پاکستان میں آج کل سی پیک کا بہت چرچا ہے اس سے پاکستان کی معیشت کو زبردست فائدہ پہنچے گا ۔پورا ملک خوشحال ملکوں میں شمار ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ہمارے دشمن اندرونی طور پر اور بیرونی طور پر اس منصوبے کو ناکام بنانے کی پور ی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ بھارت،ایران کی بندرگاہ چابہار جو پسنی سے بہت قریب ہے ،پرجدید مشینریاں لگا کر گوادر کی بندرگاہ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے ۔کل کیا ہوگا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ گوادر کی بندرگاہ اور ٹیکس فری زون کی تعمیر کی وجہ سے گوادر میں ایک مرتبہ پھر ہل چل مچی ہوئی ہے ۔گوادر کی زمینوں کا کاروبار گزشتہ 10بارہ سال سے ٹھپ پڑا ہوا تھا اب یکایک اُس میں دوبارہ تیزی آرہی ہے۔ اگرچہ بندرگاہ کی تعمیر اور توسیع شروع ہوچکی ہے،چائنا تک کی سڑکیں تعمیر کے آخری مراحل میں ہیں۔ چند ہم خیال دوستوں نے گوادر کی بندرگاہ دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ اس کے لئے ہم نے کلکٹر گوادر جناب فیروز جونیجو صاحب سے رابطہ کیا ۔خوش قسمتی سے وہ کراچی آئے ہوئے تھے انہوں نے کراچی میں ملاقات کی اور اس طرح ہمارا وفد براستہ سڑک گوادر جو 632کلومیٹر ہے صبح 9بجے کراچی سے روانہ ہوا ۔ہم صبح کے ٹریفک کی وجہ سے ایک گھنٹے میں حب چوکی پہنچے ،بتایا گیا کہ ہم براستہ اوتھل پھر وہاں سے کوسٹل ہائی وے سے کنڈ ملیر ہنگول نیشنل پارک پھر اُرماڑہ چوکی سے ہوتے ہوئے تقریباً 6گھنٹوں میں گوادر پہنچیں گے ۔راستہ 450کلومیٹر کاہے کوسٹل ہائی وے پر کوئی پٹرول پمپ نہیں ہوگا۔ لہٰذا اوتھل سے ٹینک فل کروائے گئے اور راستے میں ہنگامی طور پر کنسترپیٹرول ،پانی اور کچھ کھانے کے لئے چپس وغیرہ بھی ساتھ رکھ لئے گئے ۔کوسٹل ہائی وے کی تعمیر بہت اچھی طرح سے کی گئی ہے۔ راستے میں جگہوں کے ناموں کے بورڈ بھی لگے ہوئے ملے البتہ کنڈ ملیر جو ہنگول نیشنل پارک کے ساتھ واقع ہے وہاں پہلا سمندری کنارہ ملاجو بہت خوبصورت نظارہ تھا ۔وہاں ایک چھوٹا ریسٹورنٹ اور 10بارہ کمروں کا ہوٹل بنا ہوا تھا۔ ہم نے رُک کر سمندر کا نظارہ کیا یہاں محمدبن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں تھیں اگرآپ ہنگول نیشنل پارک دیکھیں تو آپ اہراہم مصر کی تعمیر بھول جائیں گے ۔یہ قدرتی مٹی کے پہاڑوں سے بنا ہوا کئی سو میل تک پھیلا ہوا ہے اور راستے کو چار چاند لگادیتا ہے۔ شاید ہی دنیا میں ایسے پہاڑی سلسلے مشکل سے نظر آئیں خود ہمارے پاکستانی اس خوبصورتی سے لاعلم ہیں افسوس اس خوبصورت نیشنل پارک اور سمندر سے ہم نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔
