آپ کا ارشاد بالکل درست ہے، اگر آج اس پر غور کیا جائے۔مگر ایسا کم ہی ہوا ہے کہ آپ کے برادر ججوں کے فیصلے اسی وقت زیر بحث آئے ہوں جب وہ سنائے گئے۔ بہت سی مجبوریاں اُس وقت آڑے آتی رہی ہیں۔ مگر بعد میں ان پر گفتگو ہوئی ہے، اور اب تک ہو رہی ہے۔ ان برادران میں سے کچھ ہی ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنے فیصلوں کی وضاحتیں کیں، مثلاً جسٹس منیر۔ ان فیصلوں کے جو اثرات اس ملک پر پڑے انہیں تو ختم نہیں کیا جا سکا، ممکن ہی نہیں تھا، وقت بہت گزرگیا تھا اور حالات کافی عرصے تک ایسے رہے کہ ان برادران کے فیصلوں پر تنقید کا مطلب کسی اور پر تنقید سمجھی جاتی ۔ آمریت کے ادوار انہی فیصلوں کی وجہ سے اس ملک پر نافذ ہوئے۔ ان پر تنقید ممکن نہیں تھی کہ جبر کی رات کئی مرتبہ طویل اور طویل تر ہوتی رہی۔
ایسا ایک بار نہیں ہوا۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔ آپ کا یہ ارشاد کہ وکلا کو مطالعہ کرنا چاہئے درست ہے۔ اسی لئے یہ اعتماد ہے کہ آپ نے بھی ان فیصلوں کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا جو ماضی میں ہوتے رہے۔ آج جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ عدلیہ پر دبائو ڈالنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا تو چلئے آپ کی بات کا یقین کر لیتے ہیں۔ مگر صرف آج کے حوالے سے۔ اور فی الحال۔ آنے والا وقت ان فیصلوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے، وہ آنے والی تاریخ ہی بتائے گی۔ تاریخ بہ ہر حال ان کا جائزہ لیگی ضرور۔ آج صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ آپ کی بات کی تصدیق نہیں کرتا۔ وہ سب باتیں تو اب سب کے سامنے ہیں، آپ کی کتابوں میں سب کچھ درج ہے۔ اگر ان کے بارے میں گفتگو کی جائے تو کیا آپ اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی فیصلہ آزادانہ نہیں دیا گیا، ہر فیصلہ دبائو کا نتیجہ تھا۔ آمروں کے حق میں جو فیصلے دیئے گئے ان کے بارے میں یہ قطعی نہیں کہا جا سکتا کہ ان سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوا۔ آپ نے بھی یہ ضروری نہیں سمجھا کہ ماضی کے ان فیصلوں کے بارے میںہی کچھ فرمادیتے۔ جب آپ کو بولنا ہی تھا، اور اتنا کچھ آپ نے ارشاد کیا ہی تھا تو تھوڑا اور بھی آپ اپنے خطاب میں توسیع کرتے اور کچھ ماضی کی بھی چھان بین کرلیتے۔ یہ قوم اس بات کی منتظر ہے کہ کبھی تو کوئی ایسا ہو کہ وہ ماضی کی غلط کاریوں کو درست کرنے کی بات کرے۔
آپ کے علم میں ہے اور اس پر بہت بات ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے ماضی میں کئی بارآئین اور قانون کے مطابق فیصلے نہیں کئے۔ نظریہء ضرورت کسی وکیل نے ایجاد نہیں کیا تھا۔ یہ جسٹس منیر تھے جنہوں نے کم از کم دو بار اس نظریئے کا سہارا لیا۔ ان کے فیصلے کے خلاف رائے دینے والے کتنے جج تھے؟ اور بعد میں کیا ہوتا رہا؟ اسی نظریہ ضرورت کا حوالہ دیا جاتا رہا۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے بعد، جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کو بھی اسی اصول کے تحت جائز قرار دیا گیا۔ اور پھر اقتدار پر جنرل پرویز مشرف کے قبضے کو بھی انہیں بنیادوں پر درست کہا گیا، حالانکہ اس نے تو مارشل لابھی نہیں لگایا تھا، صرف بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ ویسے اس کے حق میں دئے گئے فیصلے اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے حق میں دئئے گئے فیصلے میں کوئی فرق نہیں ہے، ملا کر دیکھ لیجئے، جو مختصر فیصلے عدلیہ نے سنائے وہ حرف بحرف ایک ہی ہیں۔ آخر کچھ تو ہوا ہوگا جس کی وجہ سے دونوں فیصلے ایک جیسے ہیں۔ کوئی دبائو تو ہوگا، کہ دونوں بار مدعا علیہ کو زیادہ سہولتیں فراہم کی گئیں، جبکہ شکایت کنندہ کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا۔
