• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی یوم خواتین : امتیازی سلوک اور نفرت کیوں؟


عالمی یوم خواتین : امتیازی سلوک اور نفرت کیوں؟

اپنےحق کے لیے جہالت اور ظلم و ستم کے سمندر میں، بہائو کے خلاف لڑنا ہو گا

ڈاکٹر رضوانہ انصاری

ہرا سمندر گوبی چندر

بول میری مچھلی کتنا پانی

اتنا پانی … کتنا پانی …؟

آپ نے بھی بچپن میں ہرا سمندر والا کھیل کھیلا ہوگا۔ بچیاں، سکھیاں، سہیلیاں، بالیاں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر دائرہ بناتیں، درمیان میں سمندر اور سمندر کے بیچ ایک بچی مچھلی بن جاتی، پھر سب دائرے میں گھوم کر اس سے پوچھتے کتنا پانی، اتنا پانی، مچھلی پیروں سے شروع کرتی اور پانی کی مقدار بڑھاتی چلی جاتی، حتٰی کہ پانی سر سے اوپر ہو جاتا اور سب ڈوب جاتے۔ کھیلنے والی ہر لڑکی مچھلی بننا چاہتی تھی۔

 سمندر تو بس وہی ہوتا ہے ،جس کا پانی نیلااور گہرا پراسرار صبح کے وقت چاند کی طرح چمکتا ہے، شام کوسورج کی طرح دمکتا اور رات کو موت کی طرح ڈراتا ہے، مگر کچھ اور بھی سمندر ہوتے ہیں، جن میں پانی کے سوا سب کچھ ہوتا ہے، جیسے جذبات اور خیالات کا سمندر، دکھوں اور غموں کا سمندر، اپنی یا دوسروں کی لگائی ہوئی آگ کا سمندر، بیماریوں کا سمندر، نفرت اور محبت کا سمندر، بھوک اور جہالت کا سمندر، ظلم اور زیادتی کا سمندر، بلکہ ہر اُس چیز کا سمندر جو وافر مقدار میں موجود ہو… سوچیں تو ہم سب ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں، جہاں یہ سارے سمندر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں، آئے دن ان کی لہریں لوگوں کو نگل لیتی ہیں، جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں ہی کی ہوتی ہے۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ میرے ساتھ سندھ کی ماروی، پنجاب کی ہیر، خیبر پختونخوا کی گل جانہ، بلوچستان کی زر بی بی، فاٹا کی گلالئی، کراچی کی فاطمہ اور خواجہ سرائوں کے قبیلے کی شمو اپنی بچیوں، بہنوں اور سکھیوں کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہرا سمندر کھیلتے ہوئے گول گول چکر کھا رہی ہیں۔ 

درمیان میں، میں مچھلی بنی کھڑی ہوں، سب مجھ سے پوچھ رہی ہیں، سمندر میں کتنا پانی… کتنا پانی… خوشی اور غم ، ظلم اور جبر کا، بیماری اور صحت کا، موت اور زندگی کا، عزت اور توقیر کا،پھر یہ سب تیز تیز گھومنے لگ جاتی ہیں اور میں ان چکروں اور گردشوں کی وجہ سے کچھ بھنور جیسی کیفیت میں پھنس جاتی ہوں، جیسے کوئی طاقت پانی کی اتھاہ گہرائیوں میں مجھےکھینچنے لگتی ہےاور میں اس سے بچنے کے لئے جلدی جلدی بتانے لگتی ہوں کتنا پانی… اتنا پانی…

ذرا ان سمندروں اور ان کے پانیوں کی بات ہوجائے… کہ آپ بھی پوچھیں کتنا پانی…؟

محبت اور نفرت کے سمندر کا حال پوچھیں تو محبت کے سمندر میں تو پانی تہہ سے لگا ہوا ہے، خاص بات یہ ہےکہ جتنی محبت ہے، وہ صرف عورت کے اپنے وجود کی ہے، کیونکہ عورت خود محبت کا استعارہ ہے، ہر روپ ہر شکل ہر چہرے میں صرف محبت،مگر کتنی عجیب بات ہے کہ اس محبت کے حصے میں امتیازی سلوک اور نفرت آتی ہے، یعنی نفرت کا سمندر لبالب ہے، چند ایک کو چھوڑ کر۔ 

