فاروق اقدس، اسلام آباد
اہلِ جاپان پر زلزلوں کی شکل میں قدرتی آفات بھی اُن کی تاریخ کا ایک حصّہ ہیں اور اس حوالے سے اگر جاپان کو ’’زلزلوں کی سر زمین‘‘ بھی کہا جائے، تو بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں 7.6شدّت کے زلزلے انتہائی خطرناک تصوّر کیے جاتے ہیں، لیکن جاپان میں زلزلوں کی یہ شدّت محض غیر معمولی سمجھی جاتی ہے۔ اگر ماضیٔ قریب کے حوالے سے بات کی جائے، تو 11مارچ 2011ء کو جاپان میں آنے والے زلزلے کی، جو سونامی کا سبب بھی بنا تھا، ریکٹر اسکیل پر شدّت 9.1تھی اور اس شدّت کے باعث سمندر کی 30فٹ بلند لہروں نے جو تباہی مچائی اور جس طرح آناً فاناً بستیوں کو تباہ و تاراج کیا، اُس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ مذکورہ زلزلے کو دُنیا کے 5بڑے زلزلوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں لگ بھگ 16ہزار افراد ہلاک، 2.5ہزار سے زاید لاپتا اور 6ہزار سے زایدزخمی ہوئے، جب کہ اس سانحے میں مجموعی طور پر360ارب ڈالرز کا مالی نقصان ہوا۔
جاپان میں عام شہریوں کو زلزلے کی پیشین گوئی کے بعد اور زلزلے کے دوران اور بعد کے مراحل سے آگہی فراہم کرنے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے لیے مختلف مراکز قائم کیےہیں، جہاں انہیں نہایت جامع معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے کا ایک اہم مرکز ’’Tokyo Rinkai Disaster Prevention Park‘‘ ہے، جس کا ہمیں دورہ بھی کروایا گیا۔ ٹوکیو کے میٹرو پولیٹن ایریا میں واقع اس مرکز سے مواصلاتی نظام کے ذریعے زلزلے کی اطلاع دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد کی صورتِ حال کے بارے میں بلا تاخیر اطلاعات کی فراہمی شروع ہو جاتی ہے اور ہنگامی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پارک میں ایک ’’بَیس سینٹر‘‘ بھی قائم ہے، جہاں فوری طور پر متاثرین کو منتقل کیا جاتا ہے اور زلزلےکےنتیجے میں بےگھر ہونے والےافرادکو رہائش بھی فراہم کی جاتی ہے۔
اس مرکز میں شہریوں کو معلومات کی فراہمی کے لیے عملی مظاہرے بھی ہوتے ہیں، تاکہ وہ بہ وقتِ ضرورت از خود اپنے تحفّظ کے لیےاقدامات کرسکیں۔ سینٹرکادورہ کرنے والے افراد کو ایک سوال نامہ دیا جاتا ہے، جو ایک مواصلاتی نظام سے منسلک ہوتا ہے۔ سوال نامے میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ زلزلہ آنے کی صورت میں آپ سب سے پہلے کیا کریں گے؟ کیا گھر سے فوراً باہر نکل آئیں گے اور اگر ایسا ممکن نہیں، تو گھر میں کس جگہ پناہ لیں گے؟
اگر آپ کسی ایسے مقام پر سکونت پزیر ہیں کہ جہاں زیادہ زلزلے آتے ہیں، تو حفظِ ما تقدّم کے طور پر گھر کا فرنیچر کیسا ہونا چاہیے اور آپ کا بیڈ کہاں ہونا چاہیے؟ نیز، اسی طرح کے اور بھی کئی سوالات پوچھے جاتےہیں اور ہرجواب کے نمبر ہوتے ہیں، جنہیں آخر میں شمار کیا جاتا ہے اور اُن سے جواب دینے والے فرد کی ذہنی استعداد اور قوّتِ فیصلہ کا اندازہ لگایا جاتا ہےپھرجوابات شمار کر کے مزید معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ سینٹر کے دورے کے دوران ہم سے بھی یہ سوال پوچھا گیا کہ ’’اگر آپ کو زلزلے کا احساس ہوتا ہے، تو آپ سب سے پہلے کیا کریں گے؟‘‘