جسٹس سعیدالزماں کا تو ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ان کے انٹرویو آپ نے پڑھے ہوں گے۔ اور ان سے پہلے بھی جن ججوں نے اختلاف کیا تھا، یافوجی آمر کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا تھا، ان کی باتیں بھی آپ نے سنی ہوں گی، ان میں سے کیا کبھی کسی نے کہا کہ ان پر دبائو نہیں ڈالا گیا؟ وہ کیا ہو رہاتھا کہ ایک عبوری آئین نافذ کردیا جاتا تھااور ججوں سے کہا جاتا تھاکہ اس پر نئے سرے سے حلف اٹھائیں، حالانکہ ان ججوں نے ملک کے آئین پر پہلے ہی حلف اٹھایا ہوا ہوتا تھا۔ کیا یہ نہیں ہوا کہ کئی ججوں کو عبوری آئین پر حلف دینے سے ہی انکار کردیا گیا، ان میں سے کچھ کو تو گھر سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا گیا۔ پھر جن لوگوں نے حلف اٹھایا، انکے سامنے مارشل لا کے نفاذ کے خلاف درخواست دائر ہوئی تو فیصلے توقع کے عین مطابق تھے۔ آمر کے اقدامات کو جائز قرار دیا گیا۔ ابھی جو عرض کیا اس کے بعد آپ کیا کہیں گے کہ عدلیہ پر دبائو ڈالنے والا کبھی پیدا ہی نہیں ہوا، یا عدلیہ کبھی کسی کے دبائو میں نہیں آئی؟ کون اس پر یقین کرے گا؟ کیسے کرے گا؟ آج آپ جب یہ کہتے ہیں کہ عدلیہ پر تنقید نہ کی جائے تو یہ رہنمائی بھی آپ کو کرنی چاہئے کہ ماضی میں کئے گئے ان فیصلوں کے بارے میں کیا کہا جائے؟ وہ بھی تو عدلیہ ہی نے دیئے تھے۔
ابھی جو اوپر کہا گیا کہ شکایت کنندہ کو ریلیف فراہم نہیں کیا گیا، آپ کے تو علم میں ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے اور کیا ہوا تھا۔ ایک عام آدمی کے لئے ذرا سی وضاحت کی ضرورت ہے۔ درخواست مارشل لا کے نفاذ کے خلاٖ ف دائر کی گئی تھی۔ جنرل ضیاکے خلاف نصرت بھٹو نے مقدمہ کیا تھا۔ وہ درخواست گزار تھیں۔ فیصلے میںمارشل لاکے نفاذ کو درست قرار دیا گیا۔ یہاں تک بھی (فی الحال) فیصلہ درست مان لیتے ہیں۔ مگر آئین میں ترمیم کرنے کا حق مدعا علیہ کو کیسے دیا گیا؟ یہی کچھ بعد میں جنرل مشرف کے فوجی قبضے کے وقت ہوا۔ اسے بھی آئین میں تین سال تک ترمیم کا حق دیا گیا، جبکہ درخواست گزار کی درخواست مسترد کردی گئی۔ یہ کس طرح ہوا؟ کیسے ہوتا ہے کہ مدعا علیہ کو عدلیہ سے فیض حاصل ہوتا رہا، درخواست گزار کو نہیں؟
اگر آج آپ کو تنقید پر اعتراض ہے تواس کی وجوہات بھی تو آپ کے علم میں ہوں گی؟ ایک تو عدلیہ کا ماضی ہے، دوسرے اِس وقت ملک میں ایک سیاسی افراتفری ہے۔ جن کے خلاف فیصلہ آتا ہے وہ تنقید کرتے ہیں۔ آپ کو یہ ناگوار گزرا۔ آپ نے اس کا اظہار بھی کیا ،اور کھلے بندوں کیا۔ آپ چند قدم اور آگے بڑھیں۔ ماضی کے فیصلوں پر ایک نظر ڈالیں۔ دیکھیں کہ کب اور کہاں آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیری گئی تھیں؟ کب اور کہاں آئین کے برعکس فیصلے دئے گئے تھے؟ جن ججوں کوفارغ کیا گیا ان کا کیا قصور تھا؟ ان کی جگہ جن ججوں نے عبوری آئین کے تحت حلف اٹھایا کیا انہوں نے درست کیا تھا؟ اور اگر انہوں نے کوئی فیصلہ دیا تو کیا وہ درست تھا؟ ان سب پہلوئوں کا جائزہ لینے کے لئے آپ کچھ اقدامات کریں۔ ویسے تو اعلیٰ عدلیہ کو یہ کام بہت پہلے کرلینا چاہئے تھا، مگر انہوں نے پارلیمان کے ان فیصلوں کا سہارا لیا جن میں تمام فوجی آمروں کے اقدامات کو درست قرار دیا گیا تھا۔ آپ اس سے گریز کریں، اعلیٰ عدلیہ کی ایک بڑی بنچ بنائیں، اور ماضی میں جو بھی غلط فیصلے ہوئے انہیں کالعدم قراردیں۔ اسی طرح تاریخ درست ہو سکتی ہے اور عدلیہ میں عوام کا اور قوم کا اعتماد بڑھ سکتا ہے۔ اس کے بعد جب آپ عدالتی فیصلوں پر تنقید پر ناگواری کا اظہار کریں گے تو آپ کی بات میں وزن ہوگا۔ اس سے پہلے، اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا، عوام اور وکلا برادری آپ کی رائے کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔ یہ مناسب نہیں۔ عدلیہ کے حق میں بہتر یہی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کیا جائے۔