نامور صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ صاحب نے5نومبر 2017ء کو اسی اخبار روزنامہ جنگ میں ایک کالم ’’قائد عوام بنام بلاول بھٹو ‘‘ تحریر کیا ہے۔ جس میں انہوں نے افسانوی انداز میں ذوالفقار علی بھٹو کا ایک خط بلاول بھٹو کے نام لکھا ہے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا اگروہ یہ کھلا خط بلاول بھٹو کے نام خود ہی تحریر کرتے۔ جس طرح سے انہوں نے بھٹو صاحب سے منسوب باتیں اور تجاویز بیان کی ہیں وہ بھٹو صاحب کی نہیں بلکہ وڑائچ صاحب کے قلم کی آمیزش اور ذہن کی اختراع تو ہو سکتی ہیں لیکن قائد عوام کی نہیں ہوسکتیں۔
ویسے تو وڑائچ صاحب ان چند مایہ ناز لکھاریوں میں شامل ہیں جن کی تحاریر بڑے غور سے پڑھی جاتی ہے اور الفاظ کے پیچھے حقائق تلاش کرنے میں آسانی رہتی ہے اور ایک مثال کے طور پر بتائی جاتی ہیں لیکن یہاں بہت احترام سے قائد عوام سے منسوب کی گئی باتوں سے اختلاف کی جسارت کی جارہی ہے ۔ امید ہے کہ کالم نگار کچھ واقعات اور حقائق کی خود ہی تصحیح بھی کرینگے۔ جن جیالوں اور جانثاروں کا ذکرمذکورہ کالم میں کیاگیا وہ آج بھی اپنے نوجوان چیئرمین پر ایسے ہی فدا ہیں جس طرح پچاس سال پہلے اپنے بانی چیئرمین پر تھے۔ اس نومبر کی تیس تاریخ کو پیپلز پارٹی اپنا پچاس سالہ سیاسی سفر پورا کر رہی ہے۔ ملک کے ستر سال کی تاریخ میں یہ پچاس سال جمہور اور اس کی نظامت کیلئے ایک ایسی جدوجہد کی کہانی ہیں جس کے کردار آج بھی اگر پروفیسر وارث میر نہیں تو فیصل میر جیسے اسکے بیٹے ہیں۔ ادریس طوطی کا نیا جنم لہور کا آج بھی وہ جیالا ہے جو سیاسی سازشوں کی بدولت اور مسلسل لڑائیاں لڑنے کی وجہ سے دھیما تو پڑ گیا ہے لیکن ابھی تک ہارا نہیں اور تازہ دم ہونے کیلئے اپنے نوجوان چیئرمین کے پیچھے چل پڑا ہے۔ اگلا پڑائو صرف اگلے انتخابات نہیں بلکہ تخت لہور اور ’’سونامی‘‘ کے مضر اثرات سے سیاست کو ریاست و جمہوریت کے دھاروں میں پھر سے ڈھالنا زیادہ لگتا ہے۔ تصدیق کے لیے ملاحظہ کیجئے بلاول بھٹو کا ایک نجی ٹی وی کو دیا گیا پہلا انٹر ویو۔ جس میں وہ سیاست کی آج کی بازار ی الزام تراشیوں اور گالیوں کے بجائے پالیسی فریم ورک پر بات کرتا ہے اور ایسا فریم ورک ہی بہترین ’’پالش‘‘ ہوتا ہے ۔ بلاول تو آج بھی نذیرے اور بشیرے کی سیاست کرتا ہے۔ گاڈ فادر اور کھیل کی سیاست نہیں کرتا۔ پپو تیلی، بلانائی اور مستری اللہ رکھا کی بات کرتا ہے جو ناتو سسلین مافیاہے اور نہ ہی گالم گلوچ بریگیڈ کے کمانڈرز!
