عقل سے دور کا بھی کوئی واسطہ ہوتا تو صاحبان اقتدار، اور ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ سبق سیکھ لیتے اس دن سے جو کل ایک بار پھر زخموں کو کریدنے اور خون کے آنسو رلانے آیاتھا، سولہ دسمبر۔ سیکھا مگر کچھ نہیں، کسی نے بھی، تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد بھی۔ یہ غماز ہے ہر سطح پر دانش کی کمی کا۔چھیالیس برس پہلے اسی دن ملک دو لخت ہوا۔ مسلم دنیا کی تاریخ میں اس جیسی ہزیمت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں شکست کی دستاویز پر دستخط ثبت کئے گئے ، دشمن کے آگے ہتھیار ڈالے گئے۔ اس سارے معاملے میں بھارت کے مذموم عزائم اب کوئی راز نہیں رہے۔ اس کے سیاستدان، فوجی جنرل اور حکمران بہت کچھ تسلیم کرچکے ہیں۔ ان کے یہاں بھی سقوط مشرقی پاکستان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ شاید یہاں اتنا نہ لکھا گیا ہو، شاید یہاں اپنی کوتاہیوں کا اتنا اعتراف نہ کیا گیا ہو، جتنا بھارتی سازشیوں نے اپنے کرتوت تسلیم کئے ہیں۔ یہ بات باربار کہی گئی ہے کہ ملک کے مشرقی حصے میں جو کچھ ہورہا تھا، مغربی بازو کے عوام کو اس سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ بے خبری کا یہ عالم تھا کہ ہتھیار ڈالنے کے اگلے دن، بیشتر اخبارات میں اس سانحہ عظیم کی خبر بھی پوری طرح شائع نہیں ہونے دی گئی۔ بہت ہی کم اخبارات اس جرأت کا مظاہرہ کرسکے تھے کہ ُاس دن کی اِس سب سے بڑی خبر کو سرخی میں شائع کرتے۔ انگریزی کے ایک بڑے اخبار میں یہ دو کالمی خبر تھی، کئی اخبارات میں صرف ایک جملہ شائع ہوا: ’’ایک معاہدہ کے تحت بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئیں۔‘‘
اس سانحہ سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا، اصل سبق اس میں ہے۔ بلا شبہ انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنا مشرقی پاکستان کے بحران کو مزیدبگاڑنے کی ایک اہم وجہ تھی۔ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرلی تھی۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ اقتدار اسے منتقل کردیا جاتا۔ ملک پر ایک آمر ، جنرل یحییٰ کی حکومت تھی، جسے اس کے ہٹنے کے بعد سپریم کورٹ نے غاصب قرار دیا۔ اختیار بھی اسی کے پاس تھا۔ کچھ سیاسی رہنمائوں کا کردار بھی تھا، جو ان دنوں روز بہ روز مشکوک ہوتا گیا۔اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہونا تھا۔ بھٹو نے دھمکی دی کہ اجلاس میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اِدھر ہم، اُدھر تم کا نعرہ بھی لگایا۔ مارچ کی پچیس تاریخ کومشرقی حصے میں شروع ہونے والے آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’ خدا کا شکر ہے، پاکستان بچالیا گیا‘۔ بس اتنی ہی بصیرت کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔
مگر بصیرت کی کمی تو بہت عرصے سے تھی، ان میں جو ذمہ دار تھے، جو حکومت کرتے رہے، معاملات جن کے اشارہء ابرو سے چلتے تھے۔ اور وہ جو دل ہی دل میں مشرقی پاکستان کو اپنے لئے ایک بوجھ سمجھتے تھے، اُس کے عوام کے خلاف سازش کرتے رہتے تھے۔ ان سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ملک کو دولخت کرنے کی۔ کبھی کسی نے جائزہ لیا؟ شاید ہی کبھی کسی نے اپنے گریبان میں جھانکا ہو۔ وہ جو ایک حمودالرحمان کمیشن نے اس حادثہء جانکاہ پر رپورٹ تیار کی تھی، اسے آج تک دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ جو کچھ اِدھر ُادھرچَھپا، وہ بھی چوری چُھپے کا مال تھا، کہ اس میں سے بہت کچھ بھارت میں چَھپا تھا، یہاں نہیں۔ ظاہر ہے ذمہ داروں کو، اگر ان کا تعین کیا گیا تھا تو، کیا سزا ملنا تھی جبکہ ان کے نام بھی آج تک ظاہر نہیں کئے گئے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بیج بہت پہلے سے بوئے جا رہے تھے۔ جب جس کو موقع ملا، ان کی آبیاری کی۔ مشرقی پاکستان کے ممتاز سیاستدان خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے،وہ قائدِ اعظم کے بعداس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ تین سال بعد انہیں ہٹادیا گیا اور غلام محمد نے ان کا عہدہ سنبھال لیا۔ خواجہ ناظم الدین 1953 تک وزیراعظم رہ سکے۔ اس کے ایک سال بعد غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی برطرف کردی ۔اس وقت اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین تھے۔ ان کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا۔ انہوں نے اس حکم کو عدالت میں چیلنج کیا۔ جسٹس منیر نے، جنہیں ابھی اور بھی کئی متنازع مقدمات کا فیصلہ کرنا تھا، گورنر جنرل کے حکم کو درست قرار دیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کو ایک اور صدمہ پہنچایا گیا۔ آئین بننے کے بعد، مشرقی پاکستان کے حسین شہید سہروردی کو وزیراعظم بنایا گیا، مگروہ ایک سال بعد ہی اس عہدے سے فارغ ہوگئے۔ یہ بھی مشرقی پاکستان کے ساتھ کیا گیا کہ اس کی اکثریت کو غیر موثر کرنے کے لئے برابری (نام نہاد) کا اصول تھوپا گیا ، یعنی، مشرقی پاکستان کو اکثریت کے باوجود مغربی پاکستان کے برابر نشستیں دی گئیں ۔ ظاہر ہے وہاں احساسِ محرومی بڑھتا رہا۔ اور بھی بہت کچھ ہوتا رہا، جس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ اصل میں انہی تفصیلات کو سامنے رکھنے کی ضرورت آج زیادہ ہے۔ پہلے بھی تھی۔ یہ دیکھا جائے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو ملک میں بے چینی کو جنم دیتی ہیں، اور احساسِ محرومی بڑھاتی ہیں۔ وہ جو صاحبان اقتدار ہیں، یا جن کے پاس اختیارات اصل میں ہیں، انہیں خاص طور پر ان پہلوئوں پر توجہ دینی چاہئے۔ آخر وہ کون لوگ تھے جو متحدہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بلا اختیار مداخلت کرتے رہے ؟ وہ کون تھے جو اکثریتی صوبے کو اس کے حقوق سے محروم رکھنا چاہتے تھے، محروم رکھتے رہے ؟ کس نے معاملات بگاڑنے شروع کئے؟ اور کس نے اتنے خراب کردیئے کہ بھارت کو وہاں مداخلت کا موقع مل گیا اور اس نے صورتحال کو بہت زیادہ خراب کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا؟
یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے کہ حقائق کا جائزہ لیا جائے۔ اصل بات اس خواہش کی ہے کہ آپ جائزہ لینا چاہتے ہوں۔ اگر آپ کسی بااختیار جگہ بیٹھے ہیں، اگر آپ کے پاس بوجوہ غیر معمولی اثرو رسوخ ہیں تو آپ پر زیادہ ذ مہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ پاکستان کا بچا کھچا حصہ ہے۔ ہم اب اسے ہی پورا پاکستان سمجھتے ہیں۔ یہ بات حقائق سے کتنی ہی بعید ہو، مجبوری ہے۔ مگر اب بھی زمینی حقائق وہی ہیں، جو متحدہ پاکستان میں تھے۔ آج بھی اس ملک کے عوام کو اپنے آئینی اور قانونی حقوق چاہئیں۔ صوبوں کو احساسِ محرومی کا شکار ہونے نہ دیا جائے ۔ عوام کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔
ملک میں اس وقت بہت افراتفری ہے۔ ایک سیاسی بے یقینی ہے ، موجودہ پارلیمان کے مستقبل اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے بھی۔ کئی سیاسی رہنمائوں کا مستقبل بھی شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ عدالتوں کے کردار پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ اگر آج جسٹس منیر کے فیصلوں پر تنقید ہوسکتی ہے تو کل آج کے فیصلوں پر بھی گفتگو ہوگی۔جو کچھ ہو رہا ہے ان کی وجوہات پر بھی بہت باتیںہو رہی ہیں۔ ان کے پیچھے ہاتھوں کا بھی تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ ذرا پہلے، بہت سی باتیں اشاروں کنایوں میں ہوتی تھیں، اب کافی کھل کر گفتگو ہونے لگی ہے۔ اگر ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بات کریں تو۔ ورنہ نجی محفلوں میں، اور لوگوں کے درمیان، وہ جسے ڈرائنگ روم گفتگو کہا جاتا ہے، وہاں تو اب سب کچھ کھلا ڈلا بیا ن ہوتا ہے۔ کون کیا کررہا ہے، کس کے ہاتھ کہاں کہاں رنگے ہوئے ہیں۔ کس نے کس کس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ کسے بلا احتساب ریٹائر ہونے دیا گیا۔ اور بھی بہت کچھ کہا جا رہا ہے، کہا جاتا رہے گا۔ پابندیاں اب بھی ہیں، مشرقی پاکستان میں آپریشن جتنی نہیں، مگر ہیں۔ اُس وقت بھی نقصان ہوا تھا، آج تک جس زخم کو قوم چاٹ رہی ہے۔ کل بھی زیادہ محفوظ نہیں رہے گا، اگر ہمارا رویہ یہی رہا۔ بیٹھیں، سب سوچیں۔
ایک دوسرے سے مشورہ کریں۔ ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کو اپنے اردگرد ہونے والے معاملات پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ کل شاید ایک مشکل دور ہو۔ اس سے نمٹنا بھی ہے۔ذاتی، اداراتی مفاد کچھ ہوتے ہونگے، ملکی مفاد سب سے بالا ہوتے ہیں۔ انہیں اولیت دیں، اولین ترجیح پر رکھیں۔ اسی میں آپ کا بھلا ہے اور ملک کا مفاد بھی اسی رویہ میں ہے۔ باقی سب کچھ عارضی ہے، عہدہ، اختیارمال و دولت۔ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