احتشام طورو، پشاور
اللہ تعالیٰ نے خیبر پختون خوا کو ایسے قدرتی حُسن سے نوازا ہے کہ جو دُنیا بَھر کے سیّاحوں کی توجّہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ پاکستان کا یہ صُوبہ برف پوش چوٹیوں، دریائوں، جھیلوں، آبشاروں اور جنگلات سمیت دیگر دِل فریب مناظر اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے اور وادیٔ سوات، کاغان، ناران، شوگران، نتھیا گلی، کمراٹ اور وادیٔ کوہستان اپنی فطری خُوب صُورتی، دِل کشی اور رعنائی کے باعث پاکستان کے حسین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ان علاقوں کے باشندے مہمان نواز، فضائیں عطر بینر اور مناظر سحر انگیز ہیں۔ یہاں موسمِ سرما میں برف باری ہوتی ہے، تو ہر شے سفیدی سے ڈھک جاتی ہے اور جب موسمِ گرما میں برف پگھلتی ہے، تو وادیاں دُھل سی جاتی ہیں اور چہار سُو سبزہ دِکھائی دینے لگتا ہے۔ خیبر پختون خوا مُلک میں سیّاحت کی ترقّی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، لیکن نائن الیون کے بعد رُونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے نہ صرف صُوبے کے قدرتی حُسن کو ماند کیا، بلکہ غیر مُلکی سیّاحوں نے خوف کے مارے کے پی کے سمیت پاکستان بَھر سے منہ موڑ لیا۔
تاہم، گزشتہ چند برس کے دوران امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے اور ترقّیاتی کاموں کی وجہ سے صُوبے میں سیّاحت کو خاصا فروغ ملا ہےاور مُلکی و غیر مُلکی سیّاح خیبر پختون خوا کے پُرفضا مقامات کی سیر کے لیے آنا شروع ہو گئے۔
پاکستان ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے مطابق، 2014ء سے ستمبر 2017ء تک 163غیر مُلکی سیّاحوں نے خیبر پختون خوا کے مختلف سیّاحتی مقامات کا دورہ کیا، جو صُوبے میں سیّاحت کے فروغ کا ایک مثبت اشاریہ ہے۔ اس ضمن میں ٹریول اینڈ ٹور آپریٹرز کا ماننا ہے کہ خیبر پختون خوا میں سیّاحت تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور اب سیّاح کاغان، ناران، وادیٔ سوات، کالام، کمراٹ اور دیگر علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں اور ہر سال سیّاحوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ اس شعبے میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
تاہم، سیّاحوں کی بڑھتی تعداد کی نسبت رہائشی سہولتوں میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ نیز، سیّاحت کو صنعت کا درجہ نہ دینا افسوس ناک ہے، جس کی وجہ سے بینکس قرضے دیتے ہیں اور نہ ہی اس سیکٹر کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے صُوبے میں سیّاحت کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کیے، جس کی سب سے بڑی مثال مُلکی تاریخ میں پہلی مرتبہ باقاعدہ سیّاحتی پالیسی کا اعلان ہے۔ اس پالیسی کے تحت سیّاحت کو منظّم انداز سے فروغ دیا جائے گا، تاکہ یہ شعبہ معاشی ترقّی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
