• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اور دختر مشرق کا روکاری کی بھینٹ چڑھ گئی

چوہدری محمد ارشاد،سکھر

سائنس و ٹیکنالوجی کے جدید دور میں ہر شے میں تبدیلی آگئی ہے۔ جدید آلات اور کمپوٹر ٹیکنالوجی کی وجہ سے زندگی تیزرفتار ہوگئی ہے، انسانی نگاہیں کرہ ارض کے بعد اب خلائی سیاروں پر مرکوز ہیں۔پاکستان میں بھی لوگوں کی نہ صرف بودوباش بلکہ انداز فکر تک بدل گیا ہے،شہری خواتین پاکستانی معاشرے کا سودمند حصہ بن چکی ہیں اور ملکی تعمیر و ترقی میں فقیدالمثال کردار ادا کررہی ہیں۔ اگر کچھ نہیں بدلا ہے تو وہ ہے پاکستان کی دیہی خواتین کے ساتھ ہونے والےظلم و تشدد کے واقعات۔

 دورقدیم کی مانند بنت حوا آج بھی ظلم و تشدکا نشانہ بن رہی ہے، حکومت کے تمام تر اقدامات، خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کی جانیوالی قانون سازی اور نسوانی تشدد کے خلاف بل کی منظوری کے باوجود کاروکاری، ونی، سنگ چٹی جیسی قبیح رسومات کے ذریعے عورتوں کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ کبھی غیرت کے نام پر، تو کبھی مالی و گھریلوپریشانی ، قبائلی جھگڑے، زمین پر قبضہ جیسے واقعات میں خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے خواتین پر ہونیوالے ظلم و تشدد کے ایک واقعہ کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہونے پاتی کہ دوسرا واقعہ جنم لے لیتا ہے۔

گزشتہ دنوںسندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں بھی ایسا ہی ایک الم ناک واقعہ رونما ہوا، جس میں بھائی نے اپنے نامعلوم ساتھیوں کے ساتھ مل کراپنی ہی سگی بہن پر سیاہ کاری کا الزام لگا کر فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 

قتل کی اس لرزہ خیز واردات کے بعد ملزمان نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے واقعہ کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پولیس کے بڑھتے ہوئے دبائو کے بعد قاتل بیٹے کو بچانے کے لئےباپ نے قتل کی ذمہ داری اپنے سرپر ڈال کر، اپنی ہی بیٹی کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔ 

حوا کی ایک بیٹی تو موت کی آغوش میں سوگئی لیکن اس کے اگلے ہی روز، سکھر پولیس نے غیرت کے نام پر، حوا کی ایک دوسری بیٹی کو قتل کرنے کی کوشش ناکام بناکر 2خواتین کو بحفاظت بازیاب کرالیا۔ 

بازیاب کرائی گئی 2خواتین میں سے ایک خاتون کو اس کا شوہر سیاہ کاری کے الزام میں قتل کرنا چاہتا تھا جبکہ دوسری خاتون کو اس کے اہل خانہ بھوکا پیاسا قید میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔

پولیس ترجمان کے مطابق سیاہ کاری کے الزام میں قتل کی جانیوالی خاتون کے واقعہ کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے کہ 4فروری کو سکھر کے تھانہ بائجی کی حدود سبزی منڈی کے علاقے میں 19سالہ لڑکی ظہیراں کو اپنی ہی برادری کے ایک نوجوان کے ساتھ تعلقات کا علم ہونے کے بعدمقتولہ کا بھائی میر احمد مہرمشتعل ہوگیا اور اس نے اسے کارو کاری کے الزام میں فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ 

ابتدائی تحقیقات میں ورثاء کی جانب سے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے واقعہ کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ ایس ایس پی سکھر امجد احمد شیخ نے جب اس قتل کی بذات خود تفتیش کی تو انہیں معاملہ مشکوک لگا اور انہوں نے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کیے۔ 

4فروری کو تھانہ بائجی میں مقتولہ کے قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی، ایس ایس پی کو شبہ تھا کہ پولیس بھی شاید ملزمان کو بچانے کی کوشش کررہی ہے، اسی لیے ایف آئی آر کے اندراج میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا ہے، اس لئےانہوں نے بائجی تھانے کے ایس ایچ او کو تبدیل کرکے ان کی جگہ علی بخش شر کو تعینات کیا گیا تاکہاس بہیمانہ قتل کی شفاف تفتیش کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے۔ پولیس نے جب مقتولہ کے ضعیف العمر والد خاوند بخش مہر کو گرفتار کیا تو اس نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنی بیٹی کو قتل کیا ہے۔ 

