اپنی جماعت بنانے کا اعلان کر کے پرویزمشرف نے پھر سے کارگل کر دیا۔ وہاں انہوں نے جنگ کا پنگا لیا تھا۔ جواب میں بھارتیوں نے چڑھائی کی‘ تو جنرل صاحب اپنے وزیراعظم کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھے تھے کہ انہیں اپنے سپاہیوں کی واپسی کا راستہ لے کر دیا جائے۔ وزیراعظم امریکہ گئے اور راستہ مانگ لیا۔ مہلت تھوڑی ملی‘ جس میں اضافے کے لئے پھر امریکہ سے مدد مانگی گئی۔ ان کی جماعت کا بھی کارگل ہو گیا۔ سیاستدان چالاک ہوتے ہیں۔ وہ جنرل صاحب کے گھیرے میں نہیں آئے۔ لندن کی سیر کے لئے کچھ لوگ دستیاب ہوئے اور جنرل صاحب کو انتہائی مہنگے مجمعے سے خطاب کا موقع مل گیا۔ جس طرح کارگل میں حملہ کرتے ہی‘ جنرل صاحب کی درگت بن گئی تھی‘ اسی طرح جماعت بناتے ہی‘ ان کے اپنے ساتھی پل پڑے۔ حد یہ ہے کہ مرنجاں مرنج میر ظفر اللہ خان جمالی بھی‘ اس لہجے میں بات کرتے نظر آئے‘ جس کے وہ عادی نہیں۔ قوم کو پہلی بار پتہ چلا کہ وہ تو بڑے طرم خان قسم کے وزیراعظم تھے۔ وہ جنرل مشرف کے سامنے ہی نہیں‘ امریکہ کے سامنے بھی ڈٹ گئے تھے۔ ان کا بیان پڑھ کر ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔ جمالی صاحب تو آئی ایس آئی کے ایک میجر کے سامنے بھی بلندآواز میں بات نہیں کر سکتے۔ وہ اتنے بہادر کیسے ہو گئے کہ ایک فل جنرل اور فل امریکہ دونوں کو آنکھیں دکھانے کی باتیں کر رہے ہیں؟ اگر ان کی باتیں مانی جائیں‘ تو کہانی کچھ یوں بنتی ہے کہ امریکہ نے ان سے عراق میں فوجیں بھیجنے کے لئے کہا‘ تو انہوں نے ڈانٹ دیا اور جنرل مشرف نے فوجیں بھیجنے پر آمادگی ظاہر کی‘ تو جمالی صاحب نے انہیں بھی جھڑک دیا۔
بات یہاں تک رہ جاتی تو کافی تھی۔ مگر اسی نشست میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ آیا‘ تو جمالی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے جنرل صاحب سے ان کی بات کی تھی‘ مگر خوف کا یہ عالم تھا کہ نام قاضی حسین احمد کا لگا دیا۔ یعنی کہا ضرور۔ لیکن بچاؤ کی گنجائش رکھ لی کہ اگر جھڑکی پڑے‘ تو فوراً گڑگڑائیں کہ ”میں نے خود تو نہیں کہا‘ قاضی صاحب کی بات بتائی ہے۔“ جمالی صاحب نے اقرار کیا کہ جب میں نے ڈاکٹر عافیہ کی بات کی‘ تو جنرل صاحب نے کہا کہ ”تم اس معاملے میں مت بولو۔“ کہاں وزیراعظم کا یہ جاہ و جلال؟ کہ امریکہ اور مشرف دونوں کے سامنے ڈٹ گئے اور کہاں یہ عالم کہ قاضی صاحب کا نام لگا کر اپنی جان بچائی۔ جھاڑ پڑی تو بھیگی بلی بن گئے۔ ان دو واقعات میں‘ دو مختلف قسم کے وزیراعظم نظر آتے ہیں۔ یقین کس پر کیا جائے؟ جاہ و جلال والے وزیراعظم پر یا بھیگی بلی پر؟ سب سے بڑا لطیفہ اس بیان میں ہے کہ جمالی صاحب کو عراق میں فوجیں بھیجنے سے انکار پر وزارت عظمیٰ سے نکالا گیا۔ کیا اس سے چھوٹا کوئی بہانہ نہیں چل سکتا تھا؟ جس طرح کے وزیراعظم جمالی صاحب تھے‘ ایسے وزیراعظم کو نکالنے کے لئے تو اتنا بہانہ ہی کافی ہے کہ ”آپ میٹنگ کے وقت سے پہلے تشریف لے آئے ہیں‘ مناسب ہو گا کہ وقت سے پہلے ہی چلے جائیں۔“ کیا جمالی صاحب انکار کرتے؟ حقیقت کچھ اسی قسم کی ہے۔ البتہ وزارت عظمیٰ سے ان کی سبکدوشی کی دوسری کہانی کچھ یوں بیان کی گئی تھی کہ جب وہ امریکہ کے دورے پر گئے‘ تو وہاں کے صدر سے اس طرح بات کرنے کی کوشش کی‘ جیسے وہ سچ مچ کے وزیراعظم ہوں اور اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”حکم کرو بادشاہو!آپ جو کہیں گے میں کر دوں گا۔“ اور جب امریکی صدر نے مسکراتے ہوئے‘ حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ تو جمالی صاحب نے سعادت مند بچے کی طرح اپنا کندھا‘ ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ”بس آپ ذرا تھپکی دے دیں۔“ تھپکی کی آواز اسلام آباد میں پرویزمشرف کو پہنچ گئی اور ان کی وزارت عظمیٰ کا فیصلہ ہو گیا۔ جنرل صاحب کا اپنا سہارا وہی ایک تھپکی تھی‘ جسے جمالی صاحب نے ہتھیانے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے امریکی تھپکی کا حق دار وہی ہوتا ہے‘ جو امریکیوں کے ٹینکوں‘ بموں اور جنگی طیاروں کا انچارج ہو۔ جمالی صاحب کے پاس تو ایک ہاکی تھی‘ جو وزارت عظمیٰ ملنے سے بہت پہلے وہ ‘گنوا بیٹھے تھے۔ جب ہاکی کی گیند‘ پیٹ کے نیچے دکھائی دینا بند ہو جائے‘ تو پھر ہاکی رکھنے کا کیا فائدہ؟