مذکورہ پالیسی کے تحت اگلے چند برسوں میں ٹورازم سیکٹر میں تقریباً 50ارب روپے کی سرمایہ کاری کو ممکن بنایا جائے گا اور پارکس، ثقافتی مراکز، ریسٹ ایریاز، سڑکوں، ہاسٹلز، ہوٹلز اور ریسٹورینٹس سمیت دیگر سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ ٹور آپریٹرز کی تربیت کا بندوبست بھی کیا جائے گا۔ نئی سیّاحتی پالیسی پر عمل درآمد سے صوبے کو سالانہ50ارب روپے کی آمدن ہو گی اور سیّاحت کے فروغ سے مقامی باشندوں کو روزگار بھی ملے گا۔
اس وقت کے پی کے میں تقریباً400ریسٹ ہائوسز قائم ہیں اور ان سب کو کمرشلائز کیا جا رہا ہے۔ مستقبل میں یہاں 3نیشنل پارکس بنائے جائیں گے، جن میں جنگلی حیات کو محفوظ کیا جائے گا۔ نیز، صوبے میں موجود کم و بیش250ثقافتی آثار کو بحال کرنے سمیت محفوظ کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں، صوبائی حکومت نے سیّاحتی پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے خیبر پختون خوا ہوٹلز، ریسٹورنٹس ترمیمی ایکٹ 2013ء، کے پی ٹریول ایجنسیز ترمیمی ایکٹ 2013ءاور کے پی ٹور ازم گائیڈز ترمیمی ایکٹ 2013ءپرنظرِثانی شروع کر دی ہے اور ہوٹلز کی رجسٹریشن کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح سیّاحوں کو بہترین سفری سہولتیں، رہائش اور معیاری اشیائے خور و نوش کی فراہمی اور ٹریول ایجینٹس کی رجسٹریشن اور ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز اور تمام ٹریول ایجینٹس کا ریکارڈ آن لائن کرنے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مستحکم کرنے کے کے لیے مالم جبہّ چیئر لفٹ ایک نجی فرم کو لیز پر دے دی گئی ہے، جب کہ جھیل سیف الملوک پر چیئر لفٹ، ہنڈ کے مقام پر واٹر پارک، گلیات میں تِھیم پارک اور تخت بائی میں عالی شان فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر سمیت دیگر سہولتوں کی فراہمی میں بھی نجی فرمز کو شریک کیا جا رہا ہے۔
نتھیا گلی کی طرز پر کالام اور ناران کو سیّاحوں کے لیے مزید پُر کشش بنانے کے لیے ایک ارب 80کروڑ سے زاید رقم کی لاگت سے تعمیراتی کام جاری ہے۔ کالام میں سڑکوں کی بحالی و کشادگی کے علاوہ دیگر تفریحی سہولتوں کی فراہمی پر بھی کام جاری ہے۔ بحرین سے مہو ڈھنڈ تک6ریسٹ ایریاز تعمیر کیے جا رہے ہیں، جن کی تعمیر میں مقامی پتّھر استعمال ہو گا۔
اسی طرح ناران میں بھی کاغان سے بٹہ کنڈی تک نصف درجن ریسٹ ہائوسز کی تعمیر جاری ہے۔ سیّاحت کے فروغ کے لیے حکومت نے صوبے کے6مزید مقامات کو سیّاحتی مرکز میں بدلنے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں کوہستان میں واقع، وادیٔ سپاٹ، وادیٔ چوور پالس، وادیٔ مورالائی، ہزارہ کی وادیٔ ماہ نور، وادیٔ شران اور وادی مچر سر شامل ہیں اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین، عمران خان نے ان خُوب صُورت ترین مقامات کے دورے کے بعد وزیرِ اعلیٰ، پرویز خٹک اور ٹور ازم کارپوریشن، خیبر پختون خوا کے حُکّام کو انہیں سیّاحتی مقامات میں بدلنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ہدایت کی اور ان مقامات تک رسائی کی خاطر جلد ہی سڑکوں کی تعمیر اور دیگر ترقّیاتی کاموں کے لیے سروے کروا کر پی سی ون تیار کیا جائے گا۔ تاہم ، اس کے ساتھ ہی شہریوں اور سیّاحوں میں سیّاحتی مقامات کو کچرے اور گندگی سے پاک رکھنے کے لیے شعور بھی بیدار کرنا ہو گا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق،سالانہ 88لاکھ مقامی سیّاح خیبر پختون خوا سیر کے لیے آتے ہیں اور اس مَد میں صوبے کو سالانہ 12.26ارب روپے کی آمدن ہوتی ہے، لیکن نئی سیّاحتی پالیسی پر عمل درآمد سے صوبے کو اس مَد میں سالانہ 50ارب روپے کی آمدنی ہو گی۔ تاہم، اس پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے مختلف چیلنجز در پیش ہوں گے، جن میں امن و امان کی ناقص صورتِ حال، خستہ و تباہ حال انفرااسٹرکچر اور مارکیٹنگ اسٹریٹجی اور ہُنر مند افرادی قوّت کی کمی قابلِ ذکر ہیں۔
پھر صُوبے میں سیّاحتی سرگرمیوں کے مرکز، ضلع سوات میں سڑکوں کی حالت کو بھی بہتر بنانا ہو گا۔ جھیلوں اور آبشاروں کی جانب جانے والے راستوں پر لنک روڈز بنانا ہوں گے، جب کہ سیّاحوں کی رہنمائی کے لیے ٹورسٹ انفارمیشن سینٹرز اور ٹورسٹ فیسیلی ٹیشن سینٹرز کا قیام بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق، 2013ء سے 2016ء تک مُلک میں غیر مُلکی سیّاحوں کی آمد میں تین گُنا، جب کہ مُلکی سیّاحوں کی تعداد میں 30فی صد اضافہ ہوا۔
ورلڈ ٹریول اینڈ ٹور ازم کائونسل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں مستقبل میں پاکستانی معیشت میں سیّاحت کاحصّہ 2.3کھرب روپے تک پہنچنے کی پیش گوئی کی ہے، جو6فی صد بنتا ہے اور اس میں ہر برس5.8فی صد کی شرح سے اضافہ متوقّع ہے، جب کہ غیر مُلکی سیّاحوں سے ہونے والی آمدنی2027ءتک 204ارب روپے تک پہنچنے کی توقّع ہے۔
اس سلسلے میں’’جنگ‘‘ سےگفتگو کرتے ہوئے وزیرِا علیٰ خیبر پختون خوا کے مُشیر برائے سیّاحت، عبدالمنعم نے بتایا کہ’’ خیبر پختون خوا حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیّاحتی پالیسی کا اعلان کیا اور اس پالیسی کے تحت ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن، خیبر پختون خوا سیّاحت کے فروغ کے حوالے سے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔
سیّاحت کے لیے مختص بجٹ 52کروڑ سے بڑھ کر 3.5ارب تک پہنچ گیا ہے اور اگر ہماری حکومت قائم رہی، تو سیّاحت کے فروغ کے لیے 6ارب روپے بجٹ مختص کیا جائے گا۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’سیّاحوں کی حفاظت کے لیے ٹور ازم پولیس فورس تشکیل دی گئی ہے۔ منگلور تا مالم جبہّ، ریسٹ اینڈ ری کریئیشن ایریاز کی تعمیر پر کام جاری ہے۔ مالم جبہ میں چیئر لفٹ نے کام شروع کر دیا ہے اور یہاں ایک فائیو اسٹار ہوٹل بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔
اس مقصد کے لیے ٹور ازم کارپوریشن نے قواعد و ضوابط کے تحت ایک نجی فرم کو 30سال کی لیز پر زمین دی ہے، جو حکومت کو سالانہ ایک کروڑ 30لاکھ روپے ادا کرے گی اور اس میں ہر سال10فی صد اضافہ ہو گا۔ بشگرام، شاران اور ٹھنڈیانی میں کیمپنگ پوڈز بنائے گئے ہیں، جب کہ جنوبی اضلاع میں شیخ بدین میں کیمپنگ پوڈ بنایا گیا ہے۔
