اگر آپ سے پوچھا جائے کہ جاپان اور سرگودھا میں سے کہاں جانا پسند کریں گے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ میرا گمان یہ ہے کہ شاید آپ ویسا جواب نہ دیں جو میں نے عملی طور پر دیا۔ مجھے تین اور چار نومبر کے لئے سرگودھا یونیورسٹی اور اکتیس اکتوبر سے آٹھ نومبر تک کے لئے جاپان کی اوساکا یونیورسٹی سے سیمینار میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی تھی، جاپان میں میرے علاوہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور اصغر ندیم سید بھی مدعو تھے۔ ان دوستوں کی طرح میں نے بھی جاپان کے لئے حامی بھر لی، منتظمین نے ٹکٹ اور وہاں قیام کے سارے انتظامات بھی مکمل کر لئے تھے لیکن عین موقع پر میرے دل نے وہاں جانے کی گواہی نہ دی، ایسا نہیں کہ جاپان مجھے پسند نہیں، مجھے جاپان بھی پسند ہے اور وہاں کے بے پناہ اولواالعزم عوام بھی پسند ہی ہیں، مجھے ان سے محبت بھی ہے، میں ایک دفعہ جاپان جاچکا ہوں اور مجھے اس عظیم قوم کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی مل چکا ہے لیکن میری چھٹی حس مجھے مسلسل اس سفر سے روک رہی تھی، مجھے نہیں پتہ یہ چھٹی حس کیا ہوتی ہے لیکن میں اکثر اس کا کہا مانتا ہوں چنانچہ میں نے اس دفعہ بھی اس کا کہا مانا اور اوساکا یونیورسٹی جاپان پر سرگودھا یونیورسٹی پاکستان کو ترجیح دی اور تین نومبر کی سہ پہر سرگودھا کے لئے روانہ ہو گیا۔
دراصل سرگودھا یونیورسٹی میں شعبہ اردو نے ”اردو زبان اور عصری آ گہی“ کے عنوان سے دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کا اہتمام کیا تھا اور یہ کانفرنس میرے اندازوں سے زیادہ کامیاب رہی۔ جب کسی علمی ادارے کی باگ ڈور کسی اہل علم کے ہاتھ میں ہو تو پھر وہاں خانہ پری نہیں ہوتی بلکہ ٹھوس علمی کاموں پر توجہ دی جاتی ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ممتاز سکالر پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری ہیں۔ وہ صرف سکالر ہی نہیں بلکہ نہایت خلیق اور منکسر المزاج انسان بھی ہیں۔ انہوں نے جب سے یونیورسٹی کی زمام کار سنبھالی ہے۔ وہاں ایک علمی فضا نظر آنے لگی ہے چنانچہ حالیہ کانفرنس سے پہلے وہاں مولانا جلال الدین رومی کی 800 ویں سالگرہ کے موقع پر سہ روزہ انٹرنیشنل ہسٹری کانفرنس منعقد ہو چکی ہے۔ جس میں پڑھے جانے والے پیپر بہت خوبصورت طباعت کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کئے گئے۔ اسی طرح یونیورسٹی کے زیر اہتمام 1857ء کی جنگ آزادی کی 150 ویں سالگرہ پر ہی تین روزہ بین الاقوامی ہسٹری کانفرنس کا انعقاد کیا یا تھا۔ اس میں پڑھے جانے والے پیپر بھی کتابی صورت میں شائع ہوئے اور یہ دونوں کتابیں پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری اور ڈاکٹر شاہد احمد راجپوت نے مرتب کیں۔ اسی طرح یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ڈاکٹر طاہر تونسوی جیسا ایک فعال سربراہ میسر ہوا۔ شوگر کا مرض انسان کو بے بس بناکر رکھ دیتا ہے لیکن طاہر تونسوی نے شوگر کو بے بس بنا کر رکھا ہوا ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے متذکرہ کانفرنس کی کامیابی کے لئے دن رات ایک کر دئیے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا اور اس بار بھی ایسے ہی ہوا! ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ڈاکٹر طاہر تونسوی کے بارے میں بجا طور پر کہا کہ وہ طبعاً فعال شخصیت ہیں اور جس کام کو ہاتھ لگاتے ہیں اسے ہر زاویئے سے قابل توجہ بنا دیتے ہیں !
