ملک محمد اسلم،اوباڑو
سندھ اورپنجاب کے سنگم پر واقع ضلع گھوٹکی واحد ضلع ہے جہاں سندھ کے کسی بھی ضلع کے مقابلے میں، زیادہ سردار رہتے ہیںجس کی اصل وجہ یہ ہے یہاں وڈیرہ شاہی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ سردار پھر وڈیرے اور پھر چھوٹے وڈیرے جو اپنے اپنے علاقوں کے ’’ٹائیکون ‘‘کہلاتے ہیں۔ پنچائتی فیصلے ہوں یا جرگے ،کاروکاری کا مسئلہ ہو یا رشتہ داری کا، چوری چکاری کا واقعہ ہو یا زمین کا تنازع۔ وڈیروں کی اوطاقیں انہی مقدمات کے ازخود فیصلوں کے لیے بنی ہوئی ہیں، جہاں نہ صرف زندگیوں کے فیصلے ہوتے ہیںبلکہ ان میں تمام تنازعات کے فیصلے،چھوٹے وڈیروں کامنفعت بخش کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ وڈیرہ شاہی کی حاکمانہ ذہنیت کے حامل بااثر وڈیرے، علی نواز مہر نے گزشتہ دنوں گھوٹکی کی تحصیل خان پورمہر میں ایک نوجوان لڑکی رابیل کو فائرنگ کر کے ہلاک کردیا اورایک انسانی جان لینے کےبعدنہایت اطمینان سے اپنے ساتھیوں کےہم راہ فرار ہوگیا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق اس واردات کا کاروکاری سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ معصوم لڑکی وڈیرے کی ذاتی اناء کی بھینٹ چڑھی ہے۔ مقتولہ رابیل کی لاش کو پولیس نے تحویل میں لے کر،تحصیل اسپتال خان پور منتقل کیا، جہاں اس کی ماں،جوان بیٹی کی لاش دیکھ کر صدمے سے بے ہوش ہونے کے بعد ذہنی توازن کھو بیٹھی۔
مقتولہ کے رشتہ داروں کے مطابق، رابیل سیال اُس گھر کی بڑی اولادتھی اور ماں باپ کے بعد گھرانے میں اسی کی بات مانی جاتی تھی۔وہ پانچویں جماعت تک پڑھی ہوئی تھی،رابیل نہ صرف خوش شکل تھی بلکہ دلیر بھی تھی۔ اس کے والدین کااراضی کی ملکیت کا تنازعہ چل رہا تھا، جس پراس کے بعض رشتہ داروں نے قبضہ کرلیا تھا۔ والدین بوڑھا ہونے کی وجہ سے مقدمہ لڑنے سے قاصر تھے۔ مقتولہ رابیل اراضی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھی اور وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا حق حاصل کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی تھی۔ مخالف فریقوں نے اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے،دوہری حکمت عملی اختیار کی جو بار آور ثابت ہوئی۔ان کی وڈیرےعلی نواز مہرکے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے، انہوں نےاسے رابیل کے ساتھ شادی پر مجبور کردیا۔ وڈیرےنے رابیل کے گھر رشتہ بھیجا،اس کےوالدین وڈیرے کے خوف کی وجہ سے اپنی بیٹی کی اس کے ساتھ شادی کرنےپر رضامند تھے لیکن لڑکی نےاس رشتے سے انکار کردیا ۔علی نواز نے اس پر کافی دباؤ ڈالا، اسے دھمکی آمیز پیغامات بھیجےلیکن وہ راضی نہیں ہوئی ۔ جس پر اشتعال میں آکر اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابیل کے گھر پر حملہ کردیا اوراس کے کمرے میںگھس کر اس کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ لڑکی کے والد کی مدعیت میں پولیس نے وڈیرے علی نواز مہر سمیت پانچ افراد کے خلاف قتل کامقدمہ درج کر کے اس کےدوساتھیوں کو حراست میںلے لیا ہے تاہم اصل ملزم ابھی تک پولیس کی گرفت سے آزاد ہے ۔علاقہ مکینوں نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ جس روز قتل ہوا اس گلی میں پولیس کے تین اہلکارپہرہ دے رہے تھے، کیوں کہ رابیل جس گلی میں رہتی تھی وہ اس تحصیل کا داخلی راستہ ہے۔ پولیس حکام نےامن عامہ کی صورت حال کی وجہ سے تحصیل کے داخلی اور خارجی راستوں پر اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگائی ہوئی ہیں، لیکن اس کے باوجود قتل کی یہ لرزہ خیز واردات رونما ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین مسلح پولیس اہل کاروں کی موجودگی کے باوجود علی نواز مہر اور اس کے ساتھی قتل کی دلیرانہ واردات کے بعد اتنی آسانی سے کیسے فرار ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق پولیس اسٹیشن خان پور مہر کے ایس ایچ او اور ہیڈ محرر اس دن رخصت پر تھےلیکن ان کی عدم موجودگی میں تھانے کا نظم و نسق ان کے قائم مقام کے پاس ہونا چاہیے جس نے اپنے فرائض سے غفلت برتی۔ اب تک نہ تو اصل ملزمان گرفتار ہوئے اور نہ ہی نا اہل پولیس افران کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