تاہم ایس ایس پی امجد شیخ کو یہ معاملہ مشکوک دکھائی دیا اور انہوں نے واقعہ میں ذاتی طور پر دل چسپی لیتے ہوئے تمام تر ثبوت و شواہد سامنے لانے اورقتل میں ملوث اصل ملزمان کی گرفتاری کے لئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی،جس نےمذکورہ واقعہ کی باریک بینی کے ساتھ تحقیقات کی، جس میں سراغ ملا کہ لڑکی کے قتل میں صرف لڑکی کا والد ملوث نہیں بلکہ اس کے بھائی کے علاوہ دیگر 2رشتہ دار بھی اس واردات میں ملوث ہیں۔ پولیس کی جانب سے تفتیش کا دائرہ وسیع ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ گاؤں کے وڈیرے کے حکم پر سیاہ کاری کے الزام میں ظہیراں کو قتل کیا گیا ہے۔

ابتداء میں پولیس کی جانب سے قتل کی اس واردات کا مقدمہ لڑکی کے والد اور اس کے بھائی کے خلاف درج کیا گیا تھا مگر اب اس میں مقتولہ کےباپ اور بھائی کے ساتھ دو دیگر افراد کو بھی ملزم کی حیثیت سےشامل کیا گیا ہے، جس میں ایک گاؤں کاوڈیرہ بھی شامل ہے جس کی ایماء پر یہ الم ناک واقعہ پیش آیا۔

 پولیس نے کارروائی کرکےایف آئی آر میں نا مزدتین ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے جب کہ لڑکی کا بھائی جو کہ قتل کا مرکزی ملزم ہے وہ تاحال مفرور ہے جس کی گرفتاری کے لئے ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے اور جلد ہی اسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ظہیراں کے قتل میں گرفتار ہونے والے لڑکی کے والد سمیت تینوں ملزمان نے لڑکی کے قتل کی منصوبہ بندی اوراپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔

اس کے اگلے ہی روزایک خاتون مسماۃ نجمہ نے 15مدد گار سینٹر پر کال کرکے بتایا تھا کہ اس کا شوہر اسے سیاہ کاری کے الزام میں قتل کرنا چاہتا ہے، جس پر پولیس نے نیوپنڈ کے علاقے میں فوری طور پر کارروائی کی اور خاتون کو قتل ہونے سے بچالیا۔چھاپے کے دوران خاتون کا شوہر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ 

مسماۃ نجمہ نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا ہے کہ میرا شوہرمیرے سسرال والوں کے ساتھ مل کر مجھ پر سیاہ کاری کا جھوٹا الزام لگا کر موت کے گھاٹ اتارنا چاہتا تھا، جس پر میں نے پولیس کو اطلاع دی جس نے بروقت کارروائی کرکے میری زندگی بچالی ۔ 

دوسری واردات میں اہل خانہ کی جانب سے قید میں رکھی گئی خاتون کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیاہے، پنوعاقل کے علاقے غریب آباد میں مسماۃ راحیلہ کو اس کے اہل خانہ نے گھر میں قید کررکھا تھا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ 

 مخبر کی جانب سے اطلاع ملنےپر پولیس نے کارروائی کرکے خاتون کو بحفاظت بازیاب کرالیا۔ خاتون نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے بتایا ہے کہ میرا بھائی اور دیگر رشتہ داروں نے مجھے گھر میں قید کررکھا تھا اور بھوکا پیاسا رکھ کر تشدد کا نشانہ بناتے تھے، کئی کئی دن تک مجھے کھانے کے لئے کچھ نہیں دیا جاتا تھا۔ پولیس کی جانب سے مذکورہ دونوں خواتین پر تشدد کرنے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں جلد ہی ملزمان کو گرفتار کرلیا جائیگا۔

اس طرح کے رونما ہونیوالے واقعات حقوق نسواںکے تحفظ کا نعرہ لگانے والی سندھ کی تنظیموں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ معصوم بچیوں کوہلاکت سے بچانے کے لیے،پولیس کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کےافراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کے خلاف منظور کیے جانے والے بل کے تحت عملی اقدامات کیے جائیںتاکہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کئے جانے والے واقعات کا سدباب ہوسکے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین