ٹیکنالوجی کمپنیز میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی امریکی کمپنی ’گوگل‘ نےچین میں ایشیاء کا پہلا’ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سینٹر‘کھول لیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’گوگل ‘کی کئی ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنے پر چین میں پابندی عائد ہےمگراس کے باوجود امریکی کمپنی نے چینی ٹیکنالوجی کے ماہرین کی خدمات اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنا پہلا سینٹر بیجنگ میں کھولاہے۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کے ساتھ ساتھ ایشیاء کا بھی یہ پہلا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سینٹر ہے۔
اس سینٹر کے ذریعے گوگل ناصرف مصنوعی ذہانت یعنی ’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘کی حامل ٹیکنالوجی کو مزید فروغ دے سکے گا بلکہ ایشیا ءمیں موجود عام سینٹرز سے بھی رابطے میں رہے گا اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرسکے گا۔
بیجنگ کے علاوہ گوگل کے اے آئی سینٹرز نیویارک، لندن اور دنیا کے دیگر شہروں میں قائم ہیں۔
سینٹر کی ایک اعلیٰ عہدیدارنے بتایا کہ ’گوگل بیجنگ سینٹر‘ اس نئے مقصد کا آغاز ہے جس کے ذریعے امریکی کمپنی ایشیا ءکے لوگوں کے فوائد دینا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، وہ کسی بھی رکاوٹ یا سرحد کی تفریق کے بغیر سب کی خدمت کرتی ہے، اور ہر کسی کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں مصنوعی ذہانت پڑھاتے ہوئے 12 سال ہوچکے ہیں جبکہ گوگل میں نوکری کرتے ہوئے ابھی ایک سال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر انتہائی خوش ہیں کہ امریکی کمپنی نے چین میں اپنا پہلا سینٹرقا ئم کیاہے۔
انہوں نے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے چینی انجینئرز اور ماہرین کے حوالے سے بتایا کہ سال 2015 میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے حوالے سے دنیا کے 100 بہترین سائنس جرنلز میں شائع ہوا جس میں تحقیقی مضامین میں سے 43 فیصد مضمون چینی ماہرین کے تھے۔
واضح رہے کہ کسی بھی بڑی عالمی کمپنی کا چین میں یہ پہلا سینٹر ہے۔ چین میں صرف مقامی ٹیکنالوجی کمپنیاں ہی مقبول ہیں۔گوگل کا چین میں سب سے زیادہ مقابلہ ’علی بابا، ٹینسینٹ اور بائڈو‘ جیسی ٹیکنالوجی کمپنیز سے ہوگا جو پہلے سے ہی گوگل کی طرح مختلف مصنوعات تیار کرتی ہیں۔