کراچی(نیوزڈیسک)چین پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں ترقیاتی کام کے لیے بے دریغ رقوم فراہم کر رہا ہے تاہم سی پیک کے تحت یہاں بندرگاہ کی تعمیر سے بھارت اور امریکا کو خدشات ہیں کہ اسے ایک دن چینی بحریہ کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان اور چین گوادر پورٹ کو سی پیک منصوبے کے تاج میں جڑے ایک نگینے کے طور پر دیکھتے ہیں۔غیرملکی ذرائع ابلاغ کےمطابق بیجنگ حکومت نے نہ صرف گوادر میں ایک اسکول تعمیر کیا ہے بلکہ وہاں مقامی لوگوں کے علاج کیلئے ڈاکٹرزکو بھی بھیج رکھا ہے، اس کے علاوہ چین نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ گوادر میں اسپتال، کالج، ایئر پورٹ اور پانی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کے قیام کیلئے500ملین ڈالر کی گرانٹ دی جائے گی،مذکورہ گرانٹ میں گوادر میں 230ملین ڈالر ز ایک بین الاقوامی طرز کے ایئر پورٹ کی تعمیر کیلئے مختص کیے گئے ہیں، محققین اور پاکستانی حکام کے مطابق یہ رقم چین کی جانب سے بیرونی منصوبوں کی مد میں خرچ کی گئی بڑی رقوم میں سے ایک ہے۔ واشنگٹن میں مقیم ریسرچر اور ’ چائنا پاکستان ریلیشنز ‘ نامی کتاب کے مصنف اینڈریو اسمال کا کہنا ہے کہ’’ چین عمومی طور پر بڑے پیمانے پر امدادی رقوم اور گرانٹ نہیں دیتا اور اگر ایسا کیا بھی ہے تو بہت اعتدال پسندی کے ساتھ۔‘‘ تاہم پاکستان نے چین کی طرف سے ملنے والے امدادی فنڈز کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا ہے، دوسری جانب امریکا اور بھارت کو گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر میں چین کی غیر معمولی دلچسپی سے ایسے خدشات ہیں کہ گوادر کی بندرگاہ چین کے مستقبل کی جغرافیائی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ امریکی بحریہ کے غلبے کو چیلنج کیا جا سکے۔اینڈریو اسمال اسی تناظر میں کہتے ہیںکہ’’ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں بہت سے افراد طویل المیعاد بنیادوں پر گوادر کو محض ایک تجارتی منصوبے کے طور پر نہیں دیکھتے۔‘‘اسمال کے اس تبصرے پر خبر رساں ادارے رائٹرز نے چینی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں مل سکا،پاکستان اور چین دونوں ہی ممالک گوادر پورٹ کو سی پیک منصوبے کے تاج میں جڑے ایک نگینے کے طور پر دیکھتے ہیں، امید ہے کہ اس بندرگاہ سے ہونیوالی تجارت کا حجم 2018میں 1.2ملین ٹن سے بڑھ کر 2022میں 13ملین ٹن تک پہنچ سکتا ہے۔