• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کے باعث دنیا بھر میں اس کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کامیاب ہورہے ہیںاوروہاں سگریٹ استعمال کرنے کے رجحانات کی بتدریج حوصلہ شکنی ہورہی ہے۔پاکستان میں صورتحال کسی قدر اسکے برعکس ہے اس کااندازہ اس رپورٹ سے ہوتا ہے کہ یہاں امتناعی قانون ہوتے ہوئے بھی روزانہ 77ملین سگریٹ پئے جاتے ہیںاورسالانہ ایک لاکھ افراد(تین سو روزانہ)سگریٹ کے زہر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔پاکستان میں سگریٹ نوشی کارجحان جنوبی ایشیا میں پہلے جبکہ دنیا بھر میں چوتھے نمبرپرہے۔سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک میں سگریٹ پینے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جس میں سرفہرست نوجوان نسل ہے۔کالج اوریونیورسٹیاں سگریٹ نوشی کے لئے محفوظ ترین مقامات سمجھے جاتے ہیں ۔ماہرین کاکہنا ہے کہ سگریٹ کے پیکٹ پر85فیصد تصویری ہیلتھ وارننگ کاقانون بہت ہی موثر ثابت ہوسکتا ہے لیکن قانون پرتمباکو انڈسٹری دانستہ طورپرعملدرآمد نہیں کررہی۔حکومت اگرچہ وفاقی بجٹ میں سگریٹ پر ٹیکسوں میں اضافہ کررہی ہے تاہم اس سے صورت حال کنٹرول نہیں ہوسکی اس کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ میں سمگل شدہ سگریٹ کی فروخت ہے۔اس کانوٹس نہ لیاگیا توحالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی منہ،آواز پیدا کرنے والے اعضا،گلا،سانس کی نالی، گردے، جگر، مثانہ، معدہ، بڑی آنت کے کینسر کے علاوہ دل اور اس کی شریانوں کو بھی مختلف صورتوں میں متاثر کرتی ہے۔اوراس سے ہلاکتوں کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔مزید برآں نوجوان نسل سگریٹ نوشی کی وجہ سے دوسری منشیات کی طرف تیزی سے راغب ہورہی ہے۔حکومت کو سگریٹ نوشی کے خلاف قانون پرموثر عملدرآمد کرانا چاہئے۔ والدین ،بزرگ اوراساتذہ بھی اپنی سطح پر نوجوان نسل کو اس تباہی سے روک سکتے ہیں۔

تازہ ترین