حیرانی کی بات یہ ہے کہ عالم بالا میں بھی کالم نگارکو میاں شریف اور غلام مصطفیٰ جتوئی اکٹھے نظر آئے ہیں۔ لگتا ہے کہ کوئی آئی جےآئی۔ وہاں بھی کسی نہ کسی شکل میں ایک پرچھائی کی طرح گھوم رہی ہے۔ آج بھی اس غلام مصطفیٰ جتوئی کا بیٹا غلام مرتضیٰ جتوئی تخت لاہور کے اسلام آباد میں وفاقی حکومت کا ایک وزیر ہے ۔ اور اس اتحاد بین المخالف پی پی پی کا ایک زندہ کردار ہیں ۔ پیپلز پارٹی پچاس سال میں اہل سیاست سے کہاں الجھی ہے۔ اہل سیاست اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد سے اس سے الجھتے اور جھگڑتے رہے ہیں جو اب بھی جاری ہے ۔ جمہوری اقدار کی مضبوطی کے لیے نواز شریف کی زیادتیوں کو نظر انداز کرکے محترمہ بینظیر بھٹو نے تو میثاق جمہوریت اسی میاں نواز شریف سے کیا تھا ۔ آج بھی میثاق جمہوریت کے کچھ نکات پر عمل کرنا باقی ہے۔ اگر میاں صاحب اس میثاق جمہوریت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تو انکو یہ دن نا دیکھنا پڑتے۔
انہوں نے نے خط میں پیپلز پارٹی کے پنجاب میں ووٹ بینک کی کمی کی تین بڑی وجوہات بھی بیا ن کی ہیں جو قابلِ غور ہیں ۔ پہلی وجہ جو بتائی کہ ’’پیپلز پارٹی غریبوں اور پسے ہوئے طبقات کی مزاحمتی جماعت تھی ، مگر 2008 کے بعد غیر محسوس علامتی انداز میں اسے مڈل کلاس اور اپر کلاس کی اقتدار پسند جماعت بنا دیا گیا ہے ‘‘۔ پتہ نہیں محترم نے یہ تجزیہ کس طرح سے اخذ کیا ہے 2008 کے بعد پیپلز پارٹی حکومت کا سب سے بڑا پروگرام بینظیر انکم سپورٹ پروگرام رہا ہے جو نچلے طبقے کی غربت کی چکی میں پسی ہوئی خواتین اور کمزور طبقات کو فوکس کرتا ہے۔ اور بھی کئی مثالیں گنوائی جا سکتی ہیں ۔ پارلیمانی امور پر کام کرنے والی ملکی و غیر ملکی اداروں کی سب ہی رپورٹیں آج بھی پیپلز پارٹی کا ووٹ بیس اور بینک نچلے طبقات سے بتاتے ہیں ۔ دوسری وجہ کالم نگار یہ بتاتے ہیں کہ ’’نون لیگ جنرل ضیاء الحق کی فکری وارث تھی ۔ پیپلز پارٹی کا ورکر اس سے لڑتا رہا ہے جس سے اتحاد ان کو اپنے نظریہ کی شکست لگتا ہے‘‘۔ ریاستی جبر اور سیاست کی غلام گردش کی پاداش میں محترمہ بینظیر بھٹو نے خود ہی جدہ میں میاں صاحب سے وسیع النظر میثاق جمہوریت کیا تھا۔ نون لیگ سے پیپلز پارٹی کا کبھی بھی الیکشنی اتحاد نہیں رہا ۔ البتہ 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں ڈیڑ ھ ایک ماہ کے لیے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے وفاق میں اتحادی حکومت ضرور قائم کی تھی۔ جو محترمہ کی شہادت کے سانحہ کا ایک طرح سے سیاسی نتیجہ اور جنرل مشرف کو ایوان صدر سے ’’ناک آؤٹ‘‘ کرنے کا ایک پلان لگتا تھا۔ پنجاب میں صوبائی حکومت سے پیپلز پارٹی کا تب کا اتحاد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ضرور تھا۔ حقیقت کڑوی ہے لیکن اس کو ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ شاید ہی تھا۔
تیسری اور اہم ترین وجہ یہ بتائی ہے کہ ’’2013 کے عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف کو جگہ دینے سے پیپلز پارٹی دو مخالف فریقوں کی دوڑ سے نکل کر تیسرے نمبر پر آگئی ہے ۔ پنجاب میں لوگ صرف دو مخالف فریقین کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تیسرا فریق تو جیت ہی نہیں سکتا۔ جو ایک ووٹ ضائع کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ 2013ءمیں تحریک انصاف کو جگہ پیپلز پارٹی نے نہیں بلکہ کچھ عناصر نے ایک لمبی کردار کشی اور نورا کشتی کے نتیجے میں دلوائی تھی۔ محترم کالم نگار کو دھرنے کے بعد کی صورتحال اور ان کا ہی ایک تازہ کالم ’’پارٹی از اوور‘‘ یاد ہی ہو گا۔ کیااسکرپٹ اور اس کے رائیٹرز والی بدنام زمانہ تھیوری کو ادھر دہرایا جائے؟ ہاں البتہ پنجاب کے ووٹرز کی نفسیات جو انہوں نے بیان کی ہے وہ پیپلز پارٹی کا بانی چیئرمین بہتر سمجھتا تھا۔ بینظیر صاحبہ بھی بڑی حد تک اسی سمجھ اور حکمت سے کام لیتی تھیں۔اب بلاول کو پچاس سالہ تجربہ کی بنیاد پر اس عہد کی تجدید کرنی پڑے گی۔ اگلے سال عام انتخابات ’’ایک ٹیسٹ کیس‘‘ہونگے ۔ جاتے جاتے بس آخری بات میر مرتضیٰ اور شاہ نواز سے پنکی کی صلح تو اس کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی۔ کیونکہ وہ سب کے سب ’’بے قصور ‘‘ تھے۔ اسلئے تو لوگ آج بھی یہ کہتے ہیں کہ’’یا اللہ یا رسول ، بینظیر بے قصور ’’ آصفہ بی بی تو ویسے سب کی ’’فیورٹ ‘‘ ہیں اور آصفہ خود ہی بلاول کو ’’فیورٹ‘‘قرار دے چکی ہے۔ بس اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں اور انتخابات میں ملک کے طول و عرض میں پسے ہوئے طبقات اور ووٹرز کس طرح سے اس ’’فیورٹ‘‘کو ’’اسٹامپ ‘‘کرکے اس عہد کی تجدید کرتے ہیں جو وفا اور قربانیوں کے عہد کی طرح پیپلز پارٹی سے ایک اور عہد جدید ہوگا۔