• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تفہیم المسائل

مفتی منیب الرحمٰن 

مُہربند حلال گوشت کا شرعی حکم

سوال: حلال جانور کو شریعت کے احکام کے مطابق ذبح کیاجاتاہے،پھر اُسے طبی اصولوں کے مطابق صاف اور منجمد کرکے پیکٹوںمیں مہربند کیاجاتاہے اوراُس پر حلال سرٹیفیکیشن کی مہر لگائی جاتی ہے ، پھر برّی یا بحری یا فضائی ذرائع سے مارکیٹ تک پہنچایا جاتا ہے ۔ بعض مفتیانِ کرام فرماتے ہیں کہ اُس کا کھانا اس لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مہربند ہونے سے مارکیٹ تک پہنچنے کے تمام مراحل میں مسلما ن کی نظروں کے سامنے نہیں رہتا ۔ آپ کے نزدیک اس کا شرعی حکم کیاہے ؟اُن مفتیانِ کرام کا منشابظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے راستے میں اسے کھول کر اس میں حرام گوشت کی آمیزش کردی جاتی ہو۔(مولانا محمد عقیل جامی،ہانگ کانگ )

جواب:مذکورہ صورت میں گوشت کی ترسیل کرنے والی کمپنی خواہ بری یابحری یافضائی ذرائع سے ترسیل کرے ،حلال گوشت درآمد کنندہ کی اجیر ہوتی ہے، اگرچہ وہ غیر مسلم ہوں،اس کے ذریعے گوشت منگوانا جائز ہے اور اس کمپنی کا یہ کہنا کہ یہ وہی گوشت ہے جو درآمدکیاگیاہے ،یہ معاملات کی خبر ہے اور معاملات میں کافر کی خبر بھی جائز ہے۔

علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’امام محمد نے فرمایا:جس نے اپنے کسی مجوسی نوکر یا خادم کو گوشت خریدنے کے لیے بھیجا ، پس اس نے گوشت خریدا اور کہا: میں نے یہودی یا عیسائی یا مسلمان سے گوشت خریدا ہے،تو مسلمان کے لیے اس گوشت کاکھاناجائز ہے ، اس لیے کہ معاملات میں کافر کی خبر معتبر ہے ،کیونکہ یہ خبرصحیح ہے،یہ ایسے شخص نے دی ہے ،جوعاقل ہے اور ایسے دین کا حامل ہے ،جس میں جھوٹ کو حرام جانا جاتاہے ، ایسے معاملات کی کثرت کے سبب اُس کی خبر قبول کرنے کی ضرورت بھی ہے ، (ہدایہ،جلد7،ص:183)‘‘۔

علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں :ترجمہ:’’جس نے اپنے کسی مجوسی نوکر یا خادم کو گوشت خریدنے کے لیے بھیجا ، پس اس نے گوشت خریدا اور کہا: میں نے یہودی یا عیسائی یا مسلمان سے گوشت خریدا ہے،تو مسلمان کے لیے اس گوشت کاکھاناجائز ہے اور اگر کسی غیر کتابی غیر مسلم سے خریدا تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے ‘‘۔مزید لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ کسی شخص نے گوشت خریدا ،جب اس گوشت پر قبضہ کرچکاتو کسی معتبر مسلمان شخص نے بتایاکہ دکاندار نے اس کے ساتھ خنزیر کا گوشت ملایاہے، تو اب اس گوشت کا کھاناجائز نہیں ہے ،’’تتار خانیہ‘‘ میں اسی طرح ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد5،ص: 308-309)‘‘۔

امام احمد رضاقادریؒ لکھتے ہیں: ’’اگر وقت ذبح سے وقت خریداری تک وہ گوشت مسلمان کی نگرانی میں رہے ،بیچ میں کسی وقت مسلمان کی نگاہ سے غائب نہ ہو اور یوں اطمینان کافی حاصل ہو کہ یہ مسلمان کا ذبیحہ ہے تو اس کا خریدنا جائز اور کھانا حلال ہوگا ،(فتاویٰ رضویہ ، جلد20، ص:282)‘‘ ۔ اعلیٰ حضرت کے اس حکم کا تعلق غیر کتابی کافر سے گوشت کی خریداری سے متعلق ہے ،اس صورت میں اعلیٰ حضرت کی بیان کردہ تمام قیودکا موجود ہونا ضروری ہے ،لیکن اگر مسلمان سے گوشت خریدا ہو اور درمیان میں غیر مسلم ملازم کے ذریعے اسے حاصل کیاجائے تو اس کے بارے میں فقہ کی کتابوں میں واضح جزئیات موجود ہیں کہ اس کا یہ کہنا کہ میں نے مسلمان یا کتابی سے یہ گوشت خریدا ہے ،اس گوشت کے حلال ہونے اور جائز ہونے کے لیے یہ کافی ہے، کیونکہ اس کا تعلق معاملات سے ہے اور معاملات میں غیر مسلم کی خبر بھی معتبر ہے ،اگرچہ وہ غیر کتابی ہو ۔

علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ دیانات میں کافر کا قول مقبول نہیں، ماسوا اس کے کہ جب کافر کا قول معاملات میں مقبول ہونے پر دیانات میں مقبول ہونے کو متضمن ہو،تو ایسی صورت میں دیانات ،معاملات میں داخل قرار پاتے ہیں ،پس بربنائے ضرورت کافر کا قول قبول کیاجائے گا ،جیساکہ ’’تبیین الحقائق ‘‘ میں ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد5،ص:308)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒ لکھتے ہیں: ’’ دیانات سے مراد وہ اُمور ہیں ،جس کا تعلق بندے اور رب کے مابین ہے ،مثلاً حِلّت ، حُرمت ، نجاست ، طہارت، (بہارِ شریعت،جلدسوم،ص:400)‘‘۔

ہمارے نزدیک حلال طریقے سے ذبح کیے ہوئے حلال جانور کے گوشت کو جب طبی لحاظ سے محفوظ بناکر مہربند کردیا گیاہو اور اس پر کسی حلال سرٹیفیکیشن ادارے کی سند بھی ثبت ہو ،پھر اس کی بری ،بحری یا فضائی راستے سے ترسیل کی گئی ہو اور اس دوران وہ مسلمان کی نظروں کے سامنے نہ بھی رہاہو،تو بھی اُسے استعمال کیاجاسکتا ہے، تاوقتیکہ اس کے برعکس شواہد موجود نہ ہوں ۔آج کل مسلم ممالک سمیت عالمی سطح پر دواؤں ،اشیائے خوراک اور دیگر مصنوعات کا کاروبار ہورہاہے اور اعتماد پر چل رہاہے ۔دواؤں یا مصنوعات کے پیکٹ پر درج فارمولے اور انتہائی تاریخ استعمال پر بھی اعتماد کیاجاتاہے ۔ کسی ایک ملک سے دوسرے ملک یا ایک شہر سے دوسرے شہر تک بری ،فضائی یا بحری راستوں سے ترسیل کاایسا انتظام عملاً ممکن نہیں ہے کہ پروڈکٹ ہر وقت کسی مسلمان کی نظر میں رہے ۔دین نے معاملات کا مدار یُسر اورعدمِ حرج پر رکھاہے، عرف اور عادت بھی یہی ہے ۔

بنیادی شرط یہ ہے کہ جہاں ذبیحہ ہورہا ہے، ذبح کرنے والا مسلمان ہو، جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے، کم از کم تین رگیں کٹ گئی ہوں اورمہربند ہونے تک ساراعمل مسلمان کی نگرانی میں ہو۔اسی طرح وہ مذبح جہاں یہودی اپنے مذہب کے مطابق اللہ کے نام پرذبح کرتے ہیں ،جسے Kosherکہا جاتا ہے، وہ بھی جائز ہے، کیونکہ قرآن کریم میں اس کی تصریح ہے اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور انڈیا کے زیر اہتمام مجلس شرعی نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے،(مجلس شرعی کے فیصلے، ج:1،ص: 347)۔ کسی ملک (مثلاً ہانگ کانگ )کے مسلمان تاجر کسی دوسرے ملک (مثلاً آسٹریلیا) کے جس مذبح سے گوشت منگواتے ہیں، بہتر ہے کہ ان کے علماء کا ایک وفدایک بار ذبح سے مہر بند ہونے تک وہاں کا نظام دیکھ کر اطمینان کرلے یا اس ملک میں موجود ثقہ علماء کی اس سلسلے میں دینی معاونت حاصل کرلیں۔ مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد لا مذہب اور ملحدہوچکی ہے، اس لیے ہمارے عہد کے علماء ان کے ذبیحے کو جائز نہیں سمجھتے ،لیکن ان میں سے جو اپنے باطل عقائد کے باوجود تحریف شدہ مسیحیت پر قائم ہیں،اگر وہ اللہ کے نام پرضروری شرائط کے مطابق ذبح کریں تو ان کے ذبیحے کا حکم بھی یہودیوں کے کوشر والا ہوگا۔نوٹ: ہمارا یہ فتویٰ مشینی ذبیحے سے حاصل شدہ گوشت کے لیے نہیں ہے ،جسے جھٹکے سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین