خالد محبوب،کراچی
جعلی پولیس مقابلوںکے ماہر رائو انوار کے ہاتھوں مبینہ مقابلے میں بے گناہ نقیب اللہ کے قتل سےکراچی سمیت ملک کےدیگر شہروں میںپایا جانے والااشتعال ٹھنڈانہیں ہوا تھاکہ رائو انوار کے حواریوں اور محکمہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی جانب سےبے گناہ شہریوں کے ماورائے عدالت قتل بد دستور جاری ہے۔جس کی مثال رواںماہ بھی سامنےآ ئی ،گڈاپ ٹائون میں واقع خلجی گوٹھ کےگھر سے اٹھائے گئے 2 تاجر بھائیوں موسی خاں خیل اور عیسی خاں خیل میں سے موسی کی پراسرار ہلاکت ہے۔دونوں بھائیوں کو پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیا اوربعدازاںموسی خاں کی تشددزدہ لاش پولیس چیک پوسٹ سپر ہائی وےکے قریب خالی ایک پلاٹ سے ملی ۔ جبکہ عیسی خاں کے بارے میں فوری معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضلع ملیر میں رائو انوارکے حواریوں کی کارروائیاں تھم نہیںسکی ہیں ۔موسی خاں کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ جب پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا ور دونوں بھائیوںکوحراست میں لینے کے بعد کہا کہ انھیں پوچھ گھچ کے بعدچھوڑ دیا جائےگا،جبکہ گھر سے کوئی غیر قانونی چیز بھی برآمد نہیں ہوئی ۔ہم نے قتل کے خلاف سپر ہائی ٹول پلازہ پر احتجاج کیا اور سڑک بلاک کی تو پولیس کے اعلی افسران نے عیسی خاں کی واپسی کی یقین دہانی کرائی تھی ۔مقتول موسی خاں کے بھائی کا کہنا تھاکہ ہمارا آبائی تعلق کے پی کے سے ہے ہم خلجی گوٹھ میں عرصہ دراز سے مقیم ہیں ۔میرا مقتول بھائی کرکٹ کا شوقین تھا اس کی 6سال کی ایک بیٹی 3سال اور 7ماہ کے دو بیٹے ہیں،دوسرے بھائی عیسی خاں کی کپڑوں کی دکان ہے ۔جب مقتول کے اہل خانہ کی جانب سے شدید احتجاج اور عدالت میںدرخواست دائر کرنے کےنتیجے 5دن بعد رات گئے عیسی خاں کو سپر ہائی وے کے قریب ایک ویران مقام پر چھوڑ دیا گیا ۔ پولیس کی جانب سے موسی خاں کاماورائے عدالت قتل اور اس کے بھائی کے اغوا نے ثابت کر دیا ہے کہ ضلع ملیر میں رائو انوار کی باقیات اور اس کا نیٹ ورک تاحال قائم ہے ۔ دوسری جانب گڈاپ ٹاون کے ایس ایچ او کا اس حوالے سےدعوی ہے کہ موسی خاں خیل کا پوراخاندان منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث ہے ۔ ان کی رہائش تو ہمارے تھانے کی حدود میں ہے لیکن کسی دوسرے تھانے کی پولیس انھیںلے کر گئی تھی،اور موسی خاں کو سائٹ تھانے کی حدود میں مارا گیا ہے،میں ان کے پورے خاندان کو جانتا ہوں کہ سب منشیات فروش ہیں ،ان کے خلاف ہمارے تھانے میں بھی کئی مقدمات درج ہیں ۔جبکہ سائٹ تھانے کی پولیس کا کہنا تھا کہ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ سپر ہائی کے نزدیک خالی پلا ٹ میں لاش پڑی ہے ،جس پر ضابطے کی کارروائی اور لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد لاش گڈاپ پولیس کے حوالے کردی ۔بعدازاں گڈاپ پولیس نے لاش ورثا کے حوالے کر دی۔اسی حوالے سے جب ایس ایس پی ملیر عدیل چانڈیو سے متعدد بار ان کے موبائل رابطے کی کوشش کی، تاہم انھوں روایتی طور پر فون ریسیو نہیںکیا ۔
