• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامہ نیاز فتح پوری۔ اردو اکادمی بہاولپور...علامہ اقبال کا فلسفہ زندہ ہے...نقارخانے میں…جمیل الدین عالی... (گزشتہ سے پیوستہ)

الزبیر
الزبیر کا شمارہ ستمبر 3 شائع ہوگیا ہے یہ اُردو اکادمی بہاولپور کا جریدہ ہے اس کے سرپرست صدراُردواکادمی جناب محمد مشتاق احمد کمشنر بہاولپور ہیں اور ڈاکٹر شاہد حسن رضوی ”مجلس مشاورت“ میں مندرجہ ذیل پانچ محترم افراد (1) ڈاکٹر انصار اللہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (بھارت) (2) شمس الرحمن فاروقی الٰہ آباد بھارت (3) پروفیسر ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی مسلم یونیورسٹی علیگڑھ(4)ڈاکٹر علی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (5)ڈاکٹر فرمان فتح پوری کراچی (6) ڈاکٹر محمد علی صدیقی کراچی (7) ڈاکٹر معین الدین اسلام آباد ڈاکٹر تحسین فراقی پنجاب یونیورسٹی لاہور، ڈاکٹر انجم رحمانی لاہور، ڈاکٹر محمد سلیم احمد بہاولپور، خواجہ طاہر محمود کوریجہ بہاولپور، ڈاکٹر شفیق احمد بہاولپور…اس بار مندرجات تین قسم کے ہیں (1) حمد باری تعالیٰ از ڈاکٹر انجم رحمانی، نعت رسول مقبول از ڈاکٹر جناب میم ضاد طوے۔ اور قومی مقاصد۔ تحقیق و حصول اداریہ (مدیر)۔ بارہ تحقیقی مقالات میں اعتزار اور صاحبان مقالہ جات کے نام دیئے دیتا ہوں تاکہ جریدے کا پھیلاؤ کسی قدر ظاہر ہوجائے۔ فرائڈ اور ژنگ کے نظریات،ازڈاکٹرعبدالکریم خالد(2) 1947کے انقلاب کا اثر زندگی اور ادب پر از ڈاکٹر عارف بخاری (3) راشدکا تصورماضی از ڈاکٹر محمد آصف (4)بہاولپور کا شعری ادب تحقیقی و تنقیدی جائزہ، از ڈاکٹر مزمل بھٹی اور امین فاطمہ (5)آزاد کی درسی کتب کا جائزہ، از ڈاکٹر انجم رحمانی، ادبی نکتہ بینی کی بجائے غیر علمی نکتہ چینی ، از ابوسعادت جلیلی، سیرت کے معنی مفہوم اور ان کی اقسام، از ڈاکٹر عابدہ پروین،(6)دو قومی نظریہ اور اُردو زبان ، تشکیل و کردار از ڈاکٹر عظمیٰ پروین (7)کچھ اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں ، از سہیل احمد صدیقی (8) الزبیر کا وزیر آغا نمبر1989۔ ایک تحقیقی دستاویز۔ از عفت الیاس، صوفی ازم اور صارف معاشرہ از ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصراور ہیررانجھا کا قصہ اورادبی و شعری اسطور از محمد ممتاز خان۔ دیگر مضامین (بحث و نظر) سلسلہ آشنائی کا اور غم محرومی جاوید کا از ڈاکٹر انور سدید، نظیر اکبر آبادی … اردو کا بے مثال شاعر از ڈاکٹر علی محمد خان (3) درک، ادراک از پروفیسر علیم اللہ حالی (4) ڈاکٹر انور سعید سے انٹرویو از عمران نقوی (5) انداز وہی اپنایا ہے از ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی (6) کلمہ شہادت از ڈاکٹر صفوان چوہان جوش (7) ادب اسلامی کا تابندہ شاعرڈاکٹر عبدالقدیر اصغر از گوہر ملسیانی (8) صابر آفاقی۔ آزاد کشمیر کا نمائندہ فارسی شاعر از ڈاکٹر عصمت درانی (9) شعر و ادب کا روشن نصاب آفتاب یاسر از جمشید اقبال، شعر و سخن ۔ ڈاکٹر سید قاسم جلال۔ انوار فیروز ۔منور جمیل، شاہد حسن جسکانی، قاضی حبیب الرحمن، خورشید بیگ میلسوی، حنیف ساجد، میثم علی آغا، شوکت میری، جمشید ساحل، عکاشہ سحر، افسانہ/انشائیہ، چاند پور کی گڑیا از طارق محمود، پناہ گاہ از طاہر نقوی، ابے یار از منظر عارفی، حویلی خواب اور الاؤ از جمشید ساحل ، عاشو از ابن الامام شفتر، دھند میں سفر شروع ہوا ۔( انشائیہ) از منور عثمانی، خصوصی مقالہ نقد و نظر ذکر مصطفی عقیدت کی ایک مثال ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی، اسلامی نظریاتی افسانے ۔ تحقیقی خزانہ از خورشید بیگ میلسوی، شیشہ گری کا فن از ڈاکٹرغفورقاسم، لہر لہر پیاس، تنہائی اور کسک لئے عجاز الحق اعجاز، ڈاکٹر شاہد حسن رضوی، فرنٹ سیٹ پر ایک سحراز عبدالقیوم، نئے موسموں کی بشارت از عصمت درانی، دھوپ دیوار بنی، نرم گرم لہجے میں شوکت مہدی کا رنگ تغزل از ادارہ، ابن آدم کی مسیحائی۔ جمشید اقبال کے افسانے از ڈاکٹر شاہد حسن رضوی، محفل ۔ قارئین کی آرا پر مشتمل خطوط ۔
یہ تفصیل میں نے دانستہ اس لئے دی تاکہ پڑھنے والے کو اس جریدے کی معنوی وسعتوں کا کچھ اندازہ ابھی سے ہوجائے ۔ پرچہ ضرور بہاولپور جیسے کم معلوم ادبی مقام سے نکلتا ہے (گو بہاولپور کی سیاسی اور تاریخی ادبی اہمیت مسلم ہے) لیکن اس مواد سے پتہ چل جائے گا کہ اس میں اہم عنوانات پر مضمون اہم ناموں نے لکھے ہیں۔ کاش میں ہر مضمون پر تفصیلاً لکھ سکتا (لیکن کیا وہ سب یہاں چھپ سکتا تھا؟ شاید نہیں) بہرحال مدیر محترم ڈاکٹر شاہد حسن رضوی خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ بہاولپور میں بیٹھ کر اتنا بڑا ادبی ذخیرہ جمع کرتے اور عام قاری کو پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس عظیم خدمت میں بہت مصروف رکھے۔ آمین!

