ندیم نبی قائم خانی، سامارو
پنجاب کے شہر قصور کی معصوم زینب کے واقعےکےبعدسندھ میںایسے جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اور گزشتہ ایک ماہ کے دوران کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات تسلسل سکے ساتھ رپورٹ ہورہے ہیں ۔سندھ کے ضلع عمرکوٹ میںروزانہ اس نوع کے کئی واقعات رونما ہوتے ہیں ۔بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں سے بیشتر تو سماجی ومعاشرتی مسائل،دولت، اثر رسوخ یا والدین کے بدنامی کے خوف کی وجہ سے تھانے میں درج نہیں کرائے جاتے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن واقعات کی شکایات کا اندراج کیا جاتا ہے، ان پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوپاتی ۔
بارسوخ ملزمان کی جانب سے متاثرہ فریق کے ورثا کو مقدمے سے دستبردارہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایسا ہی ایک واقعہ چند روزقبل سامارو شہر کےمیں پیش آیا۔ وارڈ نمبر3 میںایک بنک کے سامنے واقع قصاب کے گھر کا، میگھواڑ برادری کے درجنوں افراد نے شام کے وقت اندھیرا پھیلنےکے بعد گھیرائو کرلیا۔میگھواڑ برادری کے مطابق گل جی میگھواڑکا نوعمر بیٹاساگرمیگھواڑشام کے وقت اپنے والد کی دکان سے غائب ہوگیا۔
والدین نے محلے کے افراد کے ساتھ مل کر اسے ہر جگہ تلاش کیا بعد میںمعلوم ہوا کہ اس بچے کو سکندر بروہی نامی قصاب نے اپنے گھرمیں قید کیاہوا ہے اور اس پر تشددکررہا ہے۔ جس کے بعدساگرکی ماں سمیت میگھواڑ برادری اور شہریوں کی کثیرتعدادسکندر بروہی کے گھر پہنچی ، لوگوں کے شوروغل سے فائدہ اٹھا کر مبینہ مغوی، ساگر نے موقع پاکرقریبی گھرکی چھت پھلانگ کر باہر نکلا اور وہاں موجود اپنے ماں باپ سے آکرلپٹ گیا۔اطلاع ملنے پرساماروپولس نے جائے وقوعہ پہنچ کر لڑکے کو اپنی تحویل میں لے کرپولیس اسٹیشن منتقل کیا جہاں ڈی ایس پی عارف بھٹی نے متاثرہ لڑکےساگر سے اس کے والد گل جی میگھواڑکے سامنے بیان لیا۔
محبوس بچے ساگرمیگھواڑ نے پولیس کو بتایاکہ کہ وہ اپنے والد کی چپلوں کی دوکان جوسکندر بروہی کے گھرکےسامنے ہے ، اس کے پاس گلی میں بیٹھا تھا کہ، سکندر بروہی اسے کسی کام کے بہانے اپنی اوطاق میں لے گیا جہاں اس نے نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔
وہ کافی دیر تک وہاں قید رہا،جس کے بعد اسے گھر کے باہر سے شورو غل کی آوازیں آنا شروع ہوئیںجن میں اس کی ماں کی آواز نمایاں تھی جو سکندربروہی کے گھرکے دروازے پر اسے پکاررہی تھی جس کے بعد سکندربروہی نے اپنے بھائی ایاز بروہی کو بلایا اور اس کے حوالے کردیا جو اسے گھرکی چھت پر لے گیا، اس نے وہاں پہنچ کر چیخنے کی کوشش کی تو ایاز نے اس پر جسمانی تشدد کیا، اسی دورانوہ اس سے خود کو چھڑا کر ریبی گھرکی چھت پر کود گیا اور وہاں سے چھلانگ مار کر باہر گلی میں آکر اپنی جان بچائی۔
زیادتی کے شکار بچے ساگرکے بیان کے بعد اس کے والد گل جی کی مدعیت میں دونوں قصاب بھائیوں، سکندر بروہی اور ایازبروہی کے خلاف مقدمہ درج کرکے تعلقہ اسپتال سامارو میں بچے کا طبی معائنہ کرایا گیا۔ پولیس نے دونوں بھائیوں کو گرفتار کرکے مقامی عدالت میں پیش کیا جنہیں بعدازاں جج کے حکم پر سب جیل عمرکوٹ بھیج دیا گیا۔دوسرے روز بچے کی طبی رپورٹ پولیس کو موصول ہوگی ہے جس میں بچے کے ساتھ جسمانی تشدد اور زیادتی کی تصدیق کی گئی ہے۔
گزشتہ ماہ اسی طرح کا دوسرا واقعہ سامارو شہرمیں پیش آیا جہاں دو اوباش نوجوانوں ندیم مکرانی اور علی نواز دھونکائی نے پرانی کاٹن فیکٹری سے ملحقہ کالونی کے رہائشی اور میٹرک کے طالب علم رحمٰن خاصخیلی کو ورغلا کر قریبی کاٹن فیکٹری میں لے جاکرتشدد کا نشانہ بنایا۔ لڑکے کے شورمچانے پر اہل محلہ نے ایک ملزم ندیم مکرانی کو پکڑ لیا جبکہ دوسرا ملزم علی نوازدھونکائی فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ ملزم ندیم مکرانی کو لوگوں نے پولیس کی تحویل میں دےدیا۔
بعدازاں متاثرہ لڑکےکا تھانے میں بیان لیا گیا جس کے بعد سامارو پولیس نےمقدمہ درج کرکے دوسرے ملزم کو بھی تلاش کرکے گرفتار کرلیا اور دونوں کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔تسلسلکے ساتھ رونما ہونے والے ان واقعات کے خلاف سیاسی و سماجی رہنماؤں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ عوامی تحریک کے مرکزی صدرڈاکٹر رسول بخش خاصخیلی،پیرولی اللہ جان سرہندی،نوول رائے ودیگر نے بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں اضافے پر دکھ اور تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ اندرون سندھ میں اس قسم کے واقعات پر خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، والدین اپنے بچوں کی جانب سے فکرمند ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے انہیں اسکولبھیجنا بھی بند کردیا ہے جو ایک عظم قومی المیہ ہے ۔
رہنماؤں نے مطالبہ کیاکہ قومی وصوبائی اسمبلیوں سے اس کے خلاف موثرقانون سازی کی جائے تاکہ ایسے واقعات کا سدباب ہوسکے۔