رواں ہفتے کےدوران کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کافی حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تقریبا روزانہ پیش آنے والے ان واقعات میں شہریوں سمیت پولیس اہلکاروں کوبھی نشانہ بنایاگیاہے۔
دوسری جانب حکومت اور متعلقہ ادارے ان واقعات کےآگے بےبس نظرآرہے ہیں۔
کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ کچھ عرصہ تھم گیا تھا لیکن اب گذشتہ چند روز کےدوران یہ سلسلہ اچانک پھر سےشروع ہوگیا ہے۔
ٹارگٹ کلرز اچانک پیدل یا موٹرسائیکل پر سوار نمودار ہوتے ہیں اور اپنے ہدف کو نشانہ بنا کر غائب ہوجاتے ہیں اور پولیس سمیت دیگرقانون نافذ کرنےوالے اداروں کےاہلکار دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
چار روز میں ہونے والے پانچ واقعات میں ایک ٹریفک سارجنٹ اورتین پولیس ہلکاروں سمیت پانچ افرادلقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اس سے قبل 28فروری کو ڈی ایس پی پرحملے میں دو اہلکارشہید ہوئے تھے۔
دوسری جانب ان واقعات کی روک تھام کےلیے موثر اقدامات اور حکمت عملی کا فقدان نظر آرہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی سالوں سے زیر غور سیف سٹی منصوبے پر بھی اب تک عملدرآمد نہیں ہوسکاہے۔
سیکورٹی کےحوالے سے سیف سٹی بہت اہم منصوبہ ہے، بدقسمتی سے اس پراجیکٹ پرعملدر آمد نہیں ہوسکا۔
دوسری جانب اچانک تواتر سے ہونے والے ان واقعات نےشہریوں کو تشویش میں مبتلا کردیاہے۔ مجلس وحدت مسلمین کےرہنماوں نے ان واقعات کو برادر اقوام کو لڑانے کی سازش قرار دیاہےجبکہ ان واقعات کےخلاف احتجاج بھی کیاجارہاہے۔
کوئٹہ میں بڑھتی بےامنی پر قابو پانے کےحوالے سے شہریوں کا مطالبہ ہے کہ دعووں اور مذمتی بیانات کی بجائے حکومت سیف سٹی جیسے منصوبے سمیت عملی اقدامات کی طرف توجہ دے۔