اسی طرح صوابی، ہزارہ اور مالاکنڈ کے مختلف سیّاحتی مقامات پر بھی تقریباً 50کیمپنگ پوڈز بنائے جا رہے ہیں، جو موسمِ گرما سے قبل مکمل ہو جائیں گے۔ شانگلہ میں سیّاحوں کو راغب کرنے کے لیے یخ تنگی کے مقام پر ٹینٹ ویلج قائم کیا جا رہا ہے، جہاں سیّاحوں کو ہر قسم کی سہولتیں میسّر ہوں گی۔ سوات میں چار منصوبوں پر کام جاری ہے اور یہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بحرین پارک کو بحال کیا جا رہا ہے، جب کہ ریسٹ ہائوسز کی تعمیر کے لیے اراضی بھی حاصل کر لی گئی ہے۔
ٹور ازم ایریا انٹیگریٹڈ ڈیولپمنٹ یونٹ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر، توصیف خالد نے بتایا کہ ’’صوبائی حکومت نے سیّاحت کے فروغ کے لیے ٹی ڈی یو پراجیکٹ کے تحت 2.5ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس پراجیکٹ کے تحت کالام اور ناران کو مزید پُرکشش بنانے کے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے، جب کہ جلد ہی چترال اور بونیر میں بھی ترقّیاتی کام شروع کیا جا رہا ہے۔ کالام میں گھائل نیا سیّاحتی مقام ہے اور اسے بھی مزید پُرکشش بنایا جائے گا۔
اس کے علاوہ یہاں ریسٹ ایریا بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ کالام میں سڑکوں کی تعمیر مکمل ہو چُکی ہے، جب کہ تزئین و آرایش کا کام خراب موسم کی وجہ سے روک دیا گیا ہے ۔ تاہم، ناران بھی جلد ہی سیّاحوں کے لیے مزید پُر کشش مقام بن جائے گا۔‘‘ توصیف خالد کا مزید کہنا تھا کہ ’’مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژنز میں ورلڈ بینک کے تعاون سے5اور یو این ڈی پی کے تعاون سے10کیمپنگ پوڈز بنائے جا رہے ہیں۔
ان کے لیے جگہ کا تعیّن کر لیا گیا ہے اور جلد ہی زمین بھی حاصل کر لی جائے گی۔ جھیل سیف الملوک پر چیئر لفٹ کی تنصیب کے حوالے سے ایک الیکٹرانک کمپنی کے ساتھ جلد ہی معاہدہ کیا جائے گا۔ یہ کمپنی حکومت کو سالانہ4.5کروڑ روپے ادا کرے گی اور اس میں سالانہ10فی صد کی شرح سے اضافہ کیا جائے گا۔
جھیل سیف الملوک کے گرد سڑک کی تعمیر آخری مراحل میں داخل ہو چُکی ہے، جب کہ سائیڈ ڈرین بھی بہترین انداز میں تعمیر کی جا رہی ہے، جس پر کم و بیش 6.5کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ اس کے علاوہ خویشگی میں ایک تِھیم پارک تعمیر کیا جا رہا ہے، جس میں ایک بوٹینیکل گارڈن بھی ہوگا اور اس کا ایک حصّہ ’’بلین ٹری پراجیکٹ‘‘ کے لیے مختص ہو گا۔
رپورٹ کی تیاری کے دوران ’’سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن‘‘ کے صدر، حاجی زاہد خان نے بتایا کہ ’’ 2007ء سے 2009ء تک دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے سوات میں ہوٹل انڈسٹری کو تقریباً 7.5ارب روپے کا نقصان پہنچا، جب کہ 2010ء کے سیلاب سے کم و بیش6ارب روپے کا خسارہ ہوا۔
اس وقت ضلع سوات میں مجموعی طورپر 350ہوٹلز اور 300ریسٹورینٹس سیّاحوں کو سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ سوات میں 105جھیلیں ہیں، جو سیّاحتی مرکز میں تبدیل ہو سکتی ہیں، لیکن ان تک رسائی کے لیے کوئی راستہ نہیں۔‘‘ جب کہ ’’ناران ہوٹلز ایسوسی ایشن‘‘ کے صدر، مطیع اللہ کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت کاغان اور ناران میں417سے زاید ہوٹلز سیّاحوں کو خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
