زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، اصول اور ضابطوں کا پابند ہے۔ صحافت مستثنیٰ نہیں ہے۔ بلکہ شاید اس سے وابستہ افرادپر دوسروں سے کچھ زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اور اب کہ معاملہ اخبار سے آگے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا تک آ گیا ہے، ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی پہنچ بہت زیادہ ہے۔ پورے ملک کے اخبار اگر چند لاکھ لوگ پڑھتے ہیں تو ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ نتیجتاً اس کا اثر بھی زیادہ ہے، اور یہ متاثر بھی ایک بہت بڑی تعداد کو کرتا ہے۔ اس لئے اس شعبہ کو اصول اور ضابطوں کا پابند ہونا بہت ضروری ہے۔
اور یہی سب سے زیادہ افسوسنا ک بات ہے۔ اس شعبہ میں اصول اور ضابطے بعض دوسرے مفادات کے تابع ہو گئے ہیں۔ ٹی وی کچھ اتنی تیزی سے ملک میں آیا کہ اس کی تربیت اور دیکھ بھال صحیح طرح نہیں ہوسکی۔ اخبارات میں صحافیوں کی تربیت کا ایک طریقہ تھا، ایڈیٹر کی براہ راست نگرانی میں سب لوگ کام کرتے تھے۔ جو زیادہ خوش قسمت ہوتے انہیں ایک زیادہ باریک بیں ایڈیٹر کی سرپرستی حاصل ہوجاتی۔ رپورٹر سے لے کر سب ایڈیٹر اورنیوز ایڈیٹر سب کی تربیت ایڈیٹر کے ہاتھوں ہوتی، غلطیوں کی اصلاح کی جاتی، انہیں بتایا جاتا کیا غلط ہے اور کیوں۔ پوری کوشش ہوتی کہ غلط خبر شائع نہ ہو پائے۔ پھر بھی ہوجاتی تھیں،کہ انسان غلطی کا پتلا ہے۔ مگر اس پر معذرت کی جاتی۔ یہ معذرت تو عوام کے لئے ہوتی، غلطی کرنے والے کو دفتر میں جوابدہی کرنی پڑتی اور خاصا نکّو بنایا جاتا۔ رپورٹر کو سمجھایا جاتا کہ کیا غلطی ہوئی ہے، اور دوسرے ذمہ داروں کو بھی جواب دینا پڑتا کہ یہ غلطی کیسے شائع ہو گئی۔ ان دنوں سارے ایڈیٹر سخت مزاج لگتے۔ یہ بات تو بعد میں سمجھ میں آتی کہ اس بھٹی سے گزر کر ہی سونا بنا جا سکتا ہے۔جن لوگوں نے ایسے ایڈیٹروں کے ساتھ کام کیا ہے، وہ انہیں یاد رکھتے ہیں۔ غلطیاں اِن سے ا ب بھی ہوتی ہوں گی، مگر انہیں شرمندگی بھی ہوتی ہوگی۔ اِن کی تربیت اسی طرز پر ہوتی تھی۔
اب معاملہ بالکل مختلف ہے۔ کسی بھی قسم کی کوئی تربیت نہیں ہے۔ اسی لئے آئے دن مسائل سامنے آتے ہیں۔ اسی لئے یہ بھی ہوتا ہے کہ جس کو کوئی موقع مل جائے وہ اس سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ ایک اینکر نے حال ہی میں تمام حدود پار کرلیں۔ انہوں نے ایک معصوم بچی کے قاتل کے بہت سے بینک اکائونٹ کی تعداد اپنے ٹی وی پروگرام میں نشر کردی۔ ایسا انہوں نے پہلی مرتبہ نہیں کیا۔ وہ آئے دن غلط بیانیاں کرتے ہیں اور اسی لئے ’’مشہور‘‘ ہیں۔ وہ پاکستان میں ہوٹل کے ایک کمرے میں بیٹھ کر غزہ جانے والے امدادی جہاز پر گزرنے والے اسرائیلی ستم کی تفصیل بیان کرسکتے ہیں۔ پیش گوئیاں کرنا ان کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ پوری نہ ہو تو ان کا کوئی قصور نہیں۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر بیان کردیں، مولانا محمد علی جوہر کو بیت المقدس کی بجائے جزائر انڈیمان میں دفن کروادیں، ان کی صحت پر اثر پڑتا ہے نہ کسی اور کی۔ کوئی ان سے پوچھنے والا ہی نہیں تھا۔ اس مرتبہ، البتہ، سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، معاملہ ہی اتنا سنگین ہے۔ ایک معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی اور اسے قتل کردیا گیا۔ قصور بپھر گیا، ملزم کی گرفتاری کے لئے احتجاج ہوا، دو مزید افراد اپنی جان سے گئے۔بالآخر ملزم پکڑا گیا۔ ابھی تحقیقات ہو رہی ہیں ۔ حقیقت کچھ دنوں میں سامنے آجائے گی۔ مگران صاحب کو ہمیشہ کی طرح جلدی تھی۔ ایک بے بنیاد خبر انہوں نے نشر کردی۔ ملزم کا تعلق مجرموں کے ایک بین ا لاقوامی گروہ سے جوڑ دیا۔ سپریم کورٹ نے طلب کر لیا۔ وہ ملزم کے بینک اکائونٹ کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس، اسٹیٹ بینک کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا کسی بینک میں کوئی اکائونٹ نہیں ہے۔ معاملہ اس لئے زیادہ سنگین ہے کہ کوئی گروہ پاکستان میںضرور موجود ہے جو بچوں کی نازیبا فلمیں بناتا اور غیر ممالک میں فروخت کر تا ہے۔ مگر کیا اس بچی، زینب، کا قاتل بھی ان میں سے ہے یا نہیں، یہ تو تحقیق کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ اس مرحلے پر اس طرح کی بے بنیاد اطلاع عوام میں پھیلانا قابل مذمت ہے ۔ پورے ملک میں اس پر ردعمل ہوا۔ عدالت نے صحافیوں کو بلا کر ان سے مدد طلب کی۔ بنیادی بات یہی سامنے آئی کہ کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہئے۔ کچھ دوستوں نے ان صاحب کی مدد کرنے کی کوشش کی کہ ا گر یہ معافی مانگ لیں تو انہیں معاف کردیا جائے۔ عدالت شاید انہیں معاف کر بھی دیتی۔ مگر وہ بضد ہیں۔ بلا ثبوت اپنی خبر پر قائم ہیں۔ انہیں اس خبر کو تحقیقات کے دوران پھیلانے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ہے۔ انہوں نے معافی نہیں مانگی۔ ثبوت ان کے پاس ہیں نہیں۔ ابھی اس مقدمہ پر سپریم کورٹ مزید کارروائی کرے گی۔ اور کرنی بھی چاہئے۔ اگر یہ صاحب ثبوت نہ دے سکیں، اپناالزام ثابت نہ کرسکیں، جو یہ نہیں کر پائیں گے، تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اس میں کیا حرج ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے۔ کوئی بھی ہو اگر گرفت میں آتا ہے تو قانون اپنا راستہ لے، اسے اپنا راستہ لینے دینا چاہئے۔ عدلیہ اس ملک کے عوام پر ایک احسان عظیم کرے گی اگر وہ ذرائع ابلاغ کو کوئی ضابطہ اخلاق اپنانے پر راضی کرلے۔ اس کی بڑی شدید ضرورت ہے۔ اس کے بغیر معاملات مزید بگڑتے رہیں گے، بگڑ سکتے ہیں۔
اور ذرائع ابلاغ کو تو شاید کسی طرح سیدھی راہ پر لایا جا سکے۔ یہ جو نام نہاد سوشل میڈیا ہے۔ اسے لگام دینا پڑے گی۔ اس پر تو کوئی پابندی ہی نہیں ہے۔ مادر پدر آزاد شاید اسی کے لئے کہا گیا۔ وہ ایک شخص ہے سلمان حیدر، اور ایک اور بھی ہے وقاص گورایا۔ یہ کچھ دن پہلے غائب ہو گئے تھے۔ کہا گیا انہیں اٹھالیا گیا تھا۔ ان پر توہینِ رسالت کاالزام تھا۔ ذرائع ابلاغ نے ان کا مقدمہ لڑا، صحیح یا غلط، کون جانے۔ ان پر توہین رسالت کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ایک اور بات بھی تھی جس کا تذکرہ کم ہوا۔ ان میں سے ایک شخص بیرونِ ملک مشرق وسطیٰ میں لڑنے والے بھرتی کیا کرتا تھا۔ مرنے والوں کے خاندانوں کی کفالت بھی اس کے ذمہ تھی۔ اس کا پتہ نہیں کیا ہوا۔ یہ بہر حال واپس آگئے۔ اب گورایا کا یہ عالم ہے کہ اس نے ایک ٹوئٹ کیا جس میں زینب کے باپ کے لئے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے۔ اس کے جواب میں سلمان نے مزید سنگین الفاظ استعمال کئے۔ ان کا کہنا ہے کہ زینب کا باپ اپنی مری ہوئی بیٹی کی لاش پر سیاست کررہا ہے۔ کئی دوسری ٹوئٹس میں بھی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے۔ یہ کہنے کو سول سوسائٹی کے فرد ہیں۔ انسانیت ان میں جتنی ہے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک معصوم، مری ہوئی بچی کے باپ سے ہمدردی کی جانی چاہئے۔ ہوسکتا ہے وہ کسی جماعت سے وابستہ ہو۔ مگر اس کا یہ مطلب کہاں ہوا کہ وہ اپنی بچی کی لاش پر سیاست کررہا ہے۔ سوگوار باپ پر اس طرح کے سنگین الزامات لگانا ان نام نہاد سول سوسائٹی کے لوگوں کا ہی شیوہ ہوسکتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ کل جو میڈیا ان کی رہائی کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے تھا، اب سویا ہوا ہے۔ اس وقت انہیں ایک موقع ملا تھا توہین رسالت کے قانون کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کرنے کے لئے۔ خوب کیا۔ اب ایسا کوئی موقع نہیں۔ اخلاق سول سوسائٹی کو کون سکھائے۔ یہ تو اس میڈیا کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سے درخواست کی جا سکتی ہے۔ جب اس اینکر کا مقدمہ چلے ان لوگوں کو بھی بلایا جائے، اور ان سے بھی ان کے لگائے گئے الزامات کے ثبوت مانگے جائیں۔ نہ دے سکیں تو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہے۔