ہم نے فوراً جواب دیا کہ ’’سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگتے ہوئے کلمۂ شہادت پڑھیں گے‘‘ جواب دینے کے بعد ہم نےسوال کُنندہ کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی، جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، کیوں کہ اُسے ہمارے جواب کا اندازہ تھا اور پھر اُس نے ہمیں بتایا کہ ’’صرف آپ ہی نہیں، بلکہ بھارت، بنگلا دیش اور بعض دوسرے اسلامی ممالک سے آنے والے افراد بھی ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘
بَیس سینٹرکےاستقبالیےپر جاپانی جھنڈے کے ساتھ پاکستان کا پرچم بھی موجود تھا، جو اس بات کی غمّازی کر رہا تھا کہ جاپانی شہریوں کے ساتھ ایک پاکستانی صحافی بھی سینٹر کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔
جاپان کے دورے کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ جاپانی باشندے اگر ضعیف العقیدہ نہیں، تو توّہم پرست ضرور ہیں، کیوں کہ وہ بودھ مَت کے پیروکار ہونے کےساتھ بعض اَن دیکھی طاقتوں پربھی یقین رکھتےہیں اوراس یقین کی بنیاد بعض اشکال، اعداد و شمار اورہندسوں پر ہوتی ہے۔ ہم نے بعض سیّاحتی مقامات پر ایسی موم بتیاں بھی دیکھیں، جنہیں ’’دُعائیہ موم بتیوں‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور ہر موم بتی پر ایک خاص مقصد کے لیے عبارت درج تھی۔
مثال کے طور پر کوئی موم بتی خود کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے تھی، تو کوئی پورے خاندان کے تحفّظ کے لیے۔ اسی طرح دل کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے، مَن پسند شادی کی خواہش پوری ہونے، کاروبار میں وسعت، ڈیپریشن سے نجات، کینسر کے موذی مرض سےبچائو، دو طرفہ محبت کی تکمیل، روزگار کے حصول اور ٹریفک کے حادثات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی الگ الگ موم بتیاں موجود تھیں۔ گویا موم بتیاں نہ ہوئیں، ہمارے ہاں کا کوئی نام نہاد نجومی یا بابا ہو گیا۔
عقیدے کے مطابق مطلوبہ موم بتی جلا کر اپنی خواہش کو دِل ہی دِل میں دُعائیہ انداز میں دُہرایا جاتا ہے اور یہ موم بتیاں خرید کر گھر بھی لے جائی جاسکتی ہیں۔ چُوں کہ یہ موم بتیاں مزارات پر فروخت ہوتی ہیں، اس لیے وہاں ان کے لیے ایک خصوصی جگہ مختص کی گئی ہے۔ اسی طرح مزارات پر اگر بتی کی مانند سلگنے والی پتلی سی اسٹکس بھی موجود ہوتی ہیں۔
ایک اسٹک 20سے 30جاپانی ین میں ملتی ہے اور مزار میں آنے والا ہر شخص وہاں موجود ایک اسٹینڈ میں موجود راکھ کے ڈھیر میں اُسےسلگا کر آنکھیں بند کرکے اپنی خواہش کا اظہارکرتاہے، جس سے دوسرے لوگ بھی استفادہ کرتے ہیں، جب کہ دُعائیہ موم بتی کی قیمت 50سے 70جاپانی ین ہوتی ہے۔
اسی طرح مختلف تفریحی مقامات پر خُوب صُورت رنگوں کے اعداد و شمار اور اشکال والے اسٹیکرز بھی اسٹینڈز پر آویزاں ہوتے ہیں اور ان اسٹیکرز پر بھی کچھ ایسی ہی خواہش کی تکمیل کے تذکرے موجود ہوتے ہیں۔ ایسے اسٹالز میں عموماً کم سِن لڑکیاں دِل چسپی لیتی ہیں۔ تاہم، ہر عُمر کے افراد کی دُعائیہ موم بتیوں اور ان اسٹیکرز کی جانب توجّہ ضرور ہوتی ہے، خواہ وہ انہیں خریدیں یا نہ خریدیں۔