ہم لاکھوں روپے خرچ کرکے مصر اور دوسرے ممالک کے عجائبات دیکھنے جاتے ہیں اور مالدیپ، سری لنکا، تھائی لینڈ، سنگاپور، کے سمندروں کی سیر کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے سمندروں کے ساحلوں پر اچھے اچھے ہوٹل بنادیں ایک تو قوم کو اپنے ملک میں تفریحی جگہیں ملیں گی ،دوسرےزرمبادلہ بچےگا اور پاکستان کے باہر سے بھی سیاح آسکتے ہیں۔ مگر ہماری نہ صوبائی نہ مرکزی حکومت اس طرف توجہ دیتی ہیں، نہ آئندہ کا بھی کوئی پروگرام بناتی ہیں۔ الغرض ہم چارگھنٹوں میں اُرماڑہ کے ساحل پر پہنچے جہاں ہماری نیوی نے بہت بڑا کیڈٹ کالج اور ہاسٹل تعمیر کرواکر نیول بیس بنایا ہوا ہے ،یہاں پہنچ کر دوپہر کا کھانا کھایا جو تازہ مچھلی اور جھینگوں پر مشتمل تھا۔ سب نے مزے سے لنچ کیاپھر روانہ ہوگئے۔ شام 4بجے ہم گوادر پہنچ گئے سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ان 7گھنٹوں میں ایک گاڑی نے بھی ہم کو اوورٹیک نہیں کیا اور پورے راستے کوسٹل ہائی وے پر گوادر تک 50گاڑیا ں بھی نظر نہیں آئیں۔ راستے بھر کوئی کھانے پینے ،پیٹرول پمپ یا سایہ دار کوئی جگہ نہیں تھی چھوٹے چھوٹے بچے پیٹرول کے کنستروں کے ساتھ نظر آئے جو ایران کا اسمگل شدہ پیٹرول فروخت کرکے اپنا گزارہ کرتے ہیں ۔ چھوٹے موٹے گائوں تک آباد نہیں ہیں، راستے میں حادثے کی صورت میں اپنی مدد آپ یاکوئی گاڑی والا ہی آپ کی مدد کرسکے گا۔ کوئی پولیس چوکی تک نہیں ہے البتہ جگہ جگہ کوسٹ گارڈ کی چوکیاں تھیں۔ دوسرے دن ہم نے کلکٹر گوادر فیروز جونیجو سے اُن کے دفتر میں ملاقات کی ،ان کے ایڈیشنل کلکٹر اور ڈی سی نے متعلقہ محکموں جس میں گوادر انڈسٹریل زون بھی شامل ہے اپنے کلکٹریٹس اور چینی کمپنیوں سے ملاقات کرواکر ہمارا کام بہت آسان کردیا۔
ہم گوادر فری زون کے چینی کمپنیوں کے عہدیداروں سے ملے انہوں نے بتایا اس گوادر فری زون میں جو800سے زیادہ ہیکڑوں (ساڑھے چارایکڑ کا ہیکڑ ہوتا ہے) پر مشتمل ہے تین زون میں تقسیم کرکے تعمیر شروع کی جارہی ہے۔ فی الحال پہلا زون بُک ہوچکا ہے جس میں غیر ملکی اور چائنا سے تعلق رکھنے والے ہیں اس کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستانی صنعت کار ابھی صرف معلومات کرکے انتظار کررہے ہیں یہ پورا منصوبہ 4سال میں مکمل ہوگا ۔
اس پورٹ پر آپ دنیا بھر سے سامان بغیر ڈیوٹی ادا کئے منگوا سکتے ہیں اور پھر ایکسپورٹ کرسکتے ہیں بغیر کسی ڈیوٹی ادا کئے۔ البتہ اگر آپ پاکستان میں مال فروخت کرینگے تو اس مال پر مقامی ڈیوٹی ،سیلز ٹیکس لاگو ہوگا۔جو کمپنی اس پورٹ کی تعمیر کررہی ہے وہی مجاز ہے اس کی تعمیر اور فروخت کی 46سال تک۔ وہ اس سے فائدہ اٹھائے گی پھر 46سال بعد یہ پورٹ حکومت پاکستان کی ملکیت بن جائے گی ۔