ایاز صادق صاحب، اسپیکر پاکستان قومی اسمبلی اسلام آباد سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے ’’متنازع مقدمۂ قتل‘‘ کے ایک تاریخی واقعہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ الم کی یہ تاریخ جاری ہے۔ جب تک اس کی قبر پہ جاکر ذمہ داران معافی نہیںمانگتے!تفصیل ایک کتاب سے مستعار لی گئی ہے۔ ’’بھٹو صاحب کے بارے میں آپ کوئی مثبت بات کہیں یامنفی برسوں بعد میں ایک جید اردو اخبار میں میگزین ایڈیٹر تھا اور کسی کام سے چیف ایڈیٹر کے کمرے میں گیا۔ وہاں چوہدری ظہور الٰہی مرحوم بیٹھے تھے اورقصہ سنارہے تھے کہ کس طرح سعودی حکومت نے جنرل ضیاء الحق کو پیشکش کی تھی کہ وہ بھٹو صاحب کوپھانسی کی سزا نہ دیں۔ سعودی حکومت اس بات کی گارنٹی دے گی کہ اگر انہیںچھوڑ دیا جائے تو سعودی عرب کاایک طیارہ انہیں اپنے ملک لےجائے گا اور دس برس تک ان کی مہمان نوازی کرے گا۔ اس سے پہلے وہ کسی قسم کا سیاسی بیان نہیں دیں گے اور نہ پاکستانی حکمرانوں کےلئے ان کی جماعت کوئی مسئلہ بنے گی‘‘ .... اس کمرے میں چوہدری ظہور الٰہی نے تفصیل بیان کی تھی کہ جب سپرنٹنڈنٹ جیل سے کہا گیا جس کی قدرتی طورپر بھٹوصاحب سے اچھی سلام دعاتھی انہو ںنے جیل میں بند بھٹوصاحب کی کوٹھڑی کے پاس جا کر اشارتاً سعودی عرب کی اس پیشکش کے بارے میں بتایا تو بھٹو صاحب انتہائی ناراض ہوگئے اور انہوں نے بہت سخت الفاظ استعمال کئے جنہیں دہرایا نہیں جاسکتا۔ وہ چاہتے تو حامی بھر کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتے تھے۔ بقول چوہدری ظہور الٰہی مرحوم، یہ طے پایا تھا کہ بھٹوصاحب کی بیماری کی خبر نکالی جائے گی۔ پھر بعض دوست ممالک ان کی پھانسی کی سزا ملتوی کرنے اور انہیں علاج کے لئے باہر لے جانے کی درخواست کریں گے اور پاکستانی حکومت اس درخواست کو قبول کرکے خفیہ معاہدے کے تحت انہیں سعودی عرب بھیج دے گی۔ بعینہٖ میاں نواز شریف اور شہباز شریف اور ان کے اہل خاندان کو بھی اٹک جیل سے چھڑا کر اس یقین دہانی پرسعودی عرب بھیجا گیا تھا کہ وہ دس سال تک پاکستانی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے لیکن بھٹو صاحب نے یکسر انکار کردیا۔ وہ جب تک جیل میں رہے انتہائی وقار اور عزت سے رہے۔انہیں کبھی شکایت کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ہاں وہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے اور یہ کاغذ جیل سے اسمگل ہو کر بی بی بینظیر کے پاس پہنچتے رہے اور انڈیا میں ان پر مشتمل انگریزی کتاب "If I am assassinated" اور جس کا اردو ترجمہ ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ شائع ہوئی!