جنرل (ر) پرویزمشرف نے ڈیڑھ سو ویزوں اور ٹکٹوں کے بل پر‘لندن میں ایک اجتماع تیار کر کے جو پارٹی بنائی‘ اس میں جہلم کے دو چودھریوں کے سوا کوئی قابل ذکر سیاستدان نہیں تھا۔ یہ تھے چودھری شہبازحسین اور چودھری فواد۔ ڈاکٹر شیرافگن لندن کے اجلاس میں تو نظر نہیں آئے‘ مگرٹی وی چینلز پر جنرل صاحب کا دفاع ‘ اسی انداز میں کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ جیسے خود جنرل صاحب اپنا دفاع کرتے ہیں اور ان کا دفاع کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ ”میں جھوٹ بولنے سے نہیں ڈرتا۔“ حالانکہ جنرل صاحب کو یہ جتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے ملک کے تمام ٹیلی ویژن چینلز پر انہیں وردی اتارنے کی تاریخ دیتے سنا ہے اور اس کے بعد وہ تاریخ باوردی گزرتے دیکھی ہے۔ ہمیں پہلے سے ہی معلوم ہے کہ جنرل صاحب صرف سچ بولنے سے ڈرتے ہیں‘ جھوٹ بولنے سے نہیں ڈرتے۔ میں جنرل صاحب کو یہ مشورہ دینے کی سوچ رہا تھا کہ وہ سیاست کے چکر میں نہ پڑیں۔ وہ ملک کے پہلے فوجی حکمران ہیں‘ جنہیں اقتدار کے بعد زندہ سلامت ملک سے نکل بھاگنے کا موقع ملا۔ وہ اس سنہرے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے حکمران طبقوں کے پول کھولنا شروع کر دیں‘ تو عوام پر احسان کریں گے۔ وہ دور اقتدار میں اپنے ساتھیوں کرتوت سن کر کہا کرتے تھے ”میں ایماندار لوگ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں؟ ہمارے ہاں تو تمام سیاستدان ہی ایسے ہیں۔“ اپنے طویل دور اقتدار میں انہوں نے پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو دیکھا ہے۔ سیاسی پارٹی بنا کر انہیں کیا ملے گا؟ جو اقتدار وہ دیکھ چکے ہیں‘ وہ سیاست کے ذریعے تو ملتا نہیں۔ دوسری بار وہ فوج میں بھرتی نہیں ہو سکتے۔ ہو بھی گئے تو جنرل نہیں بن سکتے اور جتنا اقتدار سیاستدانوں کو ملتا ہے‘ اس کی حقیقت جنرل پرویزمشرف سے زیادہ کسے معلوم ہو گی؟ ان کی پارٹی ڈیڑھ سو ویزوں اور ایئرلائنز کے ٹکٹوں کے سیل دوبارہ ڈال کر بھی چلائی جائے‘ تو اتنی دیر ہی چلے گی‘ جتنی دیر پہلے سیل چلے ہیں۔ اگر کوئی معجزہ ہو بھی گیا اور جنرل صاحب کی پارٹی‘ ڈاکٹر شیرافگن اور خود ان کے ہوتے ہوئے چل گئی‘ اسے امیدوار بھی مل گئے اور وہ الیکشن بھی جیت گئے‘ تو ان کے جونیئر کورکمانڈرز انہیں‘ اس سے زیادہ اقتدار کبھی نہیں دیں گے‘ جتنا اقتدار خود انہوں نے اپنے زمانے میں سیاستدانوں کو دیا۔ ایسا شاید ہی کبھی ہوتا ہو کہ کوئی شخص خیرات میں دی ہوئی روٹی خود کھانے کی خواہش کرتا ہو۔ جنرل صاحب کو سیاست کا خیال چھوڑ دینا چاہیے۔ سیاست کے ذریعے ملنے والا اقتدار ایک جنرل کے سامنے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ سیاست پر وقت ضائع کرنے کے بجائے‘ جنرل صاحب کے لئے مناسب یہ ہو گا کہ وہ قوم کو پاکستان کے حکمرانوں کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ جس نے ان کے زمانے میں جو کچھ کیا ہے‘ اس کی تصویر عوام کے سامنے رکھیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ سچائی ظاہر کر کے جتنی انہیں عزت ملے گی‘ اتنی عزت سچائی چھپا کر وہ حاصل نہیں کر سکتے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ صرف بے وردی سچائیاں سامنے لا سکتے ہیں۔ دوسری سچائیاں کبھی نہیں لائیں گے۔ مگر ہم اس کا تقاضا بھی نہیں کرتے۔ بے وردی زندگی میں جنرل پرویزمشرف کا دوسرا کوئی مصرف میری سمجھ میں تو نہیں آتا اور سیاسی پارٹی بنا کر انٹرویوز دیتے ہوئے‘ جنرل صاحب خود اپنی جو درگت بنا رہے ہیں‘ اس پر ان کے پرانے ساتھی بھی شرمندہ ہو رہے ہوں گے اور ان کے بچے ان سے پوچھ رہے ہوں گے ”ابو! یہ تھا وہ آدمی! جسے آپ نے اپنا لیڈر بنایا تھا؟“