پیدائش سے پہلے نفرت، پیدا ہوجانے کے بعد نفرت، غذا، تعلیم اور صحت تینوں صورتوں میں لڑکوں سے کم سہولیات کے باوجود جوان ہوجانے پر شادی کے لئے کبھی جہیز کی کمی، کبھی شکل وصورت آڑے آجاتی ہے… پھر مرضی ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں شادی کے بعد شوہر اور سسرال والوں کی خدمت کے باوجود ذرا، ذرا سی بات پر تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہے۔ 

چائے اچھی نہ بنے، کھانا وقت پر تیار نہ ہو، کپڑے استری نہ ہوں، بچے آپس میں جھگڑ رہے ہوں، ہر صورت میں عورت جسمانی یا روحانی تشدد کا شکارہوتی ہے… قریباً دس ہزار کیس سالانہ صنفی امتیاز پر مبنی تشدد کے درج ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں صرف پڑھے لکھے صوبہ پنجاب میں گزشتہ ایک سال میں 3723 کیس عورتوں پر تشدد کے رجسٹر ہوئے، لیکن صرف 23ملزمان کو سزا ہوئی۔

بیماریوں کے سمندر میں عورتیں ڈوبی ہوئی ہیں۔ غیرمتوازن غذا، ملاوٹ شدہ دودھ، تیل، مسالہ جات، گندے پانی میں اُگی سبزیوں، رنگ شدہ کیمیکلز میں پکے پھلوں، مُردہ اور حرام جانوروں اور ہارمونز پر پَلی مرغیوں اور گایوں کا گوشت کھانے کے باوجود بچ جانے والی عورتیں اور بچیاں غذا کی کمی، خون کی کمی، ہڈیوں اور جوڑوں کی تکلیف کے ساتھ ساتھ سینے اور بیضہ دانی کے سرطان میں تیزی سے مبتلا ہورہی ہیں۔

 کثیر اولادی حمل کے دوران اور زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اموات میں خطرناک اضافہ ہورہا ہے۔ سالانہ تیس ہزار عورتیں ڈیلوری کے دوران مر جاتی ہیں۔ 56فی صد عورتیں حمل کے دوران خون کی کمی کا شکاراور غذائی قلت کا شکارہیں۔ 65فی صد کو صاف پانی پینے کے لئے میسر نہیں ہے۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی ناآسودگیوں کی وجہ سے 57.5فی صد عورتیں ڈیپریشن کے مرض کا شکار ہورہی ہیں۔

غربت اور جہالت کے سمندر میں پانی ابھی کمر سے نیچے ہے، گوکہ لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں، مگر پھربھی قریباً ساڑھے تین لاکھ لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں، جو تعلیم حاصل کررہی ہیں، اُن میں اکثر لڑکیاں پرائمری یا پانچ جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔ 

جہاں خواہش ہے، وہاں وسائل یا پھر اجازت ہی نہیں کہ تعلیم حاصل کی جائے کہ پڑھ لکھ کر ہانڈی پکانا اور بچے ہی سنبھالنے ہیں تو پھر وقت اور توانائی کیوں ضائع کی جائے، پھر بھی جہاں جہاں لڑکیوں کو مواقع ملے ہیں، وہاں انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھاکر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں، مگر ان کی بھی تعداد کم ہے۔ دوسری طرف عورتوں کو کم اجرت ملتی ہے، کام کرنے کے مواقع بھی مردوں کے مقابلے میں کم ہیں۔

 کام کرنے کی جگہ پر قوانین ہونے کے باوجود خواتین کو ہراساں کیاجاتا ہے۔ خواتین کو ہراساں کئے جانے کے خلاف ہیش ٹیگ ’’می ٹو‘‘ تحریک میں شامل خواتین کی تعداد بنا کہے بہت کچھ بتا رہی ہے۔

