اعلیٰ عدالتوں کا اپنا مزاج ہوتا تھا۔ خوف سے ملتا جلتا احترام۔ عدالت میں داخل ہوتے تو خیال رکھتے شور نہ ہو، خاموشی سے کسی ایک کونے میں کھڑے ہوجاتے۔ کبھی جگہ مل جاتی تو بیٹھ جاتے۔ سماعت کے دوران عدالتی کمرے میں آنے جانے سے گریز کرتے۔ وقفہ ہوتا تو پہلے جج اپنے چیمبر میں جاتے ، پھر وکلا اور صحافی اور دوسرے لوگ باہرنکلتے۔ ججوں کی واپسی سے پہلے کمرہ عدالت میں واپس آجاتے۔ آپس میں سرگوشیوں سے بھی گریز کرتے۔ چیف جسٹس کا تو رعب کچھ زیادہ ہی ہوتا،حالانکہ عدالت میں کبھی دیکھا نہیں کہ جسٹس طفیل علی عبدالرّحمان نے کسی کوڈانٹا یا تنبیہ کی ہو۔ بہت بعد میں جسٹس صبیح الدین بابر پہلے جج اور پھر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہو گئے۔ ان سے پرانے، بہت پرانے تعلقات تھے۔ دوستی تھی۔ وہ جناب خالد اسحاق کے بھانجے تھے، انہیں کے یہاں سے بابر صاحب نے قانونی پریکٹس شروع کی تھی۔ میں خالد صاحب کے ہاں کام کیا کرتا تھا۔ ملتے جلتے رہتے تھے۔ ایک مقدمہ میں بابر صاحب میرے وکیل بھی رہے تھے۔ ایک بلڈر نے توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کردیا تھا۔ تین سال چلتا رہا۔ ہم دونوں صبح سندھ ہائی کورٹ پہنچتے، دوپہر تک انتظار میں کھڑے رہتے، سماعت کبھی ہوئی نہیں۔ غیر قانونی تعمیرات ایک حکم امتناعی کے سہارے ہوتی رہیں۔ تین برس بعد مقدمہ ختم ہوا۔ بابر صاحب کے پاس میںخبروں کے قانونی پہلوئو ں پر بات کرنے کے لئے جاتا، وہ ہمیشہ دوستوں کی طرح بحث مباحثہ کرتے، قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیتے، خبر کو اس حوالے سے بھی دیکھتے۔ یہ تعلقات ان کے بے وقت انتقال تک برقرارہے۔ درمیان میں ایک وقفہ آیا، ان کے جج بننے کے بعد۔ ججوں کااحترام مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ جج بنے تو میں نے ملنا جلنا کم کردیا۔ ایک دن کسی تقریب میں ملاقات ہوئی، کہنے لگے آپ آتے نہیں۔ ان کے جج بننے کا حوالہ دیا تو فرمایا، اگر آپ کسی وکیل سے ملتے تھے تو مت آئیں، دوست کے پاس آتے تھے تو آئیں۔ پھر ان کے پاس ایک دوست کی حیثیت سے آتا جاتا رہا۔ وہ سندھ کے چیف جسٹس ہو گئے تو بھی آنا جانا رہا۔ احترام کا ایک خیال بہ ہر حال رہتا تھا۔ ان کی بے تکلفی ہمیشہ کی طرح دوستانہ اور ہمدردانہ رہی۔ کبھی لگا نہیں کہ کسی چیف جسٹس سے ملنے جا رہا ہوں، یا مل کے آیا ہوں۔ دوستوں کے درمیان کوئی تکلف نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ اسی طرح پیش آتے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے نئے پاکستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک متفقہ آئین بن گیا۔ مگر بھٹو نے آئین بننے کے فوراً بعدہی ہنگامی حالات نافذ کردئیے، بنیادی حقوق معطل ہوگئے اور ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مخالفین کو نظربند کیا جانے لگا۔ یہ نظربندیاں سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی جاتیں، مختلف بنچوں میں ان درخواستوںکی سماعت ہوتی۔ خبر نگاروں کا ایک پورا گروپ تھا۔ مختلف عدالتوں میں مقدموں کی کارروائی سنتے، جو پہلو تشنہ رہ جاتے، بات سمجھ میں نہیں آتی تو وکلا سے بعد میں پوچھ لیتے۔ پھر سب اخبارنویس آپس میںخبروں کا تبادلہ کرتے، یوں عدالت کی کارروائی کی رپورٹنگ ہوتی۔ یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ججوں کے ایسے ریمارکس شائع ہوئے ہوں جوکسی بھی حلقے کے لئے اعتراض کا باعث بنے ہوں۔ گفتگو ہوتی تھی، سوال جواب ہوتے تھے۔ مگر ان کا تعلق زیر سماعت معاملے سے ہی ہوتا تھا۔ غیر متعلق بات چیت اور تبصروں سے جج گریز کرتے تھے، لگتا یہی تھا۔ بھٹو کی حکومت میں عدالتوں نے شاید ہی کسی سیاستدان کی نظر بندی ، یا اخبار کی بندش جائز قرار دی ہو۔نظربندی غیر قانونی قرار پاتی، اخبار کی بندش ختم کردی جاتی۔ حکومت کا مگر اپنا رویہ تھا۔ اِدھر عدالت نے کسی نظربند کو رہا کیا، اُدھر نظربندی کے نئے احکامات جاری کردئیے گئے۔ نظربند کو اکثر جیل کے باہر سے ہی دوبارہ گرفتار کرلیا جاتا، یوں نظربندی کے خلاف ایک نئی درخواست دائر کرنا پڑتی۔بہت سارے لوگوں کی نظربندی کے خلاف متعدد نئی درخواستیں دائر ہوئیں۔ ایک مقدمہ میں البتہ کچھ مختلف ہوا۔ معاملہ جب عدالت کے علم میں لایا گیا تو جسٹس نورالعارفین نے ، ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، (There should be some rule for detention.) نظربندی کا کوئی طریقہء کار ہونا چاہئے۔ میں اُن دنوں پی پی آئی میں رپورٹر تھا۔ تفصیلی خبر اخبارات کو بھیجی۔ انگریزی اخبار ’دی سن‘ کے ایڈیٹر، شمیم احمد ایک بہت باریک بیں صحافی تھے۔ انہوں نے اگلے دن شہ سرخی لگائی، There should be some rule for detention: COURT SAYS. عدالت میں ایڈوکیٹ جنرل سندھ، عبدالحفیظ میمن نے اعتراض کیا اور کہا کہ ججوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ جسٹس نورالعارفین نے (غالباً ٹالنے کے لئے) کہا ’ یاد نہیں پڑتا ‘۔ عدالت، ایڈوکیٹ جنرل کی درخواست پر اخبار کے رپورٹر کو بلاتی رہی۔ وہ تو تھا نہیں۔ میں نے خود کو پیش نہیں کیا کہ میں تو ایک نیوز ایجنسی کا رپورٹرتھا۔ مگر بعد میں ہم سب رپورٹر جسٹس نورالعارفین کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا کہ انہوں نے کس مرحلہ پر یہ بات کہی تھی۔ آج جب ججوں کے جملوں نے اس ملک میں ایک ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے، ان کا جو جی چاہتا ہے کہتے ہیں، دوسرے سب حدود پھلانگ کر جواب دیتے ہیں، یا کچھ دن بعد ججوں کو اپنے جملوں کی وضاحت کرنی پڑتی ہے اور واپس لینے پڑتے ہیں، تو جسٹس عارفین کی بات یاد آگئی۔ فرمایا ’’ٹھیک سے کچھ یاد نہیں پڑتا۔ ویسے بھی عدالت میں سماعت کے دوران بہت سی باتیں ہوتی ہیں، سب تو خبر نہیں ہوتیں۔‘‘ خود اپنے بارے میں انہوں نے کہا، ’’جج بننے کے بعد ایک کم تر درجے کی سگریٹ پیتا ہوں۔ سستی ہے۔ جب وکیل تھا مہنگی سگریٹ پیتا تھا۔ اب نہیں پی سکتا۔ رہا معاملہ توہین عدالت کا۔ تو بھئی، I will be the last person to issue any contempt notice.اس کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ ہم نے سادہ لوحی کی راہ اختیار کرنا بہتر سمجھا، عرض کی کہ ہم میں سے کوئی ماہر قانون نہیں ہے۔ جسٹس عارفین نے ایڈوکیٹ جنرل کو بلوایا اور ان سے کہا کہ وہ صحافیوں کو عدالت میں ہونے والی کارروائی کے بارے میں بتایا کریں تاکہ بعد میں شکایت نہ ہو۔ یوں بات ختم ہوگئی اور رپورٹنگ اسی طرح جاری رہی جس طرح ہوتی تھی۔ فقرے بازی ججوں کی طرف سے اتنی زیادہ تھی ہی نہیں کہ ان کی خبر بنتی۔ خبر بنانے کے لئے ایک اور طریقہ تھا۔ نظربندوں کے وکلا، اکثر ہمارے دوست یا واقف کار تھے، ان کے قانونی دلائل شروع ہونے سے پہلے، ان سے ایک آدھ جملہ حکومت کے خلاف کہلوا لیا کرتے تھے۔ وہی اگلے دن کی بڑی خبر ہوتی۔ باقی باتیں تو کتابی یا قانونی موشگافیاں ہوتیں۔ ان کا تذکرہ تو ہوتا، مگر عام لوگوں کے لئے ان میں دلچسپی کم ہوتی تھی۔ حکومتی اہلکار، خاص طورپر گورنر وغیرہ بہت ناراض ہوتے، دفتروں میں شکایت کرتے، مگر وہ ایک بہتر دور تھا، کون کان دھرتا۔
وہ دن یاد آتے ہیں تو اور بھی بہت کچھ یاد آتا ہے۔ طفیل علی عبدالرحمان کا تقرر، بھٹو نے براہ راست کیا تھا۔ اس وقت ابھی یہ طے نہیں ہوا تھا کہ سب سے سینئر جج ہی چیف جسٹس بنے گا۔ اس لئے حکومت اپنی مرضی سے کسی بھی وکیل کو اس عہدے پر فائز کرسکتی تھی۔ طفیل علی عبدالرحمان کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ نے انصاف کا علم بلند رکھا۔ بھٹو کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ ایک دن انہیں ائیرپورٹ بلوایا۔ سینئر وکلا نے بعد میں بتایا کہ بھٹو نے چیف جسٹس سے کہا کہ کیا انہوں نے کوئی الگ حکومت بنا لی ہے ۔ ’’میں پکڑتا ہوں، تم چھوڑ دیتے ہو‘‘، بھٹو نے ان سے کہا۔جسٹس عبدالرحمان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان کی عدلیہ حکومت کے دبائو میں نہیں آئی، اور مظلوموں کو انصاف فراہم کرتی رہی۔ بھٹو کے بہت سے چاہنے والے ان کی ’جمہوریت‘ کے بڑے شیدا ہیں۔ بھٹو نے جسٹس صاحب کے گھر تک سڑک کھدوادی، تعمیر کے نام پر۔ یہ تعمیر موخر ہوتی رہی۔ معمر جسٹس صاحب کو گاڑی سے اتر کر کافی پیدل چلنا پڑتا تھا۔ ان کے پائے استقامت میں مگر لغزش نہیں ہوئی۔
عدلیہ کا اپنا ایک مقام ہے۔ کبھی یہ خود اپنی عزّت کرواتی ہے، اپنے غیر جانبدار فیصلوں سے۔ کبھی کوئی حکمران جج باپ کی کھال اترواکر کرسی پر منڈھوا دیتا ہے اور جج کے بیٹے کو اس کرسی پر بٹھادیتا ہے تاکہ وہ انصاف کرے۔ اب وہ زمانہ تو رہا نہیں نہ کسی حکمران کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ ناراض ہو تو کسی کی بھی کھال اتروا دے ، ججوں کو خود ہی بہتر راہ اختیار کرنی ہوگی، جس میں ان کا احترام بھی برقرار رہے اور عدلیہ کا وقار بھی۔