صرف زمین کا کرایہ 10ڈالر فی مربع میٹر ہوگا جو ہر سال لیز کے مطابق ایڈوانس ادا کرنا پڑے گا ۔ایک طے شدہ مدت کے اندر تعمیر مکمل کرنی ہوگی اگر تعمیر میں تاخیر ہوگی تو جائز وجہ بتانے پر لیز باقی رہے گی ورنہ کینسل کردی جائے گی۔ زمین کی ملکیت برائے فروخت نہیں ہے البتہ 99سال کے کرائے پر لیز ہوسکے گی اگر آپ تعمیر شدہ عمارت میں جگہ لیں گے تو کرایہ 110ڈالر فی مربع میٹرہوگا۔تمام حسابات ڈالر میں ہوں گے پورٹ میں ابھی تک صرف تین کرین کام کررہی ہیں۔ باقی اس سال کے آخر تک مکمل نظام کام کرے گا۔بظاہر تو کام میں رفتار نظر آرہی تھی لیکن ابھی تک نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کا آراو پلانٹ مکمل نہیں ہوا ۔ہمیں بتایا گیا کہ چائنا گورنمنٹ نے ایک بہت بڑے سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کا پلانٹ مفت میں دینے کا وعدہ کیا ہے ۔جو پورے گوادر کے لئے کافی ہوگا فی الحال میٹھے پانی کے ٹینکر 20ہزار سے لے کر 60ہزار روپے فی ٹینکر دستیاب ہیں ۔زمین کی قیمتوںمیں از خود بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے ۔3لاکھ روپے ایکڑ کی جگہ 3کروڑ تک جا پہنچی ہے جب کہ آبادی اُس لحاظ سے نہیں بڑھی ۔جگہ جگہ مختلف بلڈرز کے بورڈ لگے ہوئے ہیں ۔ ایک فور اسٹار ہوٹل ہے جو کبھی کبھی بھر جاتا ہے کرایہ بھی اسی لحاظ سے بڑھتا گھٹتا ہے 15ہزار ایوریج ہوتا ہے البتہ چھوٹے چھوٹے ہوٹل شہر کے وسط میں واقع ہیں یہ فور اسٹار ہوٹل ایک پہاڑی پر واقع ہے جو پورے شہر اور سمندر کا خوبصورت نظارہ کراتی ہے۔ قوم کی معلومات کے لئے حکومت پاکستان 9فیصد منافع لے گی بقایا 91فیصد منافع چائنا کی ملکیت ہوگا۔
حکومت کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر پولیس اور کلکٹریٹس کو گاڑیاں ،کشتیاں فراہم کی جائیں تو ایک طرف عوام کی حفاظت ہوگی دوسری طرف اسمگلروں کو قابو کیا جاسکتا ہے ورنہ ایک وقت آئے گا پاکستان بھر میں ایران کا اسمگل شدہ تیل ہی ملے گا جو سستا ہے ۔ دوسرے دن ہم ایرانی بارڈر بھی دیکھنے گئے جو پسنی میں واقع ہے اگر آپ پسنی جائیں تو حیران ہوں گے وہاں نہ پانی ہے نہ بجلی ایک لٹا ہوا گائوں ہے، ایک طرف پاکستان پسماندہ ترین ملک اور دوسری طرف ایران ہے جہاں پانی اور بجلی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ درمیان میں سمندری ساحل ہے وہاں ہم نے 1846ء کا بنا ہوا مکان دیکھا جس میں ملکہ وکٹوریہ برطانیہ سے آکر ٹھہری تھیں اور سورج غروب ہونے کا انتظار کرتی تھیں۔ گلیاں ویران ہیں جگہ جگہ دیواروں پر نعرے لکھے ہوئے تھے حکمرانو بجلی اور پانی دو،ورنہ کرسی چھوڑ دو۔ تیسرے دن گوادر کی یادیں لے کر ہم بذریعہ ہوائی جہاز ڈیڑھ گھنٹے میں واپس کراچی پہنچ گئے ۔