اب جناب ایاز صادق صاحب، گفتگو انہوں نےجیوٹی وی کے شاہزیب خانزادہ سے کی اور کہا:’’لگتا نہیں حکومت مدت پوری کرے۔ جو ہو رہاہے 2002اور 2008 میں بھی نہیں ہوا۔ استعفے آسکتے ہیں۔ گریٹر پلان بنتا نظر آ رہاہے، باخبر ہوں، ضروری نہیں سسٹم مارشل لا سے ہی ڈی ریل ہو۔ کچھ ہونے والا ہے معلوم نہیں کون کروا رہا ہے؟ بیرونی قوتیں بھی گیم کھیلتی ہیں۔ پس پردہ سیاسی و غیرسیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں۔ کچھ باتیں پوچھی نہیں سمجھی جاتی ہیں۔ چاروں طرف سے کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ ایک کے سوا تمام جماعتیں چاہتی ہیں حکومت مدت پوری کرے۔ چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہونے والا ہے۔آپ نے دیکھا نہیں کہ پہلے تین ماہ میں پاکستان میں کیا ہوا؟ مارشل لا لگنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ نہ کوئی مارشل لا کو قبول کرے گا۔ نہ ہی اداروں کا مارشل لا کی طرف جانے کا ارادہ ہے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ نظام کو مارشل لا ہی سے ڈی ریل کیا جائے اور ضروری نہیں ادارےکریں۔ بیرونی قوتیں بھی یہ گیم کھیلتی ہیں۔ مجھے نہیں پتا یہ سب کون کروا رہا ہے لیکن یہ صاف ظاہر ہے کوئی پلان بن رہا ہے۔ اسلام آباد، لاہور اورکراچی میں پہلے تین ماہ کےدوران جو کچھ ہوا سب کیا ہے۔ کراچی میں پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے اتحاد والا معاملہ نارمل چیز نہیں تھی۔ ممکن ہے ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کو کسی بیرونی قوت نے ساتھ بٹھایا ہو۔ مجھے جتنازیادہ پتا ہے وہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے دھرنے میں حکومت بھی بے بس نظر آئی۔ حکومت شاید سانحہ ماڈل ٹائون کی وجہ سے فورس کےاستعمال سے خوفزدہ تھی۔ پیپلزپارٹی کا نظام ڈی ریل نہ ہونے دینے میں اہم کردار ہے۔ پیپلزپارٹی حکومت کی جتنی بھی مخالفت کرے لیکن نظام ڈی ریل ہو وہ اس کے لئے تیار نہیں۔ سازش کا عنصر صرف ن لیگ کے لئے نہیں پورے نظام کے خلاف دیکھتا ہوں۔‘‘
اولاً تو یہ کہ جناب ایاز صادق پاکستان قومی اسمبلی کے کسٹوڈین (محافظ) ہیں انہوں نے اپنا فرض مکمل طور پر ادا کردیا ہے۔ مستعفی ہونا ضروری نہیں۔ آج مولوی تمیز الدین، گورنر جنرل غلام محمد مرحوم، جسٹس (ر) منیر والی پوزیشن نہیں ایسے ہی جیسے فخر امام والا معاملہ بھی نہیں یعنی کوئی ایاز صادق کو پارلیمنٹ کی اسپیکر شپ سے آئینی طریق کار کے خلاف گھر نہیں بھجوا سکتا۔ خورشید شاہ صاحب نے اسپیکر کی گفتگو کے جواب میں نظام کے حق میں یہ ثبوت فراہم کیا۔ انہوں نے کہا ’’حالات ہمیں بھی مشکوک لگ رہے ہیں۔ ایاز صادق نے اسمبلیوں کے مستقبل کے بارے میں اندر کی خبر دی۔ ان کو صورتحال کا زیادہ ادراک ہے۔ پارلیمان کو ربڑاسٹیمپ بننے دیں گے نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی جاگیر ، تمام اسٹیک ہولڈرز کو آنکھیں کھول کر چلنا ہوگا اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ ہم بھارت، انگریز اور افغانستان کا نظریہ ماننے کو تیار نہیں‘‘ بالآخر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اپنا احوال ان الفاظ پر ختم کیا:’’بوجھ اتر گیا۔ خطرے کی بو اسلام آباد کی فضائوں سے محسوس کی اب کافی سکون محسوس کر رہا ہوں۔ امید ہے نظام کو لاحق خطرہ ٹل جائے گا۔‘‘ اب کرتے ہیں ملکی آئین کی بات۔ سو وہ ہے۔ قبل از وقت انتخابات کے لئے اسمبلیوں کی تحلیل اور اپنی حکومت ختم کرنے کا اختیار وزیراعظم پاکستان کے پاس ہے اور اس وقت وزیراعظم ہیں شاہدخاقان عباسی! احباب پاکستان ’’آئینی بالادستی ، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کا پرچم ہاتھ میں رکھیں دیکھی جائے گی۔