• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سے تعلقات میں بہتری اور تجارت کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ اسلام آباد ایکسچینج کے بورڈ آف ڈائریکٹر سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں پیشرفت اور تجارت میں بہتری سے غیرملکی سرمایہ کاری، صنعتوں میں استحکام اور قومی معیشت کی صورت حال میں مزید بہتری آئے گی۔
میں اپنی بات کا آغاز برطانوی راج سے کررہا ہوں۔ سترویں اور اٹھارویں(18)صدی میں ہندوستان ساری دنیا کی منڈیوں پر چھایا ہوا تھا۔ دنیا کی تجارت میں اس کا تیسرا نمبر تھا۔ اس وقت ہم متحدہ ہندوستانیوں کی مصنوعات کی بیرونی ممالک میں زبردست مانگ تھی۔ بالخصوص ہندوستانی پارچات اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات کی پوری دنیا میں بہت طلب تھی، چنانچہ ہندوستان کے کپڑے کے استعمال کو روکنے کیلئے ایڈن برگ میں محب وطن شہریوں کی ایک ایسوسی ایشن بنائی گئی۔ اس ایسوسی ایشن نے ہندوستانی اشیا کے خلاف زبردست مہم چلائی اور اعلان کیا کہ آئندہ سے ہندوستانی مصنوعات کے بیچنے، خریدنے اور استعمال کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا، اگر کوئی شخص کسی سے چوری چھپے ایک گز ہندوستانی کپڑا بھی خریدتا تو اس کا چالان کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں تقسیم ملک کے بعد دونوں ملک اپنا اپنا مال بیچنے کیلئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہوگئے۔ اس دوڑ میں ایک کہاں نکل گیا اور دوسرا کہاں رہ گیا۔
اس وقت پاکستان اور بھارت کی اقتصادی صورتحال میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ بھارت میں مصنوعات بنانے میں لاگت کم آتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں پاکستان کی نسبت مہنگائی کم ہے اس لئے وہاں مزدوری سستی مل جاتی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق بھارت کے صنعتی سرمائے پر شرح سود نصف ہے۔ علاوہ ازیں مارک اپ کے حوالے سے بھی بھارت کو ہم پر برتری حاصل ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں اس کی تجارت کا گراف اوپر جارہا ہےاور ہمارا نیچے کی جانب۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش سے بھارت کی تجارت45فیصد ہے، نیپال سے 70فیصد، سری لنکا سے50فیصد اور بھوٹان سے 80فیصد یہ گراف اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی موجودہ تجارتی پالیسی میں کوئی بڑی خامی موجود نہیں۔ اب جہاں تک ’’دو دشمن ملکوں‘‘ یعنی پاکستان اور بھارت کی تجارت کا معاملہ ہے وہ کچھ یوں ہے۔
بھارت اور پاکستان کی تجارت کا آغاز تقسیم ملک کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ 1947سے شروع ہونے والی یہ دو طرفہ تجارت 1949تک پہنچتے پہنچتے 58فیصد ہوگئی تھی۔ پاکستان اپنا خام مال بھارت بھیجتا اور اس کے بدلے میں دوسری اشیا درآمد کرتا۔ یہ سلسلہ بخوبی جاری تھاکہ 1949میں بھارت نے اپنی کرنسی یعنی روپے کی قیمت میں کمی کردی اور یہ چاہا کہ پاکستان بھی ایسا ہی کرے گا مگر پاکستان نے انکار کردیا ان حالات میں تجارتی تعلقات مخدوش ہونا شروع ہوئے اور آخر کار دونوں نے تجارت بند کردی۔ یہ ڈیڈ لاک تقریباََ دو سال تک قائم رہا۔ دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کیسے سرد مہری کا شکار ہوئے اور یہ ڈیڈ لاک کیوں وجود میں آیا ؟ اس کی سمجھ مجھے تو کیا ماہرین معیشت کو بھی نہیں آسکی۔ اس کے بعد پھر تجارتی ڈول ڈالا گیا تو اب کے اسے بارڈر ٹریڈ ایگریمنٹ کا نام دیا گیا اوریہ تجارت جو58فیصد تک جا پہنچی تھی اب کہ صرف1965تک 2فیصد تک رہ گئی اور پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 1965سے 1974تک آتے آتے یہ بالکل ختم ہوکے رہ گئی۔ 1974کے بعد دوبارہ ایک معاہدے کے تحت ہم نے بھارت سے رکشے درآمد کئے۔ بعد ازاں1987کے آتے آتے ایک معاہدے کی رو سے142اشیا کی تجارت کا آغاز کیا گیا۔ اس معاہدے کا نام ’’ٹریڈ‘‘ کارپوریشن آف پاکستان تھا جو بعد میں ایک ’’بزنس کمیشن‘‘ کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔1988تک تجارتی اشیا کی تعداد 142سے بڑھ کر575تک ہوگئی۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ قرار دے دیا گیا لیکن پھر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے یہی موسٹ فیورٹ نیشن کی شکل بدل کر رہ گئی۔ اور ان دنوں پھر سے دونوں ملکوں کی تجارت تعطل کا شکار ہوکر رہ گئی ہے ۔
ادھر عالمی بنک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر ترقی پذیر ممالک اپنی آپس کی تجارت پر عائد محصولات میں کمی کردیں تو اس سے خام مال کی قیمت میں مفید کمی ہوگی اور یہ ممالک عالمی تجارت کی مسابقتی دوڑ میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔
میں چاہتا ہوں یہ دونوں ممالک زیادہ بہتر کارکردگی نہ سہی کم از کم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ ضرور کر دکھائیں وگرنہ۔
’’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘

 

تازہ ترین