’’مختصراً یہ کہ رحمان ملک چاہتے تھے کہ ہماری تحقیقات بس شروع ہوتے ہی مکمل ہوجائیں، اور ہم مزید کسی تفصیلی تفتیش میں نہ پڑیں۔‘‘ یہ تاثر تھا اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ Heraldo Munoz ہیرالڈو منوز کا۔ انہیں ان کی پہلی ملاقات میں ہی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ایک رپورٹ دی تھی اور کہا تھا : ’’یہ بالکل مکمل ہے، یہ آپ کی (کمیشن کی)رپورٹ ہے، جاری کرنے کے لئے تیار۔ ہاں، آپ جو ضروری سمجھیں،تبدیلی یا اضافہ کرلیں۔ ‘‘ کمیشن کے سربراہ اور ارکان یہ رپورٹ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ایک نظر ،میں منوز نے دیکھا کہ اس میں گواہوں کے بیانات، اسکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ کی سمری، جائے وقوعہ سے جمع کی گئی چیزیں، ججوں ، اسپیشل پراسیکیوٹرز اور صفائی کے وکلا کے نام ، وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ یہ رپورٹ، اقوام متحدہ کے کمیشن کے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی تیار تھی۔اس پر 20 جون 2009 کی تاریخ درج تھی۔ کمیشن جولائی میں پاکستان آیا۔ منوزکے مطابق، رحمان ملک نے پہلی ہی ملاقات میں انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ ان کی تحقیقات میں بہت پیش رفت ہوئی ہے اور پولیس نے ان چار لوگوں کو گرفتار کرلیا ہے جو بی بی کے قتل میں ملوث تھے اور انہوں نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔ ’’میرا خیال ہے اس دستاویز کو پڑھنے کے بعد آپ کا کام اور آسان ہوجائے گا‘‘ یہ کہتے ہوئے رحمان ملک نے ایک مجلد رپورٹ کمیشن کے سربراہ کے حوالے کردی اور کہا ’’یہ آپ کی ہی رپورٹ ہے،‘‘ یعنی آپ کیوں مزید زحمت کریں، بس یہیں اپنا کام ختم سمجھیں۔ منوز نے اپنی کتاب میں ایسی بہت سی باتیں لکھی ہیں، جو حیران کن بھی ہیں اور سنگین بھی۔ کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ کسی مرحلہ پر کمیشن کی رپورٹ کے علاوہ منوز کے تاثرات سے بھی تحقیقات میں مدد لی گئی یا نہیں۔ حالانکہ اگر سنجیدگی سے بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کوئی کرتا تو ان سب پہلوئوں پر نظر رکھتا۔ مگر ۔
ایک دہائی گزر گئی بے نظیر بھٹو کو قتل ہوئے، آج تک ان کے قاتلوں کو سزا نہیں ہو سکی۔ شاید کوئی ہاتھ ہی نہیں آیا، یا انہیں مفرور قرار دے دیا گیا۔ یہ ایک عام سا قتل نہیں تھا، ایک بہت مقبول سیاسی رہنما کو دن دہاڑے، بیچ چوراہے پر قتل کردیا گیاتھا، جائے واردات تھوڑی سی دیر میں ہی دھودی گئی، کیا تحقیقات ہوئی؟ کسے پتہ؟ عدالت نے دس برس سماعت کرنے کے بعد تحر یک طالبان پاکستان کے پانچ لوگوں کو بری کردیا، دو پولیس افسروں کو نااہلی اور لاپروائی کے جرم میں سزا سنائی، مگر وہ بھی رہا ہوگئے، اور حکومت نے اُن میں سے ایک کو اہم عہدے پر فائز بھی کردیا ۔ بے نظیر اس ملک کی ایک اہم، بلکہ بہت اہم شخصیت تھیں۔ انہیں کسی بھی مسلم ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا شرف حاصل تھا۔ اور دنیا میں ان کی ایک شناخت تھی۔ ان میں اور بھی بہت خوبیاں تھیں، خامیاں کس میں نہیں ہوتیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے قاتلوں کو آزاد چھوڑدیا جائے۔ اگر اتنی اہم شخصیت کے قاتل آزاد پھر رہے ہوں تو اس ملک کے تحقیقاتی اور عدالتی نظام کے بارے میں کیا کہا جائے۔
بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کئی مرحلوں اور کئی سطحوں پر ہوئی۔ پاکستان کے اپنے اداروں نے تفتیش کی، برطانیہ کے مشہور ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم آئی، اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعداس کی درخواست پر اقوام متحدہ نے بھی ایک کمیشن بنایا ۔کمیشن نے اپنی رپورٹ بھی دی، جسے پی پی پی کی حکومت نے مسترد کردیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کچھ حقائق مگر ایسے ہیں جو کم ہی سامنے آ پائے۔ مثلاً اقوام متحدہ کی ٹیم کو شروع ہی سے مشکلات کا، یا رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ منوز کی کتاب کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے کہ اس میں کئی سنگین باتوں کا تذکرہ ہے۔
اقوام متحدہ کی ٹیم کو خاموشی سے پاکستان آنا تھا، مگر ایسا ہوا نہیں۔ اپنی کتاب میں، منوز نے لکھا : ـ ـ’’بھٹو کمیشن کی مواصلات کسی نامعلوم پارٹی نےintercept کر لی ہیں۔ـ‘‘ یہ بات ان کے چیف آف اسٹاف مارک کوارٹر مین نے 14جولائی کو ٹیم کی پاکستان روانگی سے چند گھنٹے پہلے انہیں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے ایک ذریعہ نے ان سے فوری طور پر رابطہ کیا ہے اور یہ اطلاع آپ تک پہنچانے کو کہاہے۔ جس کسی نے ہماری الیکٹرونک میل میں دخل دیا ہے وہ اسلا م آباد میں ہمارے ایجنڈے سے واقف ہے۔‘‘ اس کی اطلاع اقوام متحدہ کے سیکورٹی اور سیفٹی محکمے کو دی گئی۔ محکمے کا خیال تھا کہ پاکستان روانگی ملتوی کردی جائے۔ مگر منوز نے کہا وہ پاکستان ضرور جائیں گے۔ جس پر محکمہ راضی ہو گیا۔ یہاں پاکستان میں منوز اور ان کی ٹیم اسلام آباد میں سندھ ہائوس میں ٹھہرائے گئے۔ حالانکہ، ان کے خیال میں، پنجاب ہائوس زیادہ بہتر تھا۔ مگر ان سے کہا گیا کہ سندہ ہائوس زیادہ محفوظ ہے۔ ٹیم کی پاکستان آمد خفیہ رکھی گئی تھی۔ اور کہا یہ گیا تھا کہ کسی کو ان کے بارے میں پتہ نہیں ہے۔ مگر سندھ ہائوس میں ان کے پہنچنے کے چند ہی گھنٹوں بعد وہ یہ جان کر پریشان ہو گئے کہ سندھ ہائوس میں انگریزی سے ناواقف باورچی کو اسلام آباد میں ان کے ایجنڈے کے بارے میں تفصیل سے معلوم تھا۔ ان کے استفسار پر کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا گیا، سوائے اس کے کہ باورچی کو پتہ ہونا چاہئے کہ آپ لوگ کب آس پاس ہونگے تاکہ کھانا وغیرہ تیار کرسکے۔