ظلم و ستم کے سمندر کے لئے جب مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ کتنا پانی تو ،میری آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو خود ہی پانی میں مل جاتے ہیں، کیونکہ اس سمندر میں تو پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ سانس رکنے لگتی ہے اور دم گھٹنے لگتا ہے۔ ہوم آفس یوکے، کے حساب سے دنیا میں عورتوں کے لئے غیرمحفوظ ترین جگہوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ 

آج اس جدید دور میںپاکستان کی عورتیں معاشرتی رسوم و رواج میں جکڑی ہوئی ہیں۔ قوانین کے باوجود اب بھی غیرت کے نام پر قتل ہورہے ہیں۔ آج بھی کمسن معصوم بچیاں درندگی اور زیادتی کا شکار ہورہی ہیں، اغوا، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ تیزاب سے جھلسائی اور آگ سے جلائی جارہی ہیں۔ 

گزشتہ سال تیزاب گردی کے 90واقعات رپورٹ ہوئے، 72کو آگ سے جھلسا دیا گیا۔گزشتہ دنوں ہی سکھر کے نواحی علاقے صالح پٹ میں مسمات نصیراں کو پیٹرول چھڑک کر آگ سے جلا دیا گیا۔جبری شادی اور کم عمری کی شادی تو کسی شمار میں ہی نہیں۔ اس وقت 21فی صد بچیوں کی 18سال سے کم عمر میں شادی کردی جاتی ہے، جبکہ قانون کے تحت شادی کی عمر 18سال ہے۔

عورتیں اور بچیاں تو پنچائیت اور جرگہ گردی کا شکار ہیں، ذرا سی غلطی ،جو اکثر گھر کے مردوں کی ہوتی ہے پر پنجائیت یا جرگہ ان کو اجتماعی زیادتی کی سزا سنا دیتے ہیں اور اس مملکت خداداد میں ان پر عمل درآمد بھی ہوجاتا ہے… گزشتہ برس 860عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوگئیں، 344عورتیں زیادتی کا شکار ہوئیں اور 268کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔

شادی سے انکار پرعاصمہ نامی میڈیکل اسٹوڈنٹ کو قتل کردیا گیا، اس کا مسیحائی کا خواب ادھورا رہ گیا… شریفاں بی بی کو برہنہ گلیوں میں گھمانے پر ابھی تک کسی کو سزا نہیں مل سکی، بس انصاف میں تاخیر ہورہی ہے۔ 

پسند کی شادی کرنے پر حزبینہ سولنگی قتل ہوچکی ہے۔ کاری، ونی، سوار کردینا تو کوئی بات ہی نہیں کہ کم از کم یہ لڑکیاں کبھی غیرت کی شان بڑھانے اور کبھی خاندانی دشمنیاں کم کرنے میں کام تو آئیں۔

فیس بک اور انٹرنیٹ پر دوستی اور دوستی کے بعد گھر سے بھاگ کر شادی اور شادی کے بعد موت… اور تو اور ایک نیا طریقہ واردات حافظ آباد میں غریب بچیوں کو جہیز پیکیج کا لالچ دے کر ٹیسٹ کے نام پر ان کی کمر کی ہڈیوں کا گودا نکالا گیا ، جس سے بچیوں کی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوئے اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوتی جارہی ہیں۔ پوری امید ہےکہ کچھ دنوں بعد اس گروہ کو بھی بااثر شخصیات کے سامنے آنے پر چھوڑ دیا جائے گا۔ 

بس ایسا ہی لگتا ہے کہ ان بچیوں، لڑکیوں اور عورتوں کا پیچھا صرف موت کررہی ہے۔ ان کی آنکھوں سے خواب چھین کر آنکھوں کے ستارے نوچ کر ان کی زندگیوں کو بے نور کیا جارہا ہے،پھر کیا کیا جائے… کیوں نا اجتماعی خودکشی کرلی جائے… یا پھر روایات، رسوم، خاندانی عزت و وقار کے روشن الائو میں لڑکیوں کو ایک ایک کرکے جھونک دیا جائے، تاکہ اس کی حدت اور روشنی برقرار رہے۔

