جام ساقی ایک رومانس کا نام تھااور اس رومانس میں مبتلاسرپھرے سینٹرل جیل حیدرآباد سے شاہی قلعہ لاہور تک دھمالیں ڈالتے پھرتے تھے۔جام اور جیل کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ایوب خان کے ون یونٹ کے خلاف چلائی جانے والی تحریک ہویا ضیائی آمریت کے خلاف مزاحمت ،کسانوں ، مزدوروں کے اجتماعوں اور سیاسی جلسوں میں ایک ہی نعرہ گونجتا تھا’’دھرتی مانگے دان‘‘۔اس نعرے کی طرح جام کی زبان سےاس وقت جو بھی لفظ نکلتا تھا ،حبیب جالب کے شعروں کی طرح عوامی نعرہ بن جاتا تھا۔
جام ساقی ایک چٹان کا نام تھاجسے جیلوں اور کال کوٹھڑیوں کی صعوبتیں اور بدترین تشددبھی نہ توڑ سکالیکن اس کی نوجوان بیوی سکھاں، جام ساقی پر ہونے والاتشدد برداشت نہ کر سکی اور اس نے کنویں میں کود کر خودکشی کر لی۔ 1979ء میں بغاوت اورغداری کے الزام میں گرفتارہونے والوں میں جام ساقی بھی شامل تھے۔یہ مقدمہ پاکستان کی تاریخ میں ریاستی جبر اور سیاسی مزاحمت کے درمیان پائی جانے والی کشمکش کی ایک ایسی داستان جسے جام ساقی جیسے سپوتوں نے اپنی جرات و استقامت سے بہت زیادہ آبرومند کیا ہے۔یہ وہی مقدمہ ہے جس میں کامریڈنذیر عباسی بدترین ریاستی تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں اس مقدمے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس مقدمے بے نظیر بھٹو، غوث بخش بزنجو، خان عبدالولی خان اور معراج محمد خان نے فوجی عدالت کے سامنے پیش کر ملزموں کی بے گناہی کی شہادت دی تھی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جام ساقی ، جمال نقوی ، سہیل سانگی اور شبیر شر سمیت اس مقدمے کے تمام ملزموں کو ’’ضمیر کے قیدی ‘‘ قرارد دیا تھا۔جام ساقی نے بعد میں اسی نام سے ایک کتاب بھی لکھی جو عوام کے اجتماعی ضمیر کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
فوجی عدالت کے سامنے پیشی کے دوران بے نظیر بھٹوسے پوچھا گیاتھا کہ آپ کانام کیا ہے۔بے نظیر نے کہا تھا،بے نظیر۔والد کا نام پوچھنے پر بے نظیر کا جواب تھا ،ذوالفقار علی بھٹو۔اور جب ان سے ان کی ذات پوچھی گئی تو بے نظیر کاجواب تھا،’’میں ذات پر یقین نہیں رکھتی‘‘۔بےنظیر نے یہ بھیکہا تھا کہ ’’میں فوجی عدالتوں کو نہیں مانتی ۔ جام ساقی اس ملک کا ایک محب وطن شہری ہے اور اسے رہا کرنا چاہیے۔‘‘
بے نظیر بھٹو کے بیان کے بعدفوجی عدالت کے سامنے ایک تاریخی بیان جام ساقی نے بھی دیا تھا۔انہوں نے فوجی عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مملکت ،عوام، جغرافیے ، تاریخ اور بعض دیگر عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے۔اسی طرح ہر جماعت کی اپنی آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔کسی کی آئیڈیالوجی کوڑے مارنا، پھانسیاں دینااور تشدد کرنا ہے جبکہ ہمارا نظریہ صرف اور صرف پاکستان کی مظلوم قومیتیں ہیں، سائنسی سوشلزم ہے،بنیادی زرعی اصلاحات ہیںاور چھوٹی قومیتوں کے حقوق کی بحالی ہے۔
جام ساقی نے کہا تھا کہ حال ہی میں حکومت نے مستقبل میں جمہوریت کی لہر کو روکنے کے لیے عدالتوں سے مزید اختیارات چھین لیے ہیں لیکن عوام کی بے چینی پہلے ہی عوامی تحریک میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہے۔ تمام جمہوریت پسند، محب وطن ، محنت کش عوام اپنے مطالبات کے حصول کی جدوجہد میں سرگرم ہورہے ہیں اور ان کی صفوں میں اتحاد بڑھ رہا ہے۔عدالت کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔جام ساقی پر الزام تھا کہ ان کے قبضے سے انتہائی خطرناک اور ملک دشمن مواد برآمد ہوا ہے۔
اس ’’خطرناک‘‘ اور ’’ملک دشمن‘‘ مواد کی تفصیلبتاتے ہوئے جام ساقی نے کہا تھا کہ’’میرے پاس اکتوبر اور نومبر 78ء کے دو نیو ٹائمز تھے اور ایک کتاب ’’جدلیاتی مادیت کیا ہے‘‘ بھی تھی۔ یہ سب بازار میں دستیاب ہیں۔ میرے پاس ’’عوامی جمہوریت‘‘ نامی ہفت روزہ کا بھی ایک شمارہ تھا، یہ خوب ہے کہ ڈیکلریشن سے شایع ہونے والا اخبار بھی جب میرے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ بھی قابل اعتراض بن جاتا ہے۔
اپنے بیان کے اختتام پر جام ساقی کا کہنا تھا کہ ’’آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی تاریخ کے برعکس فیصلے کرتی رہی ہیں کچھ برسوں کے بعد انھیں یہ موقع مل جاتاہے کہ عاصمہ جیلانی کیس، ڈوسا کیس یا مولوی تمیز الدین کیس وغیرہ کو یاد کریں لیکن اس عدالت کو اس کا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا کہ یہ اپنے فیصلوں کو تاریخ سے ہم آہنگ کرسکے۔اس لیے، جناب صدر اور اراکین عدالت! یہ آپ کا پہلا اور آخری موقع ہے جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
جام ساقی پابندِ سلاسل تھے اور کراچی سے گلگت تک تمام دیواریں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں ’’جام ساقی کو رہا کرو‘‘۔جام ساقی شاید پاکستانی تاریخ کے پہلے سیاسی قیدی تھے جنہیںتمام صوبوں کی جیلوں میں قید رکھا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ سوائے بلوچی کے باقی تمام زبانیں بولنے لگے تھے۔مچھ جیل میں بندش کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے وہ بلوچی نہ سیکھ سکے۔جام ساقی جب بغاوت کے مقدمے میں بری ہوئے تو رہائی کے بعد ان کا پہلا استقبال لاہور میں ہوا تھا۔امتیازعالم اس وقت کمیونسٹ پارٹی کے پنجاب یونٹ کے سیکرٹری تھے۔
مشہورِزمانہ حیدرآباد سازش کیس کے ملزمان میںبھی جام ساقی شامل تھے۔نیشنل عوامی پارٹی کی تمام قیادت اس کیس کی مرکزی ملزم تھی اور جام ساقی اس وقت نیپ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ٹرائل کے نتیجے میں نیپ پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی پوری قیادت کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔جام ساقی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوشی اختیار کر لی تھی۔روپوشی کے دوران وہ نظمیں اور افسانے لکھتے تھےاورشاعراور افسانہ نگارجام ساقی پر نظمیں لکھتے تھے اور ان کے دیومالائی کردار کی کہانیاں سناتے تھے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ افسانوی کردار نہیں رہا تو یاد آتا ہے کہ کیسے کیسے سپوت اس دھرتی نے پیدا کیےلیکن’’ وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے‘‘۔اب نہ بزنجوکی بصیرت ہے،نہ بھٹو کی فراست ہے،نہ ولی خان کی مزاحمت ہے ، نہ نوابزادہ نصراللہ کی مفاہمت ہے،نہ بے نظیر کی قیادت ہے ،نہ حسن ناصر اور نذیر عباسی کی شہادت ہے ،نہ جام ساقی کی استقامت۔صرف اور صرف سیاست ہے اور سیاست بھی ایسی کہ جس کے شیشے میں مئے باقی نہیں ہے۔