رحمان ملک کے بارے میں مسٹر منوز نے لکھا ہے کہ ان سے ٹیم کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے۔ انہوں نے کبھی بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت اپنے کرادر اور عمل کے بارے میں کسی سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں دیا۔ ٹیم نے اگر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ حملے کے وقت جائے واردات سے ان کی گاڑی کا فاصلہ کتنا تھا تو رحمان ملک پریشان سے ہو گئے۔ ویسے، منوز کے مطابق، رحمان ملک بڑے ملنسار تھے ا ور ہر دفعہ ہمارے لئے تحفے لے کر آتے تھے، حالانکہ ہم نے انہیں بار بار بتایا کہ اقوام متحدہ کی اخلاقیات کے مطابق ہم کوئی تحفہ قبول نہیں کرسکتے۔
منوز نے اور بھی بہت انکشافات کئے ہیں۔ ایک بار ٹیم نے جائے واردات کا معائنہ کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر ان پر ریڈ زون سے باہر جانے پر پابندی تھی ۔ انہوں نے ایک دن، بظاہر ہیلی کاپٹر سے بعد دوپہر وہاں جانے کا پروگرام بنایا۔ یہ بات انہوں نے اپنے ایجنڈے میں بھی شامل کردی۔ مگر وہ صبح پانچ بجے گاڑیوں میں روانہ ہوئے تاکہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے اور پریس والے بھی واقف نہ ہوںجو ہروقت ان کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ جب ٹیم لیاقت باغ پہنچی تو پولیس نے کوئی دو بلاک گھیرے ہوئے تھے اور پولیس کے پیچھے کچھ لوگ کھڑے تھے۔
ٹیم کے ایک رکن نے منوز سے کہا، یہ اخبار والے ہیں۔ درحقیقت وہاں موجود لوگوں کے پاس کیمرے اور ٹیلی فوٹو لینس نظر آرہے تھے۔ کسی نے پریس کو ٹیم کی لیاقت باغ آمد کے صحیح وقت سے مطلع کردیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ٹیم کی سرگرمیوں کے بارے میں بعد میں بھی خفیہ اطلاعات ’لیک‘ ہوتی رہیں۔ ایک مرحلہ پر اقوام متحدہ کے سیکورٹی محکمے نے، بعض خطرات کی اطلاعات کے بعد، کمیشن سے نومبر 2009 کا دورہ ملتوی کرنے کو کہا۔ کمیشن نے بات مان لی۔ اس کے فوراً بعد پاکستانی اخبارات میں ان کے دورہ ملتوی کرنے پر تفصیلی مضامین شائع ہوئے۔ ان میں ایک ایسے خفیہ خط کے مندرجات کا بھی حوالہ تھا جو کمیشن نے پرویز مشرف کا انٹرویو کرنے کے لئے حکومت پاکستان کو لکھا تھا۔ کچھ اور مشکلات کا بھی منوز نے تذکرہ کیا ہے۔ کمیشن کے تیسرے دورے سے پہلے ان سے سندھ ہائوس استعمال کرنے کا اجازت نامہ واپس لے لیا گیا، بظاہر گورنر سندھ کے کہنے پر۔ کمیشن نے رحمان ملک سے شکایت کی جس کے بعد سندھ ہائوس پھر ان کے حوالے کردیا گیا۔ کمیشن کے ایک رکن، انڈونیشیا کے مرزوکی دارُسمان کو جکارتہ سے پی آئی اے کی جس پرواز سے اسلام آباد آنا تھا وہ منسوخ کردی گئی۔ لہٰذا وہ تیسرے دورے میں شریک نہیں ہو سکے۔
اور ایک حیران کن بات یہ بھی کہ 10 فروری 2009 کو منوز کو کمیشن کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ابھی اس کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس سے ایک ہفتے پہلے ہی، اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر نروپم سین نے ایک خبر ایجنسی کو بتادیا تھا کہ چلّی کے ہیرالڈو منوز اس کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ رازداری اگر کوئی تھی، اور اب تک ہے، تو صرف یہ کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں؟ اس راز سے شاید ہی کبھی پردہ اٹھے۔ ویسے بھی کس کو دلچسپی ہے کہ اصل قاتل کیفر کردار تک پہنچیں۔