مختلف زبانوں میں مختلف محاورے مندرجہ ذیل پر متفق ہیں مثلاً
”قرض سے موذی مرض کوئی نہیں“
”قرض کمر توڑ دیتا ہے“ (عربی)
”قرض زندہ کیلئے قبر ہے“ (عربی)
”قرض رشتوں کیلئے قینچی ہے“ (عربی)
”مقروض ایسا مقتول ہے جو سانس لے رہا ہوتا ہے“ (فرانسیسی)
”قرض حسنہ بھی ہنسنا بھلا دیتا ہے“
”چور کیلئے کھانسی سادھ کیلئے قرض موت سے کم نہیں“
”قرض خواہ کی رام رام بھی یمدود کا پیغام ہے“ (ہندی)
”عورت ایمان، دولت گزران، بیٹا نشان اور قرض ہیجان“
”قبر پر قبر نہیں بنتی یعنی مقروض کو کوئی قرض نہیں دیتا“
”جس کا ہووے سودی یار اس کو دشمن کیا درکار “ (سنسکرت)
”بھوک نیامت (نعمت) قرض قیامت“ (پنجابی)
”نہ قرض خواہ بنئے نہ مقروض “ (شیکسپیئر)
”ملک الموت قرض خواہ کی صورت میں بھی ملتا ہے“ (فرانسیسی)
”جو مقروض نہیں وہ مفعول نہیں“ (جرمن)
”القرضخواہ : ملک الموت بے اجل“
”المقروض مذبوح “ (قرض دار ذبح کیا ہوا ہے)
”القرض مقراض المحبة“ (قرض محبت کی قینچی ہے)
”القرض مفتاح الذّلّ“ (قرض ذلت کی کنجی ہے)
”الید العلیا خیرٌ مِّنَ الیدِ السفلٰی“ (اوپر والا ہاتھ نیچے والے سے بہتر ہے)
”قدرت کا انتقام چار صورتوں میں سامنے آتا ہے قحط، وبا، جنگ اور قرض“ (روسی )
”یہ چند چیزیں جہنم سے کم نہیں ، لا علاج مرض، کرپٹ حکمران، جاہل علماء ، بدکار ہمسایہ، غصیلا گنوار، عوام دشمن عہدیدار اور کمینہ قرض خواہ“
”بیٹے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ پوت، سپوت، کپوت پوت وہ جو وراثت برقرار رکھے، سپوت وہ جو اس میں اضافہ کرے اور کپوت وہ جو قرض اٹھانے پر مجبور ہو جائے“ (سنسکرت)
”چار چیزوں کی قلت ہی بہتر ہے قلت الطعام، قلت المنام، قلت الکلام اور قلت القرض“ (یعنی قرض ہو بھی تو وقتی کم)
”غلطی چار قسم کی سہواً ، عمداً، خطا ً اور قرضاً
”شبنم کنواں نہیں بھر سکتی قرض پیٹ نہیں بھر سکتا “ (پراکرت)
”جو اپنی جیب سے قرض ادا نہیں کر سکتا اپنی کھال سے ادا کرتا ہے“ (چینی)
”بھوکا سو رہنا مقروض ہو کر اٹھنے سے سو گنا بہتر ہے“ (چینی )
قارئین !
