے نہیں ہر اچھے اور برے موقعوں پر کندھا ملا کر چلتے تھے اب وہ خود ایک مسلم لیگ کے بانی بن چکے ہیں اگرچہ ان کو عوام سے کوئی پذیرائی نہیں ملی اگراس آڑے وقت میں وہ اپنی مسلم لیگ اور پرویز مشرف کی مسلم لیگ کو جوڑ کر کچھ سیاسی کمال کرتے تو زیادہ بہتر صورت نکلتی، اکیلے نہ وہ خود اور نہ ہی پرویز مشرف مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کر سکیں گے۔ پرویز مشرف کا فوجی بیک گراوٴنڈ ہے وہ سیاسی طور طریقوں سے ابھی تک نا واقف ہیں اسی وجہ سے صرف چند دن میں ہی انہوں نے اپنے خلاف کئی محاذ کھول لئے ہیں ، ایک طرف وہ شریف برادران کو للکار رہے ہیں ان پر ذاتی جملے بھی کس رہے جس سے عوام میں نواز شریف کے چاہنے والے برا منائیں گے اور ان کا ووٹ بینک کم ہوگا مگر اس سے بڑی غلطی انہوں نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو عوام میں عبدالستار ایدھی کی طرح عزت کے مقام پر فائز ہیں ان کے خلاف نازیبا الفاظ ہضم نہیں ہوں گے بلکہ ان کو بہت سیاسی نقصان پہنچ چکا ہے وہ بھول گئے کہ وہ اب نہ فوجی رہے اور نہ فوجی وردی ان کے لئے کوئی مثبت سہارا بن سکتی ہے۔ صرف وہ ماضی کی چند اچھی مثالیں جس میں مہنگائی پر اور دہشت گردی پر نیک نام کمایا تھا ، پڑھے لکھے لوگوں میں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور کارکنوں کی نسبت ابھی تک ان پر کوئی کرپشن کا الزام نہیں ہے ، بہتر مستقبل ہو سکتا تھا مگر یکے بعد دیگر الزامات لگا کر انہوں نے خود اپنا وزن کم کر لیا ہے اور ابتدا میں غلطیاں بہت مہنگی ثابت ہوتی ہیں ۔ کشمیر کے بارے میں بھی ان کے موٴقف سے پاکستان کو نقصان پہنچا اور بھارت نے اس سے فائدہ اٹھا کر پاکستان پر ایک بار پھر مداخلت کی نشاندہی کردی ۔ ایسا وہ کیوں کر رہے ہیں سیاسی لوگ حیران ہیں۔ اگرچہ ابھی تک ان کا پاکستان آنا بہت امتحانوں سے گزرنے کے برابر ہے اور ناممکن نظر آتا ہے پھر بھی سیاستدانوں سے وہ مشکل سے ٹکر لے سکیں گے ، سیاستدان پھر سیاستدان ہوتے ہیں اور وہ فوجی ہی رہیں گے اور مزید انٹرویو دیکر غلطیوں پر غلطیاں کر کے متنازع بن جائیں گے۔