پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں گوادر بنیادی اور مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ یہیں وہ ’’ڈیپ سی‘‘ بندرگاہ تعمیر کے مراحل بہ سرعت طے کررہی ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے لئے بھی گیم چینجر ثابت ہوگی۔ بلامبالغہ پوری دنیا کی نظریں اس وقت اس منصوبے پر مرکوز ہیں، حلیفوں کی بھی اور حریفوں کی بھی۔ ان حالات میں مقام حیرت ہے کہ یہ علاقہ پانی اور بجلی کی سخت قلت کا شکار ہے۔ گوادر کو پانی فراہم کرنے والا واحد آنکڑہ ڈیم گزشتہ چند برس سے بارشیں نہ ہونے کے باعث عوامی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ سی پیک منصوبے میں متبادل ڈیم کی تعمیر بھی التوا کا شکار ہے۔ دریں صورت عوام کو پینے کا پانی 12سے15ہزار روپے فی ٹینکر کے حساب سے خریدنا پڑ رہا ہے جو کسی کمر توڑ آزمائش سے کم نہیں۔ بجلی کا بحران اس پہ مستزاد ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار 18سے 20میگاواٹ ہے جبکہ طلب 40میگاواٹ سے زائد ہے۔ نتیجتاً علاقے کے لوگوں کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ خوش آئند امر ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت اجلاس میں سی پیک کے مختلف منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے گوادر میں بجلی کے بحران کا خاص طور پر نوٹس لیا گیا۔ کابینہ کی کمیٹی برائے سی پیک نے گوادر میں بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایران سے بجلی کی درآمد کے سلسلے میں وزارت بجلی سے تجاویز بھی طلب کر لیں۔ حکومتی اقدام اگرچہ اطمینان بخش ہے، تاہم پانی کی فراہمی کو بھی اتنی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں انتہائی اہم معاملات، گوادر کے شہریوں کے سب سے بڑے مسائل بن چکے ہیں۔ حکومت کو ان کے حل کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ مسائل حل ہونے سے مقامی افراد کا وفاق پر اعتماد بڑھے گا۔ ضروری ہے کہ کابینہ کمیٹی برائے سی پیک اپنی نگرانی میں بجلی اور پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے اقدامات کرے۔ معاملات بیوروکریسی پر چھوڑنے سے ان کے لٹک جانے کا اندیشہ ہے۔