کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)کوئٹہ میں20ہزار سے زائد بچے مختلف گیراجوں ،ہوٹلوں اور سمال انڈسٹریز میں کام کررہے ہیں جبکہ سینکڑوں بچے غربت اور پسماندگی کے باعث رضاکارانہ طور پر جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں ذرائع کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں اس وقت مختلف مقامات پر عیاش افراد نے باقاعدہ فلیٹس حاصل کر رکھے ہیں جہاں معاشرے کے پسے ہوئے غریب بچوں کو بہلا پھلسا کر ان سے مذموم جنسی مقاصد پورے کئے جاتے ہیں ۔سول سوسائٹی نےبلوچستان میں بچوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تشویش کا اظہا ر کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حقوق اطفال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی کی جائے تاکہ ملک کے روشن مستقبل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے اس کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو ایک تحریک کی شکل میں کام کرنا ہو گا تاکہ بچو ں کے حقوق کے حوالے سے آوازکو ہر پلیٹ فارم سے بلند کیا جا سکے ۔جنگ سروے میں سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بتایاکہ ملک میں اس وقت بچوں کے حقوق کی صورتحال انتہائی خراب ہے جبکہ بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام اور عدم توجہی کے رویوں کے باعث یہ مسئلہ گھمبیر ہوتاجارہا ہے صوبے میں ایسے قوانین کا فقدان ہے جس سے نظام انصاف کے آرڈیننس نو عمروں کے لئے خصوصی عدالت یا بورسٹل ادارے کے قیام میں معاونت حاصل ہوسکے اور قانون کے تنازعمیں الجھے ہوئے بچوں کو دوران حراست تربیتی ماحول فراہم کیا جاسکے بلوچستان میں بچوں کی تعلیم کا شعبہ نظر انداز ہورہا ہےانہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر کی شرح میں بھی تشویشناک تک اضافہ ہورہا ہے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں20ہزار سے زائد بچے مختلف گیرجوں ،ہوٹلوں اور سمال انڈسٹریز میں کام کررہے ہیں جبکہ سینکڑوں بچے غربت اور پسماندگی کے باعث رضاکارانہ طور پر جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں بچوں کی گھریلومزدوری کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے اکثر اوقات گھریلو مزدوری کرنے والے بچوں پر مالکان کی جانب سے بھی تشدد کے بہت سے واقعات سامنے آرہے ہیں اور اب ان واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ہم چاہتے ہے کہ حقوق اطفال کے تحفظ کا مسئلہ صوبائی حکومت کے ایجنڈے میں شامل کرے تاکہ ان واقعات میں کمی لائی جاسکے اس تمام صورتحال کے پیش نظر بلوچستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ بچوں کے حقوق کے تحفظ میں ہی ایک روشن ،مستحکم اور ترقی یافتہ پاکستان کا خواب پوشیدہ ہے ۔