ایک زمانہ تھا کہ جب امریکا اور برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک میں دورانِ سفر مطالعے کے رُجحان پر جنون کا گماں ہوتا تھا۔ سفر طویل ہو یا مختصر، فلائٹ اناؤنس ہوتے ہی سیٹ بیلٹ باندھنے کے بعد پہلا کام اخبار کی وَرق گردانی یا کتاب میں انہماک کی صورت دیکھنے میں آتا اور یہی صورتِ حال انڈر گرائونڈ ٹرینز میں بھی دِکھائی دیتی تھی، لیکن اب صورتِ حال تبدیل ہو چُکی ہے۔
اب اخبار کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے اور جاپان میں دورانِ سفر یہ مناظر جا بہ جا دیکھنے میں آتے ہیں۔ مسافر نشست پر بیٹھتے ہی قُرب و جوار سے قطعی لاتعلق ہو کر اپنے موبائل فون میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ جدید ترین موبائل فونز پر ای میلز پڑھی اور بھیجی جاتی ہیں۔ یعنی پیغام رسانی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی مطالعے کے شوقین افراد دورانِ سفر اپنی پسندیدہ کُتب کےانٹرنیٹ ورژن پڑھنے میں بھی مصروف نظر آتےہیں۔ تاہم، اس کے باوجود اخبار سے تعلق ختم نہیں ہوا اور دس میں سے ایک مسافر کے ہاتھ میں اخبار بھی دِکھائی دیتا ہے۔
ٹوکیو میں ہماری ملاقات جاپانی نژاد پاکستانی صحافی اور اینکر پرسن، ہمایوں مغل سے بھی کروائی گئی، جو 25سال پیش تر جاپان منتقل ہو گئے تھے۔ انہوں نے ایک جاپانی گھرانے ہی میں شادی کی اور اب اپنے بیوی بچّوں ہی نہیں، بلکہ پوتوں اور نواسوں کے ساتھ وہیں رہتے ہیں۔ ہمایوں مغل کا تعلق راول پنڈی سے ہے۔
اُنہیں جاپانی بولنے اور لکھنےپرمکمل دسترس حاصل ہے۔وہ جاپانی اخبارات کےلیے بھی مضامین تحریر کرتے رہتے ہیں اور پاکستان سے جاپان جانے والی اہم شخصیات کے مترجم کےفرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ نیز، اُن کی مصروفیات کی میڈیا کوریج اور انٹرویوز میزبانی کے طور پر کرتے ہیں۔
ہمایوں مغل کو نہ صرف جاپانی سوسائٹی میں معتبر انداز سے رسائی حاصل ہے، بلکہ اُنہیں پاکستان کے ایک مقبول اور پسندیدہ شخص کی حیثیت بھی حاصل ہے اور اسی باعث اُنہیں ٹوکیو میں ہونے والی سرکاری تقریبات میں بہ طور خاص مدعو کیا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’جاپانی عوام کی سچ بولنے کی عادت، خلوص، وعدے کی پاس داری اور وقت کی پابندی ایسی خصوصیات ہیں کہ جنہوں نے اُسے دُنیا کی ایک بڑی قوم بنا دیا ہے۔
مَیں ہر سال پاکستان جاتا ہوں اور اپنے مُلک کے عوام میں یہ صِفات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن مُجھے ہمیشہ مایوسی ہوتی ہے۔‘‘ ہمایوں مغل جاپان ہی میں رہتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے مُلک سے ناتا نہیں توڑا اور بہ حیثیت صحافی بھی اُنہیں اپنے مُلک کی پَل پَل کی خبر ہوتی ہے اور وہ ٹوکیو میں رہتے ہوئے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال کا بہترین تجزیہ کرتے ہیں۔
وہ جاپان کے نظام کو پاکستان منتقل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، تاکہ پاکستان بھی جاپان کی طرح ترقّی کر سکے۔ اسی موضوع پر انہوں نے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے، جس کا عنوان ہے، ’’مُجھے پاکستان آنے دو۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’پاکستان کے بارے میں جب بھی کوئی خبر آتی ہے، تو میرا پورا گھرانا اُسے بڑی توجّہ سے سُنتا ہے اور پھر میرے اہلِ خانہ اس بارے میں مجھ سے سوالات بھی کرتے ہیں۔ اس موقعے پر میرا گھر ایک ’’مِنی پارلیمنٹ‘‘ بن جاتا ہے۔ جب پاکستان میں میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا اور اُن پر کرپشن کے الزامات عاید کیے گئے، تو بھی ایسی ہی صورتِ حال پیش آئی تھی۔ (ختم شُد)