کانفرنس میں شرکت کے لئے انڈیا سے ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر شاہد ماہلی اور ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے بطور خاص تشریف لائے تھے۔ مصری سکالر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم بھی کانفرنس میں شریک تھے۔ بنگلہ دیش سے ڈاکٹر کلثوم ابوالبشر کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ پاکستان کے کونے کونے سے دانشوروں کی ایک بڑی تعداد یہاں مدعو تھی۔ کانفرنس میں اردو کے حوالے سے مختلف زاوئیے زیر بحث آئے اور بہت گرانقدر مقالات پڑھے گئے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ لوگوں کی ادب سے دلچسپی نہیں رہی، یہ بات عمومی طور پر درست بھی ہے لیکن یہ مکمل سچائی نہیں کیونکہ ادب سے گہری دلچسپی رکھنے والی ایک متعدبہ تعداد اب بھی ہمارے ہاں موجود ہے اور اس کا اندازہ سنجیدگی سے منعقد کی گئی ادبی محفلوں میں ہوتا ہے چنانچہ سرگودھا یونیورسٹی کی متذکرہ کانفرنس کے سبھی اجلاس حاضرین سے لبا لب بھرے نظر آئے، یہی صورتحال مشاعرے میں بھی تھی۔ تاہم یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ مشاعرہ ایک تہذیبی سرگرمی تو ضرور ہے لیکن اسے خالص ادبی سرگرمی قرار نہیں دیا جا سکتا!
اس نوع کی کانفرنسوں کا ایک ”بونس“ اچھے لوگوں سے ملاقات کی صورت میں بھی ملتا ہے، چنانچہ ڈاکٹر اکرم چودھری کی خوبصورت صحبت بھی میسر آئی اور ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، ڈاکٹر امجد علی بھٹی، ڈاکٹر حسین پراچہ، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر فخر الحق نوری، ڈاکٹر اسلم انصاری، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر محمد یوسف خشک، ڈاکٹر صوفیہ خشک، ڈاکٹر آفتاب اصغر اور طارق حبیب ایسے دوستوں سے گپ شپ کا موقع بھی ملا اور یہ خوبصورت لمحات ہماری زندگیوں میں دن بدن کم سے کم ہوتے چلے جا رہے ہیں! اور ہاں ایک وضاحت بعض ”بھلے مانس“ قسم کے قارئین سے، اوپر کی سطور میں آپ کو جتنے بھی ”ڈاکٹر“ نظر آئے ہیں، یہ میڈیسن کے نہیں ادب کے ڈاکٹر ہیں، لہٰذا بوقت ملاقات انہیں نبض دکھانے کی کوشش نہ کریں!
آخر میں نئی نسل کی ایک شاعرہ صائمہ ملک کی ایک غزل کے چند اشعار:۔
یہ سرد ہوا تو نہیں، آتی ہوئی میں ہوں
اب تیرے رگ و پے میں سماتی ہوئی میں ہوں
بادل کی طرح پیاس بڑھاتا ہوا تو ہے
بارش کی طرح آگ لگاتی ہوئی میں ہوں
سبزہ سا میرے صحن میں اُگتا ہوا تو ہے
شبنم کی طرح خود کو لٹاتی ہوئی میں ہوں
آئینے کی دیوار سا تو ہے، میرے آگے
آئینے میں روپ اپنا سجاتی ہوئی میں ہوں
باغوں کی طرح مجھ میں یہ پھیلاہوا تو ہے
کوئل کی طرح تجھ میں یہ گاتی ہوئی میں ہوں
چندا کی طرح مجھ میں سمایا ہوا تو ہے
جھیلوں کی طرح تجھ کو چھپاتی ہوئی میں ہوں