14 اگست1947 کو ہم لازوال قربانیوں، انتھک محنت اور جذبے کی وجہ سے آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ دینے والے تو اپنی ذمہ داریاں بہ احسن وخوبی انجام دے کر چلے گئے، لیکن اسکے بعد کیا ہوا؟ حالات آہستہ آہستہ خراب ہوتے چلے گئے! پھر نہ تو وہ جذبہ دکھائی دیا، اور نہ ہی محنت ہاں! البتہ قربانیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ وہ ’’ قربانیاں‘‘ جو آج بھی وطن عزیز کی محبت میں سرشار لوگ دینے سے گریزاں نہیں۔ ملک کی عظمت، عزت، ناموس اور حفاظت کی خاطر دی گئی یہ قربانیاں، قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی! ایسے جاں نثار ان وطن کا نام نہ صرف تاریخ بلکہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
بات ہورہی تھی حالات خراب ہونے کی، آج اگر بہت سے روزمرہ کے معاملات زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو نہایت اہم اور تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں ۔ اب جیسے ’’مادری زبان سے دوری‘‘ ہی کو لے لیجئے، نوجوان نسل میں ’’ اردو‘‘ بولنے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے وہ اردو میں بات کرنے کو ’’فرسودگی‘‘ جبکہ ’’زبان غیر‘‘ میں گفتگو کرنے کو اہلیت، اہمیت، قابلیت اور قابل ستائش گردانتے ہیں۔ دوسری جانب جب بچے زبان غیر بولتے ہیں تو والدین کے چہرے پر ’’فخریہ مسکراہٹ‘‘، بکھرتی نظر آتی ہے۔ اور جب بچوں کے اسکول کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے تو اچھے سے اچھا ’’اردو میڈیم‘‘ اسکول بھی قابل قبول نہیں کیا جاتا، اور تو اور۔ کبھی محفل میں کسی بڑے بوڑھے کی جانب سے بات اگر ذرا سی ثقیل اردو میں کردی جائے تو سننے والے نوجوان کے چہرے پر ناسمجھنے کے تاثرات اسقدر نمایاں ہوتے ہیں کہ بولنے والا شرمندہ ہوکر رہ جاتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ، ملکی مصنوعات کے استعمال کا ہے۔ اب سادہ اور میانہ روی پر مبنی متوازن طرز زندگی ’’احساس کمتری‘‘ کو جنم دینے لگا ہے مثلاً آجکل کسی عام دکان سے لئے گئے کپڑوں کے بارے میں بتانا اتنا ہی دشوار ہے جتنا کسیBranded outletسے لئے گئے جوڑے کے بارے میں آسان ہوگیا ہے۔ یہی سوچ روزمرہ زندگی سے جڑی دیگر اشیا جن میں کھانا، پینا، گھڑی، جوتے، پرفیوم، وغیرہ پر حاوی ہوتی ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کون سے عوامل ان خرابیوں کے پیچھے کارفرما ہیں؟ یا پھر یہ بدلتے وقت کا تقاضا ہے جو بخوبی انجام پارہا ہے؟ ملک کی باگ ڈور جن سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں ہے انکے بارے میں عوام کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ وہ نہ تو خود مختار نظر آتے ہیں اور نہ ہی پرخلوص، نہ تو ان میں ’’سچے کھرے‘‘ فیصلے کرنے کی ہمت نظر آتی ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر وطن کانام روشن کرنے کا جذبہ۔ عوام انہیں ہمہ وقت صرف اپنے ہی مفادات کے تحفظ میں مصروف دیکھتے ہیں۔ اگر چند ایک مخلص اور فرض شناس ہوں بھی، تو وہ اس بگڑی ہوئی صورتحال کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
معاشی صورتحال غیرمستحکم ہے جبکہ قرضوںکا بوجھ اسقدر بڑھ چکا ہے کہ ’’سینہ تان‘‘ کر کھڑا ہونا مشکل ہورہا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ جو معاشی منصوبہ بندی کی جارہی ہے وہ ملک میں بسنے والی غریب مظلوم اور پسماندہ عوام کے حق میں نہیں ہے۔ اس سے زیادہ قابل افسوس بات کیا ہوگی کہ محافل میں باتیں معیشت کی یا حکمرانوں کی ہوں تو موضوع بحث امداد ہوتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ہمارا’’Positive image ‘‘ نہیں بن رہا۔ پاکستان کے عوام کےساتھ ایئرپورٹس پر روا رکھاجانے والا رویہ خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ طاقت کے نشےمیںکچھ ممالک کے حکمران جو چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں، پھربعد میں ہمارا (سیاسی) ردعمل ویسا ہی ہوتاہے جیسا کسی مقروض کا ہوتا ہے۔
آج اگر ٹیلی ویژن دیکھیں یااخبارات پڑھیں تو بخوبی اندازہ ہو جاتاہے کہ ہمارا اصل مسئلہ ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دینا ہے۔ کاش برسراقتدار شخصیات کی سوچ یہ ہو کہ رمضان کے مہینے میں حاصل ہونے والے وطن کو ان کی طرف سے پہنچائی گئی ’’اذیتیں‘‘ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ بہرحال ان حالات میں دعائیں مانگنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں کیوں کہ دعائیں صرف سوچ ہی نہیں بلکہ، حرکات، عمل اور کردار بھی بدل دیتی ہیں۔