جاپان میں دس دن کی مصروفیات کا اختتام ہوا چاہتا تھا اور اب تک یہ شب و روز خاصے تھکا دینے والے محسوس ہو رہے تھے۔ صبح سات بجے اپنے اسکارٹ کے لابی میں منتظر ہونے کا احساس اتنا پریشان کُن ہوتا کہ پانچ بجے الارم کے بغیر ہی آنکھ کُھل جاتی۔ پوری تیاری کے بعد ساڑھے چھے بجے ناشتے کی ٹیبل پر اور سات بجے لابی میں اور پھر تمام دن بھاگ دوڑ، انٹرویوز، ملاقاتیں، مختلف مقامات پر بریفنگ اور پھر رات کو بستر پر گر جانا۔
کئی مرتبہ شدید تھکاوٹ کے باوجود بھی اور شاید غیر معمولی تھکن کے باعث نیند نہ آتی، تو یہ شعر یاد آتا کہ؎ اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے…دِن بَھر کی مشقّت سے بدن ٹوٹ رہا ہے۔ مگر جب واپسی کا وقت قریب آیا، تو بھی عجیب سا محسوس ہونے لگا اور کام کا بوجھ اُٹھائے جن مقامات اور تاریخی گوشوں کو سرسری دیکھتے ہوئے گزرے تھے، انہیں جی بَھر کر دیکھنے کے لیے دِل مچلنے لگا۔ ایک تشنگی سی محسوس ہو رہی تھی۔ یعنی ’’ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی تمنّا ہے۔‘‘
دِل چاہتا تھا کہ ایک مرتبہ پھر اُن مقامات سے گزر ہو اور سب چیزوں، لوگوں اور مناظر کو دوبارہ ٹھہر کر دیکھا جائے۔ کل تک وقت گزرنے کا عمل ایک بوجھ سا لگ رہا تھا اور اب بار بار مُڑ مُڑ کر تمام چیزیں دیکھنے کی تمنا تھی۔ صبح سات بجے لابی میں ہماری چاق چوبند، ہشّاش بشّاش اور مُسکراتی ہوئی اسکارٹ، مسز ماساکو ہیروشی ہماری منتظر تھیں۔ رسمی جملوں کے بعد انہوں نے بتایا کہ ’’ہم یہاں سے ہوٹل کی شٹل بس سروس میں کن سائی ایئرپورٹ جائیں گے، جہاں سے آپ بینکاک کی پرواز لیں گے اور پھر وہاں سے اسلام آباد کی۔‘‘ گوکہ ہوٹل سے ایئرپورٹ کی مسافت زیادہ طویل نہیں اور وقت بھی خاصا باقی تھا، لیکن نہ جانے کیوں ڈرائیور تیز رفتاری سے بس چلا رہا تھا،تو جی چاہا کہ اُسےکہا جائے کہ ’’اتنی بھی کیا جلدی ہے، واپس ہی تو جانا ہے، چلے جائیں گے۔‘‘ خیر، ایئرپورٹ پہنچے، تو سامان سنبھالا۔
بینکاک جانے والے مسافروں کی طویل قطار تھی، جن میں پاکستانی مسافر بھی شامل تھے۔ چوں کہ اسلام آباد سے ٹوکیو براہِ راست کوئی پرواز نہیں جاتی، اس لیے جاپان سے پاکستان جانے والے مسافروں کو بینکاک سے کراچی یا اسلام آباد کی پرواز لینی ہوتی ہے۔ اورچوں کہ اسکارٹ کے پاس لاؤنج تک جانے کےخصوصی پاسز ہوتے ہیں، اس لیے بورڈنگ کارڈ لینے کےبعد بھی مسز ماساکو ہیروشی ہمارے ساتھ رہیں۔ ابھی بورڈنگ میں تقریباً ایک گھنٹا باقی تھا۔
مسز ماساکو ہیروشی نے ہمارے دورے سے متعلق مجموعی تاثر کے بارے میں سوالات شروع کر دیے۔ پھر کافی کا دَور چلا اور جب فلائٹ اناؤنس ہوئی، تو انہوں نے اپنے بیگ سے ایک لفافہ نکالا اور سَر جُھکا کر ہمیں پیش کیا۔ چُوں کہ سوال کی کوئی گنجائش نہیں تھی، اس لیے تشکّر کے جذبے سے ہم نے بھی سَر جُھکا دیا۔ جیسے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوئیں، تو ہم نے تجسّس سے وہ لفافہ کھولا۔ اُس میں ہاتھ سے بنا ایک چھوٹا سا ریشمی پُھول مُسکرا رہا تھا، بالکل مسز ماساکو ہیروشی کی طرح۔