معاف کیجئے میری ذہنی رو بہک گئی کہ ابھی تو بیسیوں محاورے باقی ہیں جبکہ کالم کالم ہوتا ہے پی ایچ ڈی کا تھیسس نہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرض فرد واحد پر ہو یا کسی قوم پر لعنت ہے، ذلت ہے، اذیت ہے لیکن ایک قرض بہت ہی خوبصورت ہے اور وہ ہے کسی خوبصورت کتاب کا قرض جبکہ آج مجھے ایسے ہی چند خوبصورت قرض چکانے ہیں جیسے سہیل وڑائچ کی کتاب ”قاتل کون؟“ کا قرض جس کا سندھی ترجمہ بھی شائع ہو چکا، سلمیٰ اعوان کے سفرنامہ روس کا قرض GEORGE FRIEDMAN کی کتاب "THE NEXT HUNDRED YEARS" کا قرض اور مجاہد بریلوی کی کتاب ”جالب جالب“ کا قرض کہ یہ ساری کتابیں اپنے اپنے مخصوص حوالوں کے ساتھ کسی شہکار اور یادگار سے کم نہیں۔
سہیل وڑائچ غیر معمولی جرنلسٹ اور ”میرے مطابق“ میں میرا ”پارٹنر“ بھی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل پر اس کی تحقیقاتی تخلیق کسی شہکار سے کم نہیں۔ کاش ہمارا پرنٹ میڈیا خصوصاً نوجوان صحافی اس کے نقوش قدم پر چلیں اور زندگی میں شارٹ کٹ سے اجتناب کریں۔ دوسری طرف اک دنیا دیکھی لیکن کبھی روس دیکھنے کی خواہش ہی بیدار نہ ہوئی۔ سلمیٰ اعوان کا سفرنامہ پڑھ کر پہلی بار زاروں کی سرزمین کے سفر کا سوچ رہا ہوں اور شاید یہ کام سلمیٰ اعوان ہی کر سکتی تھی۔ سلمیٰ اعوان کا یہ سفر نامہ پڑھ کر خیال گزرا کہ مرد حضرات کے لئے سفرناموں پر بین لگ جانا چاہئے کیونکہ یہ جہاں بھی جاتے ہیں ایک من گھڑت داستان چھوڑ آتے ہیں جس میں کوئی گوری ان کے لئے زندہ درگور ہونے کو تیار ہوتی ہے اور کوئی حبشن یعنی کالی انہیں کبھی جن جپھا نہیں ڈالتی۔
اور جہاں تک تعلق ہے GEORGE FRIEDMAN کی حیرت انگیز تخلیق "THE NEXT 100 YEARS" کا جس کے ساتھ یہ پخ بھی لگی ہوئی ہے "A FORECAST FOR THE 21ST CENTURY" تو سبحان اللہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔ کتاب کس پائے کی ہے؟ اس کا اندازہ ”نیو یارک پوسٹ “ کے اس تبصرہ سے ہو سکتا ہے
"FASCINATING BECAUSE OF ITS DISMISSAL OF THE CONVENTIONAL WISDOM"
کیونکہ میں خود بھی روایتی قسم کی گھسی پٹی، رٹی رٹائی اور چغلی چغلائی لنڈے کی دانش سے بیزار آدمی ہوں اور میرے نزدیک اگر ”خیال “ ہی اوریجنل اور خالص نہیں تو تحریر ایسے باسی کھانے کی مانند ہے جس سے ”فکری فوڈ پوائزننگ“ کا خطرہ ہو۔ روایتی قسم کی بات پڑھ یا سن کر مجھے تو متلی ہونے لگتی ہے کیونکہ بزرگوں نے بچپن میں ہی سمجھا دیا تھا کہ تحریر سمیت کوئی بھی فن تب تک توجہ کے قابل نہیں ہوتا جب تک اس میں اول سادگی، دوم برجستگی اور سوم اوریجنیلٹی نہ ہو اور اس کتاب میں تینوں عروج پر ہیں۔ یہ کتاب ”فن فکر“ یعنی "ART OF THINKING" کی بے حد عمدہ مثال ہے۔
اور آخر میں مجاہد بریلوی کی ”جالب جالب“ نے نجانے کتنے بھرے زخم ہرے کر دیئے اور سوئے گھاؤ پھر سے جگا دیئے۔ کمال یہ ہے کہ جالب کی آپ بیتی پڑھ کر آپ جالب کو اتنا نہیں جان سکتے جتنا ”جالب جالب“ پڑھ کر جالب کو سمجھ سکتے ہیں۔ جالب لائل پور میں قیام کے دوران ہمارے گھر میں بھی رہے۔ تب میں بہت چھوٹا تھا، دو باتیں یاد ہیں ایک میرے والد مرحوم و مغفور کی پیار بھری ڈانٹ کہ ”جالب! دیر سے کیوں آتے ہو؟“ دوسری جالب صاحب کی ایک عجیب حرکت کہ پتلون تہہ کر کے ”وتر“ لگا کر تکیے کے نیچے رکھ کر سوتے اور اس خاتون کے والد سے میں نے ٹیوشن بھی پڑھی جس کی یاد میں جالب نے لکھا تھا
”لائل پور اک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد“
”کیسی کیسی صورتیں خاک میں پنہاں ہو گئیں‘ ‘ لیکن کتابیں اور کتابوں والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
کتابوں کا قرض چکا کر ہلکا پھلکا ہو گیا ہوں … بالکل شانت جیسے صبح کاذب !