دوسری جانب خیابان اتحاد ڈیفنس میںاے سی ایل سی پولیس کے سادہ لباس اہلکاروں کے ہاتھوں بے گناہ نوجوان انتظار کےوالد نے انصاف کے حصول کے لئے دن رات ایک کر دیا ہے لیکن ان کے بیٹے کے اصل قاتل قانون کی پہنچ سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں ،تحقیقاتی ٹیمیں بنی ،جےآئی ٹی بنیںاور ٹوٹ گئیں ، جس سے دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے اعلان کیا کہ اگر میرے بیٹے کے اصل قاتلوں کو کڑی سزانہ ملی تو اہل خانہ کے ہمراہ پریس کلب پر بھوک ہڑتال کروں گا۔جس کے بعد ایک نئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی، جس کا پہلا اجلاس 19فروری کو ہو ا ،،جس میں مقتول کے والد اشتیاق احمد نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا اور واقعہ کی فوٹیج دکھائیں ،مدیحہ کیانی کابیان بھی ریکارڈ ہوگیا،لیکن مبینہ طور پر واقعہ کے مرکزی کردار سابق ایس ایس ایس پی اے سی ایل سی مقدس حیدر نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی زحمت تک گوار نہیںکی جس نے کئی سوال اٹھا دیئے ہیں ۔ شارع فیصل تھا نے کی حدود میں پولیس نے معصوم شفیق کو ڈاکو قرار دے کر جعلی مقابلے میں قتل کیا،اہل خانہ کے شدید احتجاج کے بعد بھی انصاف نہ ملنے پرانہوںنے عدالت کا دروازہ کٹھکٹایااور عدالت کے حکم پر مقتول مقصود کے والد شیرمحمد کی مدعیت میں 4پولیس اہلکاروں اے ایس آئی طارق،ہیڈ کانسٹیبل وحید ، کانسٹیبل شو کت اور کانسٹیبل اکبر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیالیکن تاحال کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی نامزد پولیس اہلکاروں نے ضمانت قبل از گرفتاری کےلئے تاحال عدالت سے رجوع کیا ہے ۔ مقصود قتل کیس میں ایس ایچ او شارع فیصل پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کے لئے کوشاں ہیں ۔مقدمے کی پیش رفت مبنی رپورٹ بھی تاحال عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔مقدمہ ملزمان کے خلاف 302 کی دفعات کے تحت درج کیا گیا تھا،یاد رہے کہ گذشتہ ماہ شارع فیصل پر گشت پر موجود اہلکاروں نے مشتبہ گاڑی کو روکا تو ملزمان نے فائرنگ کردی، جس کے بعد پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں4 ملزمان زخمی ہوگئے۔پولیس کے ابتدائی بیان میں بتایا گیا تھا کہ زخمی ملزمان کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا ،جن میں سے ایک ملزم زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہو گیا تھا ،جس کی شناخت مقصود کے نام سے ہوئی جب کہ دیگر زخمی ملزمان میں روف، بابر اور علی شامل ہیں۔پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان شارع فیصل پر شہریوں سے لوٹ مار کرتے تھے اور ایئر پورٹ سے واپس آنے والوں کو ہدف بناتے تھے ،بعد ازاں پولیس نے اپناموقف تبدیل کرلیا اور کہا کہ مقابلے کے دوران فائرنگ سے ایک شہری جاں بحق اور ایک زخمی ہوا ہے جب کہ مقابلے کے دوران 2 ملزمان گرفتار کیے گئے، جن میں علی اور بابر شامل ہیں،پولیس نے بتایا کہ جاں بحق شخص مقصود رکشے میں سوار تھا اور رکشہ ڈرائیور عبدالر ئوف بھی فائرنگ سے زخمی ہو ا تھا۔اب دیکھنایہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو انصاف ملتابھی ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ پولیس کی بھینٹ چڑھنے والے بے گناہ نوجوانوں کے اہل خانہ انصاف کے حصول میں تھک ہار کر خاموش ہوجائیں گئے ۔ یہاں عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگرمان بھی لیا جائے کہ مقتول موسی واقعی منشیات فروش تھا ،مقتول شفیق ڈاکواور مقتول انتظار کار میں لڑکی کے ہمراہ تھاتو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی بجائے انھیں قتل کیوں کیا گیا؟ ان سوالوں جواب بھی ملنا ضروری ہیں ۔قانون کی رکھوالا کہلانے والی پولیس کو قانون کی پامالی اور معصوم شہریوں کے قتل عام کا لائسنس کس نے دیاہے۔ اگر اب بھی معصوموں کی جانوں سے کھلواڑ کر نے والی پولیس کی کالی بھیڑوںان میں افسر ہو یا اہلکار کو عبرتناک سزائیں نہ دی گئیں تو پولیس پر عوام کا رہا سا اعتماد مزید کھو جائےگا ۔