عورتوں پر ظلم و زیادتی کوئی نئی بات نہیں۔ زمانہ جدید ہو یا قدیم ہر دور میں عورتیں ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ سوچتی ہوں کہ کیا میں آئندہ بھی کتنا پانی اتنا پانی کے درمیان مچھلی بنی رہوں گی؟ یہ ساری عورتیں ساری مائیں، ساری بہنیں ساری بیٹیاں کیا یوں ہی ایک دائرے میں گھومتی رہیں گی… چکر کھاتی رہیں گی، پوچھتی رہیں گی اور میں مچھلی بنی رہوں گی… ہاں میں مچھلی بنوں گی۔ مچھلی ضرور بنوں گی… مگر پَلا (پلہ) مچھلی۔ معلوم ہے کیوں، کیوں کہ پلا مچھلی لہروں اور پانی کے بہائو کے خلاف تیرتی ہے، بلکہ ہم سب عورتوں کو اس نفرت، بیماری، جہالت اور ظلم و ستم کے سمندرمیں بہائو کے مخالف تیرنا ہوگا۔ 

بہائو کے خلاف لڑنا ہوگا۔ ہر سال عورتوں کے عالمی دن پر ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ کتنی نفرت، تذلیل، جہالت، کتنی خرابی صحت اور کتنا ظلم و ستم عورت کے حصے میں آیا۔ کیوں نا اس بار ہم سوچ بدل لیں، ارادہ کرلیں، متحد ہوجائیں، یقین کرلیں کہ کوئی نجات دہندہ نہیں آئے گا۔ ہمیں خود اپنا بوجھ اٹھانا ہے، اپنا آپ بچانا ہے۔

بس کوئی چیخ، کوئی سسکی، کوئی آہ، کوئی آنسو، اب نہیں، ہم سب کو اس ظلم و ستم کے سمندر میں بہائو کے خلاف لڑنا ہوگا، کھڑے ہونا ہوگا، اپنے حق کے لئے۔ ساری عورتوں کے حقوق کے لئے، سب سے پہلے تعلیم اور شعور حاصل کریں۔ بچوں کی تربیت کریں، خاندان کا استحکام، میڈیا تک مثبت رسائی اورعدل و انصاف کا حصول بہت ضروری ہے۔ اپنے لئے، سب کے لئے اورتمام عورتوں کے لئے یکجا ہو کر ایک آواز بلند کرنا ہوگی،ان کو زندگی جینے کا ڈھنگ سیکھنا اور سکھانا ہوگا۔ 

ناانصافی کی بلاکم و کاست نشاندہی اور مداوار کرنا ہوگا،ظلم اور زیادتی کے خلاف مظلوم کی آواز بننا ہوگی ، اجتماعی بزدلی کو بہادری میں بدلنا ہوگا، اپنی عزت و توقیر بڑھانا اور اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا، کیونکہ ؎

اندھیرا کتنا گہرا ہو

سحر کی راہ میں حائل

کبھی بھی ہو نہیں سکتا

سویرا ہو کے رہتا ہے

بہنوں بیٹیوں آئو ہاتھ بڑھائو، تاکہ ہاتھوں کی زنجیر بنائیں، اس کے درمیان ایک سمندر بنائیں، محبت عزت اور توقیر کا سمندر اور اس کے شفاف پانیوں میں ہم سب ڈوب جائیں۔ ڈوب کر ابھریں اور پھر ڈوب جائیں… زندگی کا سمندر بہتا چلا جاتا ہے۔ نسل در نسل چہرے اس کی لہروں میں ابھرتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں۔ لہروں کے مخالف تیرنے والوں کے لئے پیغام۔

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے

ماہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا

مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے

لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے

ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے

ہمت کرو جینے کو تو ایک عمر پڑی ہے

تازہ ترین