تاہم، ہوٹل مالکان کو ٹیکسز کی بھرمار کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ پھر سیّاحتی مقامات کی جانب جانے والی راستے بھی خستہ حال ہیں، جن کی بحالی و کشادگی اور گاڑیوں کے لیے پارکنگ ایریاز کا قیام ناگزیر ہے، جب کہ ناران میں سیّاحوں کی جانب سے پھینکے جانے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بھی کوئی انتظام نہیں۔‘‘
کے پی کے میں سیّاحت کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں ’’ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن، خیبر پختون خوا کے منیجنگ ڈائریکٹر، مشتاق خان کا کہنا تھا کہ’’ پچھلے چار برس کے دوران ہماری اَن تھک محنت کے نتیجے میں صوبے میں ٹور ازم انڈسٹری بحالی کی جانب گام زن ہے۔
ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور ہمارے منصوبوں کی بہ دولت مُلکی و غیر مُلکی سیّاح یہاں آنے لگے ہیں اور اس کے نتیجے میں مقامی ہُنرمندوں کے ہُنر کو بھی فروغ مل رہا ہے۔‘‘اس ضمن میں سابق صوبائی وزیر برائے سیّاحت، سیّد عاقل شاہ کا کہنا تھا کہ ’’دُنیا میں تیل کے بعد سیّاحت ہی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان میں خیبر پختون خوا کی اس اعتبار سے ایک کلیدی حیثیت ہے، لیکن جب تک سیّاحت کو باقاعدہ صنعت کا درجہ نہیں دیا جاتا، یہ شعبہ فروغ نہیں پا سکتا۔ گزشتہ برسوں میں سوات پر طالبان کے قبضے اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں اس خُوب صُورت مقام کو بہت نقصان پہنچا۔
تاہم، بعدازاں ہماری حکومت نے سوات سے بحرین تک ایک سڑک تعمیر کی، لیکن بحرین سے کالام تک 36کلومیٹر طویل سڑک ابھی تک تعمیر نہیں کی گئی۔ اسی طرح خان پور میں واٹر اسپورٹس ریزورٹ کی تعمیر بھی ہمارے دَور میں شروع ہوئی۔ پھر ہم نے ناران سے جھیل سیف الملوک تک کیبل کار کے لیے ایک جامع فزیبلٹی رپورٹ تیار کی۔ نیز، سیّاحت کے فروغ کے لیے کراچی اور اسلام آباد میں دفاتر بھی قائم کیے۔ دُنیا بھر میں سیّاحت پرائیویٹ سیکٹر میں ہی میں فروغ پاتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں اس شعبے پر سرکاری اداروں نے اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔
گرچہ ہمارا دَورِ حکومت دہشت گردی کی نذر ہو گیا، لیکن اس کے باوجود ہم نے صوبے میں سیّاحت کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔‘‘سوات سے تعلق رکھنے والے لکھاری، فضل خالق کا کہنا تھا کہ ’’غیر مُلکی سیّاح این او سی کے بغیر سوات میں داخل نہیں ہو سکتے۔ گرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے یہ شرط ختم کر دی ہے، لیکن عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا۔
جاپان سمیت دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے سیّاح پاکستان آنا چاہتے ہیں، لیکن این او سی اُن کی راہ میں رُکاوٹ ہے اور جب تک حکومت غیر مُلکی سیّاحوں کے لیے این او سی کی شرط ختم نہیں کرتی، سوات میں غیر مُلکی سیاحوں کی آمد نا ممکن ہے اور اگر وہ کسی طرح یہاں پہنچ بھی جائیں، تو چیک پوسٹس پر انہیں بے جا تنگ کیا جاتا ہے اور اس قسم کے حالات میں غیر مُلکی سیّاح کس طرح سوات اور مالاکنڈ ڈویژ ن کا رُخ کریں گے۔