سب سے پہلے ایک اہم وضاحت، محترم خلیل احمد نینی تال والا نے اپنے 22جولائی کے کالم میں دنیا میں مسلمانوں کی تعداد 75 سے 80 کروڑ بتائی ہے، یہ تخمینے سے بہت کم ہے۔2001ء میں جب دنیا کی کل آبادی 6/ارب تھی تو مسلمانوں کی تعداد 1.3/ارب تھی۔ حال میں اے سی بلیک لندن سے ہارون صدیقی کی کتاب Being Muslim شائع ہوئی ہے، اس میں ورلڈ فیکٹ بک کے حوالے سے مسلمانوں کی تعداد 1.3 اور 1.6/ارب کے درمیان ہے۔ کتاب میں خطے واری تقسیم اور یورپ کے تمام ملکوں میں مسلمان آبادی کی تفصیل دی گئی ہے۔ (دیکھئے صفحہ اول اور 40)۔آج کل151 کے حلقے کا ضمنی انتخاب بحث و مباحثے کا مرکز بنا ہوا ہے اور اس سے عام انتخابات کا تعلق جوڑا جاتا ہے۔ شماریات کے طالب علم کو انتخاب میں کبھی امیدوار کے جیتنے یا ہارنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ جیتنے والے نے کتنے ووٹ لئے، ہارنے والوں کو کتنے ووٹ ملے، جیت اور ہار میں کتنے فیصدی کا فرق رہا،حلقے کے کل ووٹوں سے کتنے ووٹ پڑے اور کتنے فیصد ووٹروں نے انتخاب میں ووٹ ڈالنے سے گریز کیا۔ جنرل انتخاب اور ضمنی انتخاب میں رائے دہندی کا تناسب کیا رہا۔
کہا جاتا ہے کہ 151 کے وفاقی حلقے کے انتخاب میں کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ جیتنے والے امیدوار نے 64628 ووٹ لئے، دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کے ووٹوں کی تعداد 60532 تھی۔ مقابلے میں کوئی تیسرا امیدوار نہیں تھا اس طرح کل 125160 ووٹ پڑے۔ حلقے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 307873 تھی یعنی دھوم دھام کے باوجود 41 فیصدی ووٹروں نے اپنا حق رائے دہندگی استعمال کیا اور59 فیصدی کی بھاری اکثریت نے انتخاب میں شرکت سے گریز کیا۔ دوسرے 2008ء میں انتخاب میں جیتنے والے امیدوار کو 70490 ووٹ ملے تھے یعنی موجودہ جیتنے والے کو 5870 ووٹ کم ملے بہرحال جیتنے والے کوکامیابی مبارک۔اس انتخاب کو ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت دی جا رہی ہے کیونکہ کامیاب امیدوار کا تعلق پی پی سے تھا اور ہارنے والا آزاد امیدوار تھا مگر اس کو مخالف پارٹیوں (مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف) کا نمائندہ قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ ان پارٹیوں نے اس کی حمایت نہیں کی اور تحریک انصاف تو جنرل انتخاب سے پہلے کسی ضمنی انتخاب میں شرکت کر کے شکست کا خطرہ مول لینے کا تصور ہی نہیں کرسکتی ہے۔اس انتخاب کو اس لئے ٹیسٹ کیس نہیں بتانا چاہئے کیونکہ اس نے چند غیر معمولی وجوہات کی بنا پر اہمیت اختیار کر لی تھی۔ (1) یہ گیلانی خاندان کی موروثی نشست تھی اور 1988ء سے سوائے1997ء کے جب گیلانی صاحب جیل میں تھے اس نشست پر گیلانیوں کا قبضہ رہا۔ (2) عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی رو سے گیلانی صاحب کی برطرفی نے ان کے حلقے میں ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیئے تھے۔ تیسرے سرائیکی صوبے کی تشکیل کے اعلان نے لوگوں میں جوش و خروش پیدا کر دیا اور گیلانی صاحب کی مقبولیت بڑھ گئی جس کا فائدہ ان کے صاحبزادے کو ہوا، چوتھے ہر انتخابی حلقے میں ایک مفاد پرست ٹولہ ہوتا ہے جو لے دے کر امیدوار کی حمایت کرتا ہے۔ یہاں بھی اس ٹولے نے اپنی کارگزاری دکھائی۔ پانچویں گیلانی صاحب نے اپنے وزارتی دور میں ملتان کے لئے کافی رقم صرف کی اور لوگوں کو نوکریاں دلوائیں لہٰذا بطور تشکر ان کو ووٹ ملے۔ چھٹے یہ افواہ ہے کہ ووٹ خریدے بھی گئے اور ساتویں میڈیا نے بھی اس کو غیر معمولی حیثیت دی۔عام انتخابات میں صورتحال مختلف ہوتی ہے، ہمارے ہاں خصوصاً دیہی علاقوں میں جس قبیلے، ذات یا برادری کا فرد امیدوار ہوتا اس کو اپنے قبیلہ، ذات، برادری کے لوگ (ماسوائے چند دشمن گھرانوں کے) ووٹ دیتے ہیں بلکہ دوسرے شہروں اور قصبوں میں کام کرنے والے محض ووٹ دینے کی خاطر اپنے آبائی حلقوں کا رخ کرتے ہیں۔
بعض علاقوں میں ذی اثر وڈیرہ یا زمیندار بھی فرض ادا کرتا ہے اور حلقے کے سارے ووٹ اس کے نامزد امیدوار کو ملتے ہیں۔کہیں لوگ جھوٹ موٹ کے امیدوار بن جاتے ہیں ان کو بٹھانے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔رہا یہ سوال کہ بڑے بڑے کامیاب جلسوں کو ان کی متعلقہ پارٹیوں کی کامیابی کا اشارہ سمجھا جائے یا نہیں۔ دراصل اس میں جلسوں اور انتخاب کے درمیان طویل وقفہ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ووٹر تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ہر حال میں اپنی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، دوسرے وہ جو کسی صورت میں بھی ایک امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے، تیسرے درمیانی لوگ ہوتے ہیں جنہیں انگریزی میں ”مارجنل“ کہا جاتا ہے اور اکثر صورتوں میں یہی لوگ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر بعض وقت ایک نئی پارٹی تمام پرانی پارٹیوں پر سبقت لے جاتی ہے جیسے 1970ء میں مغربی پاکستان میں تمام سیاسی پارٹیوں نے امیدوار کھڑے کئے مگر نئی پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب رہی یا 1988ء میں سندھ میں ایک نئی پارٹی ایم کیو ایم وجود میں آئی جس نے کراچی میں بعض پرانے کھلاڑیوں کو شکست سے دوچار کر دیا اور بعض اضلاع میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے تاریخ رقم کر دی۔ 83ء میں اس نے کراچی میں 8 لاکھ 18 ہزار، 90ء میں 9 لاکھ 30 ہزار ووٹ حاصل کئے مگر97ء میں5 لاکھ 22 ہزار ووٹ ملے۔
25جولائی کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انتخاب کے لئے نگراں حکومت کے متعلق کہا گیا کہ اس کے قیام کے لئے وقت آنے پر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔ عام انتخابات آئندہ برس ہوں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ پی پی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنا چاہتی ہے۔ بہرحال انتخابات جب بھی ہوں اس میں چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں حصہ لیں گی۔ چار بڑی جماعتوں کے ووٹ بٹ جائیں گے۔ کوئی پارٹی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی، کامیاب پارٹی معمولی ووٹوں سے جیتے گی اور اس کو مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔ عدالت عظمیٰ کسی فیصلے سے حکومت کا انتخابی پروگرام تبدیل کرا سکتی ہے، ذمہ داریوں کو نبھانے میں میڈیا بھی زبردست کردار ادا کرسکتا ہے۔