• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب ضد نہیں کروں گی

حمیرا مختار، کراچی

’’صبا کیا ہوا کیوں رو رہی ہو؟‘‘، دادی جان نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئےپوچھا۔

’’آج پھر ضد کررہی تھی اس لیے امی نے پٹائی کی ہے‘‘ ،حرا نے کہا۔

’’یہاں آئو میرے پاس ،مجھے بتائو کیا بات ہے؟‘‘، دادی نے اسے لاڈ سے اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’دادی جان مجھے ثناء جیسی سینڈل چاہیے، وہ بہت خوبصورت ہے۔ کومل آپی کی شادی میں، میں ایسی ہی سینڈل پہن کر جاؤں گی ورنہ نہیں …‘‘

صبا نے روتے ہوئے کہا، ’’صبا بیٹا! میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے، کسی کی چیزیں دیکھ کر مچلا نہیں کرتے کہ، مجھے بھی ایسی ہی چیز چاہیے، یہ بہت بری عادت ہے۔ اس سے اللہ بھی ناراض ہوتا ہے اور امی ابو کو بھی تکلیف پہنچتی ہے، لیکن آپ کو میری کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی۔‘‘، دادی نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔

صبا چھ سال کی پیاری بچی تھی۔ اس کے والد معمولی نوکری کرتے تھے۔ اس سے بڑے دو بھائی اور ایک بہن تھی۔ چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہ سب کی لاڈلی تھی۔ لیکن اس کی ایک عادت بہت خراب تھی کہ وہ کسی کے پاس کوئی اچھی چیز دیکھتے ہی امی ابو سے ضد کرتی کہ اسے بھی ویسی ہی چیز چاہیے، خواہ وہ اس کے کام کی ہو یا نہ ہو، اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی۔ سب اسے سمجھاتے تھے، مگر وہ کسی کی نہیں سنتی تھی۔

آج بھی ایک دوست کی سینڈل دیکھ کر اس نے ضد شروع کر دی کہ اسے بھی ویسی سینڈل چاہیے۔ امی کے بار بار سمجھانے پر بھی جب وہ بعض نہ آئی تو انہوں نے غصے میں اس کی پٹائی کر دی۔ جس کی وجہ سے اس نے رو رو کر گھر سر پر اُٹھا لیا۔

’’دیکھو بیٹا، تم دیکھتی ہو کہ تمہارے امی ابو کتنی محنت کرتے ہیں، ابو نوکری اور امی سلائی کر کے گھر کا خرچہ بمشکل پورا کرتے ہیں لیکن تم ہر وقت کوئی نہ کوئی فضول ضد شروع کردیتی ہو۔‘‘، دادی نے اسے مزید سمجھاتے ہوئے کہا۔

امی ابو ہم سے بہت محبت کرتے ہیں، وہ ہماری ہر خواہش اور ضرورت کو پورا کرنا چاہتے ہیں لیکن مجبور ہیں، ہمیں ان کی مجبوری کو سمجھنا چاہیے اور جو سینڈل تمہارے پاس ہے وہ بھی تو کتنی اچھی ہے اور تمہارے کپڑوں کی میچنگ کی بھی ہے۔ ویسے بھی کومل آپی کون سی ہماری رشتہ دار ہیں، وہی سینڈل پہن لو۔‘‘ صبا کی بڑی بہن حرا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا…

(جاری ہے)

اب ضد نہیں کروں گی
خالی جگہ پر درست حرف لکھ کر اشیاء کے نام مکلمل کریں


تازہ ترین
تازہ ترین