پچھلے دنوں، محلے کے کچھ احباب کے ساتھ ہونے والی ایک نشست میں یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ گلی کے ایک نوجوان بیٹے نے اپنی بوڑھی ماں کو ’’تھپڑ‘‘ مارا ہے، جس کی گونج نے قرب وجوار میں بسنے والے والدین کے دلوں کو دہلا دیا ہے، وجہ بیٹے کو جیب خرچ کا نہ ملنا تھا۔ بھلا، مل بھی کیسے سکتا تھا! باپ بوجہ نشہ بے حال رہتا تھا، کوئی اور کمانے والا تھا نہیں، ایسے میں بیچاری اکیلی ماں پورے گھر کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھی۔ کپڑوں کی سلائی سے حاصل ہونے والی آمدنی، روز بڑھتی زندگی کو پریشان کرتی مہنگائی کے مقابلے بہت محدود تھی۔ ایسی صورتحال میں تو بنیادی ضروریات زندگی کا پورا ہونا بھی محال تھا، جیب خرچ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا!
ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا! اولاد کے ہاتھوں ’’ماں‘‘ جیسی ہستی کی بے عزتی، اب نئی بات نہیں رہی ۔ ہمارے معاشرے میں ایک عورت کو صرف اولاد کے ہاتھوں پہنچائی گئی اذیتوں کا سامنا نہیں، بلکہ شادی سے پہلے اور بعد کی زندگی میں بھی دیگر نوعیت کی بے پناہ تکلیفیں دامن تھامے رہتی ہیں۔ کھیلتی کودتی عمر میں شادی ہوجانا، تعلیم سے دوری، جسمانی تشدد اوراستحصال وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ سماجی ومعاشرتی نا انصافیوں کا شکار یہ عورتیں اگر پاکستان کے ترقی یافتہ شہروں میں رہ رہی ہوں، تو کچھ عرصہ ’’بار زیست‘‘ اٹھا بھی لیتی ہیں، لیکن زندگی اگر ایسے علاقے میں بسر ہورہی ہو کہ جہاں نہ پکی سڑکیں ہوں نہ مضبوط مکان، صاف پانی ہو نہ صاف ستھرا ماحول، صحت مند زندگی ہو اور نہ ہی صحت کی معیاری سہولتیں تو پھر’’جینے‘‘ کا تصور کیونکر ممکن ہوسکتا ہے! غربت زدہ علاقوں میں ’’صحت‘‘ سے متعلق مسئلے مسلسل شدت اختیار کرتے جارہے ہیں خواتین چھوٹی، بڑی، موذی ومہلک بیماریوں کا شکار نظر آتی ہیں۔ بالخصوص دوران زچگی مرجانے والی خواتین کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ دیگر وجوہات کے ساتھ، ساتھ ایک اہم وجہ، علاج ومعالجے کی معیاری اور بہتر سہولتوں کا فقدان بھی ہے۔ ان بدقسمت علاقوں میں کسی نہ کسی طرح ایک ’’اسپتال‘‘ تو بنادیا جاتا ہے، لیکن ’’بدحالی‘‘ اس عمارت کے کونے، کونے سےعیاں ہوتی ہے۔
وسائل کی کمی، کرپشن، بد انتظامی اسپتال کے ہر ’’شعبے‘‘ کو متاثر کئے ہوئے ہوتی ہے، اور پھر جب، بیٹے کی خواہش میں مبتلا، ہر سال ایک بیٹی کو جنم دیتی، خون کی کمی کا شکار ایک حاملہ خاتون کو اس بدحال اسپتال لایا جاتا ہے تو بچنے کی تمام تر امیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ ان مایوس کن صورتحال میں اس کے لبوں پر صرف ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ ’’یا اللہ، رحم فرمادے‘‘ اس وقت ماں کے دل سے نکلی دعا، ایک ماں کے حق میں قبول ہوجاتی ہے ..... ’’ڈاکٹر صائمہ نے ’’ماروی‘‘ کو مرنے سے بچالیا تھا اس گائوں کی اس غریب دکھیاری کو اسپتال لایا گیا تھا۔ آپریشن تھیٹر میں موجود ’’تربیت یافتہ‘‘ عملے نے باہر کھڑے رشتہ داروں کو کامیاب آپریشن کی نوید دے دی تھی۔ تمام تر لازمی اور ضروری Check Ups کے بعد نوزائیدہ کو Nursery منتقل کردیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صائمہ اور ان کی ٹیم کی کوششیں رنگ لے آئی تھیں۔
اسپتال کے Comprenensive Emergency Obstetric Care کو بہتر بنانے کے لئے کی گئی محنت کا ثمر ملنا شروع ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر صائمہ رہتی تو شہر میں تھیں لیکن ماں اور بچے کی زندگی کو محفوظ بنانے کے جذبے نے انہیں وہاں پہنچا دیا تھا، جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ کٹھن راستوں پر، بلند حوصلوں اور سچے جذبوں سے کیا گیا سفر، آخر کار ’’منزل‘‘ سے ملا ہی دیتا ہے۔ اس طرح کے آپریشن اب اس اسپتال میں بلا خوف وخطر ہورہے تھے۔ چہروں پر خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔ زندگی کی خوبصورتی محسوس ہونے لگی تھی۔ دلوں اور ذہنوں میں موجود وسوسوں نے دم توڑ دیا تھا۔
لیکن ایک ’’پریشانی‘‘ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے!! وہ یہ کہ ڈاکٹر صائمہ تو کچھ اسپتالوں میں ماں اور بچے کی صحت سے متعلق شعبوں کی درستگی میںکردار ادا کرسکتی ہیں، لیکن ملک میں موجود لاتعداد صحت کے مراکز جس ’’کسمپرسی‘‘ کا شکار ہیں، انہیں کیسے اور کون ٹھیک کرے گا؟ ایک ماروی کی زندگی تو بچ گئی لیکن ان ہزاروں لاکھوں ’’ماریوں‘‘ کا کیا بنے گا جو پاکستان کے بدقسمت علاقوں میں موجود، بدحال اسپتالوں میں زندگی کو ’’آخری سانسیں‘‘ لیتا دیکھ رہی ہیں۔ ڈاکٹر صائمہ جیسی باہمت اور حوصلہ مند خواتین یقیناً موجود نہیں، لیکن کیا ان کی تعداد صحت کے شعبے کی بے تحاشہ بگڑی ہوئی حالت کو درست کرنے کے لئےکافی ہے؟ کیا ان کے پاس وہ وسائل اور اختیارات موجود ہیں جو اس جنگ کو لڑنے میں درکار ہیں؟ یقیناً نہیں! کیونکہ یہ ذمہ داری، یہ کام، یہ جنگ کی فرد واحد یا کچھ لوگوں کی نہیں ہے۔ اس نظام سے جڑی ہر ’’اکائی‘‘ کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا، اپنے کردار کو سمجھنا اور نبھانا ہوگا، تب کہیں ایک عورت، ایک ماں کی زندگی سےجڑی تکلیفوں کو ختم کیا جاسکےگا پھروہ بھی ایک خوبصورت زندگی ’’جی‘‘ سکےگی!