”قومی زبان“
اس نومبر کا ”قومی زبان“ (انجمن ترقی اردو پاکستان) خاص طور سے قابل غور ہے۔ یقینا میں اس کے ادارہ تحریر میں شامل ہوں (دوسرے اراکین ادا جعفری اور سید اظفر رضوی) جبکہ مدیر ڈاکٹر ممتاز احمد خان ہیں۔ یہ شمارہ علامہ اقبال کے لئے وقف ہے۔ (1) اقبال کی اردو شاعری اور اکیسویں صدی ڈاکٹر شاداب احسانی(2) سابق سوویت یونین میں اقبالیاتی تحقیق۔ ڈاکٹر شفیق عجمی، (3) اقبال کا رموز بیخودی ، اردو ترجمہ از ساجدہ بانو، ثمین شریف (ث) قطعات تواریخ وفات اقبال از ڈاکٹر اسد فیض، اقبال اور قومی زندگی ، از ڈاکٹر بصیرہ۔ اقبال کی تصانیف کا مطالعہ از ڈاکٹر سید وسیم الدین…رفتار ادب ، گرد و پیش وغیرہ ۔ ماشاء اللہ اب ”قومی زبان “ ہر طرح ایک مضبوط اور معیاری ادبی پرچہ بن چکا ہے۔ فی پرچہ قیمت صرف پندرہ روپے اور سالانہ (صرف رجسٹری سے) تین سو روپے۔ بیرون ملک سالانہ عام ڈاک سے دس پاؤنڈ یا پندرہ ڈالر۔ سالانہ ہوائی ڈاک سے پندرہ پونڈ یا پچیس ڈالر۔ آگے آپ جانیں۔ یعنی آپ اپنے اخراجات کا معاملہ خود خوب سمجھتے ہیں…آپ کی ترجیحات میں مجھ سمیت کوئی مخل نہیں ہوسکتا…
علامہ اقبال کا فلسفہ زندہ ہے۔خواجگی
برسوں یا تقریباً 80برس پہلے علامہ اقبال کی ایک نظم میں ایک شعر چھپا تھا وہ نظم تو زندہ ہے ہی مگر شعر آج بھی خاص طور سے کچوکے دیتا ہے

نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کربنائے مسکرات
یہ شعر اب تک کیوں زندہ ہے، بہت سی وجوہ ہونگی، غالباً سب سے بڑی وجہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں خواجگی بھی اب تک زندہ ہے ۔ خواجگی پہلے جاگیر داری اور سرمایہ داری کا مرقع ہی اور جاگیر داری کا وہ زور نہیں رہا۔ مگر سرمایہ داری نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ روزبروز زیادہ طاقت پکڑتی ہے۔ (سرمایہ جاگیر سے زیادہ ہوشیار ثابت ہوا ہے۔ یہ الگ بات کہ جانا اسے بھی ہے ) اب تک تو یہ ہے کہ
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
یہ شعر آج کے کسی انقلابی کا نہیں ہمارے پرانے اور آج کے بھی بڑے ہیرو دانشور علامہ اقبال کا ہے۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
……
آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
اور یہ فتویٰ بھی اسی وقت دیا تھا
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
کا ذکر تو آہی گیا ہے یہ بھی بتادیا جائے کہ اس مضمون میں (15سطریں)ڈاکٹرشاداب احسانی تقریباً 315اشعار پر مشتمل اپنا انتخاب بھی دے گئے ہیں جو اکیسویں صدی پر علامہ اقبال کی شعوری اور تحت شعوری نظر سے بہت سے مناظر دکھاتا ہے ۔ ان میں سے کافی شعر زبان زد خاص و عام ہیں مگر بہت سے شعر ہمارے ذہنوں میں اسی طرح قائم نہیں۔ بڑے ہی کمال کے شعر ہیں۔ میں بطور خاص اس انتخاب کیلئے ڈاکٹر شاداب احسانی کا ممنون ہوں اور چاہوں گا کہ اور کچھ نہیں تو اس کمال انتخاب سے استفادے کے لیے قومی زبان کراچی کا یہ شمارہ (نومبر2010) حاصل کرکے یا کسی کتب خانے میں جاکر پڑھئے پھر آپ میری اس سفارش کی اہمیت سمجھیں گے۔ میں اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں (اور تقریباً یہی خیال کئی دانشور مقررین کی گفتگو سے ظاہر ہوا کہ اقبال کا جو ویژن ہے وہ ہمارے تمام تر بحرانوں کو ختم کرنے کی کلید ہے۔ میں نے قومی زبان (نومبر کے اس اداریے سے یہ اقتباس پیش کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی ہے ”ہمیں داخلی اور خارجی سطح پر جو چیلنجز درپیش ہیں فکر اقبال اس کا مقابلہ کرسکتی ہے بشرطیکہ ہم گہرے تبر سے کام لیں“۔ آگے آپ جانیں۔ معذرت آج اتنا ہی۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے…

تازہ ترین